ایک گرل فرینڈ نے اپنے بوائے
فرینڈس سے بہت چاؤ سے پوچھا کہ آج میرے لئے کیا لائے ہو؟
اس نے جواب دیا کہ وہ جو سامنے لال رنگ کی گاڑی کھڑی ہے لال رنگ کی
تو لڑکی نے خوش ہوتے ہوئے کہا کہ ہاں ہاں تو اس نےکہا کہ اس رنگ کی پونی
لایا ہوں اپنی شہزادی کے لئے۔
حکمران اور عوام کا حساب بھی کچھ یہی ہے کہ حکمرانوں کے وعدے و دعوے،
بیانات و تقریرات ایفل ٹاور اور برج الخلیفہ کی بلندی کے آس پاس ہی ہوتے
ہیں مگر جب عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ بھی بالکل اس ڈرم کی طرح ہوتے ہیں
جو کہ خالی ہونے کی وجہ سے بہت ذیادہ بجتا ہے۔ بجتے تو حکمران الیکشن سے
پہلے بے تحاشا ہیں اور بالکل قالین کی مانند بچھ جاتے ہیں مگر جب الیکشن کا
کارپٹ لپٹ جاتا ہے تو اسی کارپٹ کے نچے یہ حکمران اپنے وعدے چھپاتے نظر آتے
ہیں۔
نظر تو حکمرانوں کو لگنے کا خدشہ خاص طور پر میڈیا کی آزادی کے بعد سے تو
اور بھی ذیادہ ہو گیا ہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ چوبیس گھنٹے تو ٹی وی کے سامنے
موجود ہوتے ہیں اور کوئی نہ کوئی بیان داغ رہے ہوتے ہیں یا سیاسی شوز میں
مخالفین پہ جملے تاک رہے ہوتے ہیں۔ اس تاک جھانک میں سب سے ذیادہ نقصان بے
چاری عوام کا ہی ہوتا ہے۔ عوام کو رہتا ہے کہ یہ لوگ یقینی طور پر کوئی
خوشی کی خبر سنائیں اور ایسا کبھی کبھار پوتا بھی ہے پر یہ کبھی کبھار پھر
دوبارہ الیکشنز کے دنوں میں ہی نازل ہوتا ہے کیونکہ حکمرانوں کو عوام تب ہی
نظر آنے لگتے ہیں۔
آنے اور جانے میں حکمرانوں کی باریوں کے الزامات تو ہر ایک لگائے جاتا ہے
آخر کو جس کی باری جانے کی ہوگی وہ شور تو مچائے گا اور مثل مشہور ہے کہ
چور مچائے شور ۔ آنے والا شور اسلئے نہیں مچاتا کہ اسکو امید ہوتی ہے کہ
جانے والا کچھ تو چھوڑ کر جاہی رہا ہوگا جس پر ہاتھ صاف کیا جاسکے۔ ہاتھ تو
عوام اور قانون کے بہت لمبے ہیں جبکہ قانون کے لمبے ہاتھ تو نظر نہیں آٹے
جبکہ عوام کے ہاتھ کسی چور لٹیرے کو پٹتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
دیکھا جائے تو کرپشن جتنی برسر اقتدار طببقے نے مچا رکھی ہے اتنی ہی اس
طبقے نے مچا رکھ ہے جو برسر اقتدار کبھی آنہیں سکتا اور وزیراعظم ہاؤس
جیسی جگہ پر جا نہیں سکتا مطلب عوام۔ اسی عوام میں سے تو آپکے دکاندار
پلمبر، ٹیکنیشنز، ریڑھی بان، ورکرز، ڈاکٹرز، ٹیچرز، ہیں۔ مگر آج حکمرانوں
کی بددیانتی کا گلہ ت وپنی جگہ مگر ان سب کی بددیانتی کا گلہ کس سے کیا
جائے۔
آپ کسی بھی دکان پر جائیں وہ زائد ریٹ وصول کرنے میں رہے گا چیز کی کوالٹی
کی کوئی گارنٹی بھی نہیں
آپ کسی پلمبر کو بلائیں وہ اک جگہ سے کام ٹھیک کرکے کسی دوسری جگہ سے گڑ بڑ
ضرور دکھا جائَ گا کہ آُپ اسکو واپس ضرور بلائیں-
آپ کسی ڈاکٹر کی بات کریں اسکی چھری تو بکرے کاٹنے کو سال کے تین سو پینسٹھ
دن تیز رہے گی-
آپ کسی مزدور کو بلا لیں اگر کام چوری کرنے کا موقع ملے ڈیوٹی آورز میں
فراغت کا وقت ضرور نکالے گا
آپ سببزی کپڑا گوشت پھل ریڈی میڈ کھانا اس تشویش کے ساتھ ہی خریدتے ہیں کہ
اس میں سے کتنے فیصد کوالٹی میں اچھا ہوگا -
آپ آفس آورز میں ورکرز تک کو دیکھ لیں وہ کام کرنے کو شایان شان ضرور
سمجھتے ہیں-
محنت ایمانداری لگن شوق تسکین ذات خوشی سنجیدگی تجسس بہتری -
یہ سب وہ خصوصیات ہیں جنکے بغیر آپ کام نہیں کر سکتے مگر ہم اسکے بغیر ہی
کام کرنا چاہتے ہیں-
آج ہم سب کام اسی طرح کر رہے ہیں اسی لئے ہمیں حکمران بھی ایسے ہی مل رہے
ہیں جو گاڑی کا وعدہ دکھاتے ہیں اور پقنی تھماتے ہیں -
|