بکھرتا ہوا بھگوائیوں کا شیرازہ

جس وقت دو ہمزادکے رشتہ ازلی کے خاتمہ بالحرص کا اعلان ہوا ہوگااس وقت بالیقین آنجہانی بال ٹھاکرے کی روح مضطرب ہوگئی ہوگی اورآنجہانی کو بعدمرگ اپنے خون جگر سے سینچے ہوئے باغ ار م کی تباہی وبربادی نیز’تفریق طمع‘کے باعث سخت صدمہ اورروحانی کوفت کاسامنا کرنا پڑاہوگاکہ جس پودے کوسینچ کر اولاد کی طرح پالاپوسا،بڑاکیا وہ ناگہاں انتشارکا شکارہوکر اپنے ہی ہم زاد وہمنواسے باہم دست وگریباں ہے۔مہاراشٹراسمبلی انتخابات کے محض ۲۰/روزقبل بی جے پی اورشیوسیناکے ۲۵/سالہ اتحادکاخاتمہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس عظیم جمہوری ملک کیلئے ایک نیک شگون بھی ہے ۔جہاں جہاں بھگوائیت پنپ رہی تھی وہاں اب سیکولرزم اورہندوستانیت جنم لے رہی ہے یہ کارنیک بھگوائیت کیلئے بھی ایک تازیانہ ثابت ہورہا ہے کہ ان کے افکارونظریات کا کس طرح جنازہ نکل رہا ہے۔ یوپی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے نتائج بھی ایک تازیانہ ثابت ہوئے تھے لیکن اب مزیداس ۲۵/سالہ بھگوارشتہ کا خاتمہ بھی مزیدکرب والم پیداکررہاہے۔

حالیہ گذشتہ عام انتخابات میں تاریخ سازجیت نے بھگواذہنیت کواوج ثریا کے مقابل کردیاتھا لیکن اس غرورکاخاتمہ اس طرح ہوا کہ جہاں انھوں نے عزت آمیزفتح حاصل کی تھی وہیں اب ذلت آمیز شکست نے غروروفتح مندی کوتحت الثری کے قدموں میں ڈال دیاہے۔ ہوش وحواس نے بھی اپنے ہوش گم کرلیے اورخود احتسابی کاموقع بھی اپنے ہاتھوں سے گنوادیا،بی جے پی ہویاپھرشیوسینااپنے افکارونظریات اورمطمح نظر نیزمذاق عمل میں دونوں مساوی ہے دونوں جماعت ایک ہی خط پرکاربندہواکرتی ہے اگربی جے پی نے اپنی مبینہ زہر افشانیوں سے ماحول کو پراگندہ کیاہے تو وہیں شیوسینانے اس پردادودہش نیزقول وعمل کی تحسین بھی پیش کی اورحوصلہ افزائی کاشرف بھی حاصل کیا۔

