پاکستان آئین تمام شہری کو تحفظ فراہم کرتاہے۔اور اس بات
میں بھی کوئی شک نہیں کہ تمام شہری پاکستان کے آئین کے محافظ ہیں۔گزشتہ
روزایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد شاہ رخ ارجمند نے تحریک انصاف کے وائس
چیئرمین شاہ محمود قریشی کی درخواست پر پارلیمنٹ کے سامنے ہنگامہ آرائی‘ 30
اگست کی شب تحریک انصاف کے کارکنوں پر فائرنگ‘ آنسو گیس پھینکنے اور قتل کے
الزام میں وزیراعظم نوازشریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور وفاقی وزرا
سمیت 11 اہم شخصیات کیخلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ مقدمہ
میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کی استدعا بھی منظور کر لی گئی۔ جن وفاقی
وزرا پر مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا گیا ان میں چودھری نثار علی خان‘ خواجہ
محمد آصف‘ خواجہ سعد رفیق اور اسلام آباد انتظامیہ کے افسر شامل ہیں۔
تاریخی گواہ ہے اور بزرگ کہتے ہیں کہ زندگی کے بے شمار رخ ہیں، ہر رخ کو
سمجھنا اور اسے سیکھنا غیر معمولی سوچ کا نتیجہ ہے۔ یہ رخ کبھی ہمیں رشتوں
میں باندھتا ہے تو کبھی صحرا کا مسافر بنادیتا ہے۔ کبھی درد کی تپش سہنا
سکھاتا تو کبھی پرسکون جھیل کی سیر کرواتا ہے۔ بات تو تب بنتی ہے جب ہم ہر
رخ کو سنبھال لیں اس کو سمجھتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔ چاہے یہ کسی ایک
فرد کے حوالے سے ہو چاہے ایک معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے ہو۔ یہ زندگی کے
بے شمار رخ ہیں ہم اپنا حصہ کیسے ڈالتے ہیں کہ کل حساب کے دن ہم یہ کہنے کے
قابل ہوسکیں کہ ہاں میں نے اپنا کچھ حصہ ڈالا تھا۔
آج کا دور، جدید سہولیات سے مزین ہے۔ ہر وہ سہولت اور آسائش ہے جو ہماری
زندگیوں کو باآسائش بناتی ہے، ہمارے سفر کو آسان کرتی ہے، وقت کو بچاتی ہے
اور ہمیں آسمان تک کی سیر کرواتی ہے۔ تو کیا یہ سب کافی ہیں؟ انفرادی اور
اجتماعی زندگی میں یہ سب بہت ضروری اور اہم ہیں۔ ان کی اہمیت اور ضرورت کے
حوالے سے کوئی دوسری بات نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ انفرادی
اور اجتماعی زندگی کے درمیان جو ایک پل ہے احساس کا، اپنائیت کا، خلوص اور
محبت کا، کیا یہ کھلا ہے؟ کہیں ایسا تونہیں کہ راستے بند ہو رہے ہوں اور
دونوں کا سفر خدشات اور بیگانگی کا شکار ہو۔ کچھ روز ہوئے ایک طالب علم بہت
ہی نالاں نظر آیا۔ اس کو اپنی زندگی بے مقصد نظر آتی تھی۔ اس کا خیال تھا
کہ وہ چاہے انفرادی طور پر، کتنی ہی کوشش کرے وہ معاشرے میں کوئی تبدیلی
نہیں لاسکتا۔۔۔ آپ کا کیا خیال واقعی ایسا ہے؟؟
یہ سوچ ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑتی جارہی ہے۔ ہر دوسرا بچہ اس طرح کی بات
کرتا نظر آئے گا کیوں؟ کیا وہ کچھ کرنہیں سکتے یا کرنا نہیں چاہتے؟ آخر
کیوں اس دھرتی کی خوبصورت کونپلوں نے ایسا سوچنا شروع کردیا ہے۔ یا یہ صرف
ان کی سوچ ہے۔
کہتے ہیں کہ دنیا میں وہی امیر ہے، بادشاہ ہے جس کا خیال، جس کی سوچ اعلیٰ
ہے۔ دنیا میں جتنے بھی نامور لوگ گزرے ہیں اگر آپ ان کی زندگی کی کہانی
پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا ان کی تمام تر کامیابیاں، ان کی اعلیٰ سوچ کا
نتیجہ تھیں۔ انہوں نے سوچا، انہوں نے کچھ کرنے کا سوچا، انہوں نے اعلیٰ
سوچا اور آخر کار اعلیٰ کاموں کی صورت میں دنیا کو بتایا کہ آخر انہوں نے
اپنی سوچ کو حقیقت میں بدل دیا۔
آپ کی سوچ آپ کا مستقبل ہوتی ہے۔ آپ یہ سوچ لیں کہ میں یہ نہیں کرسکتا یا
اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا تو آپ نے اپنی ترقی اور کامیابی کے دروازے کو
خود ہی تالہ لگادیا۔ کچھ مقصد حاصل کرنے کے لئے آپ کی سوچ کا بامقصد اور
