چناب کی پٹی 1992کے تباہ کن سیلاب کے بعد حالیہ سیلاب سے
شدید متاثر ہوئی ہے۔بھارت کی طرف سے آنے والے تاریخ کے بڑے سیلابی ریلے نے
دریائے چناب کے آس پاس ہزاروں بستیوں اور کئی شہری علاقوں کو روند
ڈالا۔لاکھوں ایکڑکھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔پاک فوج اور حکومتی اداروں کی
کامیاب حکمت عملی سے سیلاب کا راستہ آگے بڑھنے سے تو روک لیا گیا ہے لیکن
سیلاب سے ہونے والے مالی نقصان کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔اگرچہ متاثرہ
علاقوں میں پانی اتر چکا ہے مگر 60فیصد متاثرین تاحال کھلے آسمان تلے سڑکوں
پر موجود ہیں۔ملتان کے علاقے شیرشاہ،قاسم بیلا،مظفرگڑھ ،جھنگ،وزیرآباد،حافظ
آباد،سیالکوٹ ودیگر علاقوں میں شہری آبادیاں بھی سیلاب سے شدید متاثر ہوئی
ہیں۔سینکڑوں پکے مکانات بھی سیلابی پانی کی نذر ہوگئے ہیں۔پاک فوج
اورحکومتی اداروں کی طرف سے متاثرین کو فوری طور پر جہاں تک ممکن ہوسکا
ریلیف دیا گیا۔سرکاری اداروں کے علاوہ سیاسی ،مذہبی وسماجی تنظیمیں بھی
سیلاب متاثرین کی مدد میں پیش پیش رہیں۔جماعۃ الدعوۃ کی فلاح انسانیت
فاونڈیشن،جماعت اسلامی کی الخدمت فاونڈیشن اورملک ریاض حسین کے بحریہ ٹاؤن
نے سیلاب متاثرین کی مدد میں حتی المقدور حد تک کوشش کی۔دیگر سیاسی وسماجی
تنظیموں نے بھی سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے اپنا حصہ ڈالا، لیکن جماعۃ
الدعوۃ کی فلاح انسانیت فاونڈیشن کا کردارقابل تحسین رہا۔ملک کے سیلاب
متاثرہ علاقوں میں جماعۃ الدعوۃ کے رضاکار سب سے پہلے متاثرین کا دکھ
بانٹنے پہنچے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پاک فوج کے بعد ملک بھر میں فلاح
انسانیت فاونڈیشن کے رضاکار ہی متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف آپریشن
میں نمایاں نظر آئے۔خصوصا جماعۃ الدعوۃ کے رضاکاروں کی طرف سے ریسکیو
آپریشن کی تو سب نے داد دی۔ملتان میں شیرشاہ بند کے قریب کشتی الٹنے پر
جماعۃ الدعوۃ کے رضاکاروں نے فوری طور پر ریسکیوآپریشن میں حصہ لیتے ہوئے
15جانیں بچالیں۔اس سے قبل بستی محمد پورگھوٹہ کے علاقے میں کشتی الٹنے پر
فلاح انسانیت فاونڈیشن کے واٹرریسکیو رضاکاروں نے ریسکیوآپریشن کرتے ہوئے
تمام افراد کو بحفاظت بچالیا تھا۔امیرجماعۃ الدعوۃ پاکستان پروفیسرحافظ
محمدسعید سمیت جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی ذمہ داران نے سیلاب متاثرہ علاقوں کے
ہنگامی دورے کیے۔انہوں نے ملتان کے سیلاب متاثرہ علاقے بستی محمدپورگھوٹہ
کا بھی دورہ کیا۔ملتان میں جاری ریسکیو اور ریلیف آپریشن کا جائزہ لیا اور
سیلاب متاثرین سے بھی اظہاریکجہتی کیا۔اس موقع پرمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ سیلاب مصنوعی اور بھارت کا پاکستان پر 1965سے بھی
بڑاحملہ ہے۔پاکستان میں موجودہ سیلابی صورتحال کا اصل ذمہ دار بھارت
ہے۔بھارتی آبی جارحیت پرحکومت کی خاموشی درست نہیں ہے۔پاکستان میں سیلابوں
کا راستہ روکنے کیلئے بھارت سے کشمیر کا قبضہ چھڑانا ہوگا۔امیرجماعۃ
الدعوۃحافظ محمدسعید کی باتیں حقیقت ہیں۔بھارت نے گذشتہ کئی سالوں سے
پاکستان پر آبی جنگ مسلط کررکھی ہے۔گذشتہ کئی سالوں سے یہی علاقے مسلسل
سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں۔حکمرانوں واپوزیشن میں بھارتی آبی جارحیت کیخلاف
آواز بلند کرنے کی جرات نہیں ہے۔وزیراعظم نوازشریف نے گذشتہ روز جنرل
اسمبلی میں خطاب کے دوران کشمیرکیلئے چند بول تو بولے لیکن افسوس کیساتھ وہ
بھارتی آبی جارحیت کا ذکر گول کرگئے۔ اس سے بھی بڑھ کرانہوں نے حالیہ سیلاب
کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں قراردیا۔جنرل اسمبلی کے موثر پلیٹ فارم پر ہم
اقوام عالم کے سامنے بھارتی آبی جارحیت کیخلاف اپنا مقدمہ پیش کرسکتے تھے
لیکن ہمارے حکمران ہمیشہ کی طرح عالمی برادری کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنے
میں ناکام رہے ہیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ مینگوڈپلومیسی،شالوں اور ساڑھیوں کے
تحفوں کے تبادلوں کی بجائے بھارت سے کھری،کھری بات کی جائے۔بھارت ہمارے
حکمرانوں کی خاموشی کا ناجائزہ فائدہ اٹھارہا ہے۔بھارتی آبی جارحیت کے
نتیجے میں سیلاب سے ایک کروڑ سے زائدلوگ متاثر ہوئے ہیں۔سینکڑوں قیمتی
جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔اب سیلاب تو تھم چکا ہے مگر ایک اگلا چیلنج سیلاب
متاثرین کی بحالی اور تعمیرنوکا ہے۔ عیدقربان سرپر ہے ،متاثرین کی اکثریت
کھلے آسمان تلے مقیم ہے۔سیلاب سے سینکڑوں کی تعداد میں کچے ،پکے گھرانے
زمین بوس ہوگئے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں گھررہنے کے قابل نہیں
رہے۔حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیلاب کے نقصانات کا جائزہ لیں اور
متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کریں۔فلاحی تنظیمیں بھی متاثرین سیلاب کی
بحالی اور تعمیر نو کیلئے سرگرم ہیں ۔حافظ محمدسعید کی تنظیم فلاح انسانیت
فاونڈیشن کی طرف سے عید کے موقع پر متاثرہ علاقوں میں ہزاروں جانور قربان
کرنے اور متاثرین کیلئے خصوصی دستر خواں لگانے کا اعلان کیا گیا ہے ،یقینا
یہ ایک طرح متاثرین کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کا طریقہ ہوگا اور
متاثرین سیلاب سے اظہاریکجہتی کا ذریعہ بھی۔ دیگر سیاسی وسماجی تنظیموں
بلکہ پوری قوم کو سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے آگے آنا ہوگا۔سیلاب سے
نقصانات کااندازہ لگانا مشکل ہے۔متاثرین پراس وقت مشکل کی گھڑی ہے۔ان کی
نظریں اس وقت حکومتی اداروں کے علاوہ سیاسی وسماجی تنظیموں اور مخیرحضرات
کی طرف بھی دیکھ رہی ہیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں کون ان کا دکھ بانٹے گا؟ |