بی جے پی کے فائربرانڈیوگی آدتیہ ناتھ نے یوپی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ذلت آمیزشکست کے فوراًبعدایک بڑی معقول،اہم اورقابل غوربات کی تھی کہ ہمیں’’آتم ویش لیشن‘‘کی سخت ضرورت ہے اوران نکات پرغوروخوض کیاجانا چاہیے کہ کیا وجہ تھی کہ ہم عزت کے حصول کے بعد بھی ذلیل ہوگئے اور یہ ہمارابھگواعلم ہماری ناکامیوں کے باعث جھکاہواہے ؟خوداحتسابی کی جانب ایک نوجوان اور بدمست فائربرانڈیوگی نے توجہ مبذول کرائی تھی کہ جس کا وطیرہ ہی ہمیشہ سے اشتعال انگیزی کارہاہو اوریہی اس بندہ لات ومنات کاطرہ امتیازبھی ہے ۔جب کوئی بدمست شخص سنجیدگی کی جانب دعوت ِفکردیتاہے توتوجہ بھی دی جاتی ہے کہ آخرش وجہ کیا ہے کہ آج ایک دیوانہ بھی ہوش کی باتیں کررہاہے ؟بی جے پی اور شیوسیناکے اتحاد کا خاتمہ پس پردہ ’’خوداحتسابی‘‘کا نتیجہ بھی کہاجاسکتاہے کہ جس طرح یوپی میں ذلت آمیزہزیمت اٹھاناپڑی مباداکہیں وہی ذلت ،شکست اورشرمندگی مہاراشٹرکے اسمبلی انتخابات میں برداشت کرنانہ پڑے۔ظاہراًسیکولرافرادکے سامنے نفاق بالعمل اور نفاق باللسان کی اداکاری کی گئی ہے مگر باطنا ً دونوں کے دل ایک ہی ہیں،ایک ہی ایجنڈے پرکاربندہیں خواہ خط جداجداہوں مگرسررشتہ قلم تو ایک ہی مدارومحورپرقائم ہے ؛کیونکہ اگر ایسانہ ہوتاتویہ بات طرفین کی جانب سے بڑے وثوق اور اطمینان کے ساتھ بی جے پی خیمہ سے نہ کہی جاتی کہ’’شیوسیناسے دوستی کی روح بنی رہے گی‘‘۔دوستی کی روح کی کیا تشریح ہوسکتی ہے؟ کس کو دوستی کی روح کہتے ہیں؟اور دوستی کی روح کے کیا مضمرات ہیں؟ارباب فکر اور ملک کے متفکرین حضرات بخوبی جانتے ہونگے کہ ۱۹۸۴؁ءکے لوک سبھاکے الیکشن میں کس خط مستقیم اورامرمساوی کے باعث اتحاد قائم ہواتھااورکس منزل کی حصولیابی کیلئے دوسخت گیراورمتشددگروہ آپس میں گلے ملی تھی۔بابری مسجدکی جگہ کو رام مندرکے مفروضہ سے جو ڑکر ہندوتوکی ایک مضبوط بنیادڈالی گئی تھی اور۱۹۸۹؁ء کے لوک سبھا الیکشن میں بھی ایک ساتھ مل کر اس نظریہ کے تحت ووٹ مانگاتھا۔بابری مسجدکی شہادت کے معاًبعدبال ٹھاکرے کااعتراف جرم بھی یادہوگااوراڈوانی کی خفیہ میٹنگ بھی یادہوگی اس تناظرمیں کوئی بھی سالم العقل انسان فیصلہ کرسکتاہے کہ یہ دونوں جماعت کیاچاہتی ہے۔ بالیقین ان تمام تناظر میں دونوں جماعت کی روح کی وابستگی اور یکسانیت مسلم نظرآتی ہے ’’روح کی دوستی ‘‘کی دوسری تشریح یو ں بھی ہوسکتی ہے کہ انتخابات میں ایک دوسرے کوحریف سمجھیں اور ایک دوسرے کو نیچادکھانے کیلئے اپنی پوری توانائی صرف کرڈالیں لیکن سرشت و جبلت ایک ہی ہے حصول مقصودکے بعد پھرایک ہوجائیں اور اس کا اعلان بھی کردیں تاکہ جوپژمردگی بھگواافرادمیں پیداہوگئی ہے وہ خوش مذاقی میں بدل جائے ۔جب روح کی دوستی کی یہ تشریح ہوئی توپھراس رشتہ کے خاتمہ کااعلان چہ معنی دارد؟؟کہیں ایساتو نہیں کہ وہ بزعم خویش اپنی سابقہ روایات کو پس پشت ڈال کر سیکولر افرادکو جھانسہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ہم آج سے ایک دوسرے کیلئے اجنبی اور غیر ہوجاتے ہیں۔اورکیا یہ امید کرنا درست ہے کہ واقعی اس مبینہ ۲۵/سالہ اتحادمعنوی طور سے بھی ختم ہوگیا ہے؟؟