اعلیٰ ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر آپ چاہیں تو آپ اپنی سوچ سے اندھیرے کو اجالے
میں اور ناامیدی کو امید کی کرنوں سے بھی آگے پہنچا سکتے ہیں۔ زندگی میں
ایک بات یاد رکھیں اگر آپ ایک غیر معمولی شخصیت بننا چاہتے ہیں تو آپ کو
اپنی سوچ، اپنا خیال بھی غیر معمولی اور بامقصد رکھنا ہوگا۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز شریف نے پنجاب ٹور ازم
کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کے سیاحتی مقامات
کو بین الاقوامی معیار کی سہولیات سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔ وادی سون سکیسر
کو آئیڈیل سیاحتی مرکز بنا دیا جائیگا۔ اﷲ تعالی نے ہمارے ملک کو بڑی فیاضی
سے حسین قدرتی مناظر اور صحت افزاء مقامات سے نواز رکھا ہے۔ انہوں نے کہاکہ
صوبائی ٹورازم پالیسی کا بھی جلد اعلان کر دیا جائیگا۔ ایک طرف حکومت صوبے
کے عوام کی ترقی کیلئے تگ ودو کررہی ہے دوسری طرف دھرنے والے پارلیمنٹ اور
پی ٹی وی پر دھاوے بول کر نہ صرف پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بن رہے
ہیں بلکہ ملکی معیشت کو بھی سخت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دھرنوں میں 10 لاکھ
بندے لانے والوں سے قوم سوال کررہی ہے کہ انکے پونے دس لاکھ بندے دھرنے میں
کیوں نہیں آئے۔ دھرنا ڈرامہ اب اپنے اختتام کے قریب ہے۔ پاکستان کے مسائل
دھرنے نہیں بلکہ سیلاب زدگان او رآئی ڈی پیز کے متاثرین ہیں ناچ گانوں کی
محفلیں سجانے او رجشن منانے سے مصیبت زدہ عوام کے آنسو پونچھنا کہیں زیادہ
ضروری اور مقدم ہے۔ میٹرو بس منصوبے کو جنگلا بس کہنے والے آج کس منہ سے
خیبر پی کے میں میٹروبس چلانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے
ورلڈ بنک نے فنانسنگ شروع کردی ہے۔ حکومت عوام کے مسائل کے خاتمے کیلئے دن
رات کام کر رہی ہے مگر یہ لوگ لندن پلان اور دیگرسازشوں کے ذریعے حکو مت کی
توجہ اس کے اصل کام سے ہٹانا چاہتے ہیں۔اور یہ تقریب بدنظمی کا شکارہوگئی۔
عالمی میڈیا نے پاکستان میں ہونے والے ہر واقع کو بریکنگ نیوز پوری دنیا
میں پیش کیا ۔جس سے آنے والے چندسالوں میں پاکستان کو مزیدپابندیوں کا
سامنا ہوگا۔جس کے پاکستان کے چندمحکمے ہوگئے۔ جن میں سرفہرست محکمہ صحت
،محکمہ تعلیم اور لوکل انتظامیہ کے افسرشامل ہیں۔کیونکہ کے محکمہ صحت کی
غفلت سے ہرروزبچوں سمیت تقریباً20افراد زندگی بازی ہاررہے ہیں۔محکمہ تعلیم
کو یہ معلوم نہیں کہ پاکستان میں سرکاری وغیرسرکاری سکولوں تعداد کیاہے۔
دہشتگردی میں استعمال ہونیوالی بغیررجسٹریشن اور بلا نمبری گاڑیوں اور موٹر
سائیکلوں کی تعداد کیا ہے۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ بے شک پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت عوام کی خدمت
میں دن رات کوشاں ہے۔اور سیلاب ہویا کوئی حادثے میں جاں بحق ہواہو۔حکومت نے
اس کے ورثاء کی مالی امداد کی ہے۔لیکن حقیقت کیا ہے اس پر توجہ نہیں
دی۔اگرحکومت صرف 22لاکھ سے زائد غیرقانونی گاڑیوں کیخلاف کارروائی کرے
توروزانہ80فیصد ٹریفک حادثات میں کمی آسکتی ہے اور قومی خزانے کو ایک ارب
سے زائد کی بچت ہوگی۔یہ کام ایک دن میں ہوسکتاہے ۔پاکستان کے قانون کے
مطابق کہ ہرشہری اور دکاندار کو پابندکیا جائے ۔گاڑی فروخت کرتے وقت وہ
خریدارسے قومی شناختی کارڈسمیت تمام چیک کرے۔پھرفروخت کرے۔ایسانہ کرنیوالوں
دونوں افراد کیخلاف بلاامیتازکارروائی کی جائے۔محکمہ صحت کا تو اﷲ ہی حافظ
ہے۔اگرمسلم لیگ ن کی حکومت نے ایسااقدامات نہ کئے تو آنے والے دنوں مقدمات
سمیت بہت سے ایسے مسائل سامنا ہو گا۔کیونکہ پاکستان عوام کئی حصہ میں تقسیم
ہو چکی ہے۔ان کے خیال میں پاکستان میں پھرجمہوریت ہار جائے گی۔ |