یقینا یہ امید کرناسراسرخودفریبی اور ستم شعاری ہوگی کہ مذکورہ دونوں جماعت معنوی اور صوری دونوں طریقہ سے الگ ہوچکی ہے کیونکہ کتے کی دم ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہتی ہے اور یہ دونوں جماعت معناًاور صوراًکبھی بھی ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو سکتی اور پھران دونوں کا آپس میں ہمزاد کا رشتہ بھی تو ہے تو پھریہ امید کیوں کر؟؟بالفرض ہم اس کو درست بھی مان لیں تو اس انتشاراور خاتمہ کااعلان عام انتخابات کے دنوں میں بھی ہو سکتاتھا لیکن جس مقصد کیلئے یہ مبینہ ۲۵/سالہ اتحاد قائم تھا وہ مقصد تو۱۶/مئی کی شام میں ہی حاصل ہو چکاتھا اب اگرانتشار وافتراق کا اعلان ہو تاہے تو یہ یقینی او ر مسلم الثبوت ہے کہ اس ٹوٹتے ہو ئے رشتہ کے پیچھے ان کربناک اور غم افزانتائج سے حفظ ما تقدم کی سمت اقدام ہے جو ان کو یو پی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے دنوں میں حاصل ہو ئے تھے ۔محض اسمبلی انتخابات سے ۲۰/روز قبل اتحاد کے ختم ہوجانے کے کیا معانی ہو سکتے ہیں؟اور اس منافقت اور مفروضہ اداکاری کی کیا وجہ ہو سکتی ہے اگردونوں جماعتو ں کے بیان کردہ وجہوں کی سمت نظر کریں توظاہراًیہی واضح ہوتا ہے کہ سیٹوں کی تقسیم اور امیدوار کی نامزدگی کے تئیں درست مفاہمت قائم نہ ہو سکی اور صحیح رائے بھی تزلزل کا شکار رہی۔شیوسینااور بی جے پی کے لیڈران کے مضحکہ خیزبیانات ملاحظہ کریں تو کچھ اور ہی تصویر عیاں ہوتی ہے ،بی جے پی کی طرف سے کہا گیا کہ اس نے سیٹوں کی تقسیم میں کوئی مثبت دلچسپی نہ دکھائی تو وہیں باربار ایک ہی تجویز کو مناسب اور درست خیال کیا جواس کے حق اور مفاد میں بہتر تھی تو وہیں شیوسینانے اس کی وضاحت کی کہ این سی پی کے ساتھ خفیہ ڈیل ہوئی تھی اور مزید یہ کہ بی جے پی نے خود ہی اتحاد توڑنے میں عجلت سے کام لیا ہے۔ مزید شیوسینانے اس فریب کاری اور دھوکہ دہی کا ’’سامنا‘‘میں خوب جی بھرکرغصہ اتارا اور لعن و طعن کاکوئی بھی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیا اس کااداریہ اس کا گواہ ہے شیوسیناکی عقل مندی اور فن کاری دیکھیں کہ اس پورے معاملہ کو اپنے خود ساختہ بتوں کے حوالہ کردیا کہ اب اس کافیصلہ یہ بتانِ دیرکریں گے ۔

دونوں جماعت کے لیڈران کے مبینہ الزاما ت کوئی معنی نہیں رکھتے سوائے یہ کہ وہ سیکولر ووٹ کو منتشر کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے جو جمیع مقاصدہیں وہ پورے ہو جائیں۔اب اس صورتحال میں سیکولر افراد کیا کریں کس کو ووٹ دیں اور کس کو نہ دیں کیونکہ کانگریس اور این سی پی بھی منشر ہوچکی ہے اور ان کے درمیان جو رشتہ قائم تھاوہ محض ووٹ کی حرص اور اقتدار کی طمع کی وجہ سے ختم ہو چکا ہے یہ بھی اس وقت کا بڑاالمیہ ہے کہ سیکولر جماعت بھی منتشر ہوچکی ہے اس امر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہ تمام مخمصے صرف اورصرف سیکولر ووٹ کو منتشر کرنے کاسیاسی حربہ ہے اگراس ذیل میں ہوشیاری نہ دکھائی تو نتائج راست ہوں امیدکرناخطاہوگی۔

Iftikhar Rahmani
About the Author: Iftikhar Rahmani Read More Articles by Iftikhar Rahmani: 35 Articles with 26515 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.