بہار آتی ہے تو کلیاں چٹک کر پُھول بنتی ہیں۔ ہر طرف رنگ
بکھر جاتے ہیں، خوشبو پھیل جاتی ہے۔ ماحول معطّر ہو جاتا ہے۔ عیدالاضحٰی کی
آمد پر بھی قربانی کے جانوروں کی ریل پیل سے شہر کی ہر گلی ’’گل و گلزار‘‘
ہو جاتی ہے، ہر طرف ’’خوشبو‘‘ بکھر جاتی ہے۔
ہر سال جب عیدالاضحٰی آتی ہے تو ہم قربانی کے جانوروں کو دیکھ کر اُداس ہو
جاتے ہیں۔ آپ عُجلت میں ہماری اُداسی سے متعلق کوئی غلط اندازہ نہ لگائیں۔
ہماری اُداسی یہ سوچ کر نہیں ہوتی کہ جانوروں کے حلق پر چُھری پِھرے گی۔ یہ
کون سی نئی بات ہے، یہ تو ہم جیسے شادی شُدہ مَردوں کا مشترکہ مُقدّر ہے!
مویشی سال بھر ایویں ای جان سے جاتے رہتے ہیں۔ دو تین دن براہِ راست اﷲ کی
راہ میں جان دینے سے اُن کے درجات کچھ بلند ہی ہوجاتے ہیں۔ اب آپ ہی سوچیے
کہ کسی کے درجات کو بلند ہوتے دیکھ کر ہم کیوں اُداس ہونے لگے۔
جب بھی کوئی قربانی کا جانور خریدنے کے لیے ہمیں مویشی منڈی چلنے کی دعوت
دیتا ہے، ہم بہت احترام سے انکار کردیتے ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید
ہمیں قربانی کے جانوروں کے نزدیک جانا پسند نہیں، یعنی ہم اُن کے inner
circle میں پائی جانے والی ’’خوشبو‘‘ سے ناک کا دامن بچاتے ہیں۔ جی نہیں،
ایسی کوئی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا احترام ہم انسانوں کا کرتے ہیں
اُس سے کچھ زیادہ احترام جانوروں کا اور بالخصوص قربانی کے جانوروں کا کرتے
ہیں۔ اِس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ہم نے بہت سے اِنسانوں کو کسی
کام کا نہیں پایا۔ اور اگر کسر نفسی سے کام نہ لیا جائے تو کہنا پڑے گا کہ
ہم نے بیشتر اِنسانوں کو بے مصرف ہی پایا ہے۔ مگر جانوروں کا معاملہ ایسا
نہیں ہے۔ ہر جانور کو ہم نے اُس کے حصے کا کام کرتے دیکھا ہے۔ وہ ماحول کو
کچھ نہ کچھ فیض پہنچا ہی دیتا ہے۔ ایک انسان ہی ایسی مخلوق ہے کہ بے فیض
پہنچائے بھی زندہ رہ لیتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایسی حالت میں زیادہ
مَسرّت سے ہمکنار رہتی ہے!
خیر، مصرف و توقیر کی یہ بحث پھر کبھی سہی۔ بات ہو رہی ہے قربانی کے
جانوروں کی۔ ہم عیدالاضحٰی پر لگنے والی مویشی منڈیوں میں جانے سے اِس لیے
گریز کرتے ہیں کہ وہاں جانوروں سے آنکھ ملاتے شرم آتی ہے۔ بات دراصل یہ ہے
کہ چار ٹانگوں والے مویشیوں کی وقعت اور توقیر دیکھ کر اپنی بے توقیری کا
احساس مزید شِدّت اختیار کرلیتا ہے۔ اُن کے دام سُن کر جی چاہتا ہے کہیں
ڈوب مَریں مگر کیا کریں کہ اب ڈوب مَرنے جتنا پانی بھی آسانی سے میسر نہیں!
آپ سوچیں گے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس ملک میں سیلاب آیا ہوا ہو وہاں ذرا سا
پانی میسر نہ ہو۔ بات یہ ہے کہ ڈبونے والا پانی تو بہت ہے، وہ پانی کمیاب
ہے جس میں ڈوب مَرا جائے!
جب ہم قربانی کے جانوروں کو لاکھوں میں فروخت ہوتا دیکھتے ہیں تو اپنے
گریبان میں جھانکنا ہی پڑتا ہے۔ اور ہم نے مویشی منڈی میں کھڑے ہوکر جب بھی
اپنے گریبان میں جھانکا ہے، اپنی حقیقت اور حیثیت پر شرمندہ ہی ہوئے ہیں۔
قربانی کے جانوروں کے مقابل ہم خود کو اِنسانوں کے نمائندے کی حیثیت سے
دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ جانور تو دس دس پندرہ پندرہ لاکھ میں فروخت ہوتے
ہیں اور اِنسانوں کی بے توقیری یہ ہے کہ حادثے میں مرجائیے تو حکومت فی کس
دو لاکھ روپے کا اعلان کرکے جان چُھڑالیتی ہے! ذہن میں یہ خیال اُبھرتا ہے
کہ یہ بھی غنیمت ہے ورنہ اِنسان نے خود کو مکمل بے توقیر کرنے میں اب کیا
کسر چھوڑی ہے!
کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اﷲ نے جانور قربان کرنے کی رسم
اِنسانوں کو آئینہ دکھانے کی خاطر رکھی ہے۔ یعنی ہر سال ہم مویشی منڈی
جائیں، قربانی کے جانوروں کی قیمت دریافت کریں اور اُن فلک بوس قیمتوں کے
آئینے میں اپنی حیثیت کا جائزہ لے کر شرمسار ہوں۔ اگر ضمیر مَر نہ گیا ہو
تو اِنسان قربانی کے جانوروں کے قیمت سُن کر سوچ ضرور سکتا ہے کہ میں بھی
کچھ ایسا کروں کہ لوگ زیادہ قیمت دیں، احترام کی نظر سے دیکھیں۔ یعنی
قربانی کے جانوروں کی قیمتیں ہمیں inspire اور motivate بھی کرسکتی ہیں۔
شخصی ارتقاء کے ماہرین چاہیں تو ایک نئے موضوع پر طبع آزمائی کرسکتے ہیں۔
موضوع ہے قربانی کے جانوروں کی قیمتیں اور شخصیت کی تعمیر و تشکیل!
مرزا تنقید بیگ کے سامنے جب ہم قربانی کے جانوروں کی قیمت کی بات کرتے ہیں
تو وہ بھی اپنا سا مُنہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ ہم اُن کی مجبوری سمجھتے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد سے گھر میں مرزا کی حیثیت بُوڑھی مریل گائے کی سی ہوگئی
ہے جو کسی کو دیتی کچھ نہیں مگر زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کھانے کو ضرور
مانگتی ہے!
جب گلی کے بچے قربانی کے جانوروں کو سیر کرانے نکلتے ہیں تب مرزا کے دل پر
قیامت سی گزرنے لگتی ہے کیونکہ بھابی آنکھوں ہی آنکھوں میں اُنہیں جتانے
لگتی ہیں کہ آپ سے اچھے تو قربانی کے جانور ہیں جو لاکھوں میں بِکتے ہیں
اور لوگ اُن کے ناز بھی اُٹھاتے ہیں! ایسے لمحات میں ہم نے مرزا کو یہ باور
کرانے کی کوشش کی ہے کہ دل چھوٹا نہ کریں، آپ کوئی انوکھے بکرے۔ ہر گھریلو
مویشی منڈی کی یہی کہانی ہے!
مرزا کا استدلال ہے کہ گھر والے اُنہیں کچھ سمجھتے ہی نہیں، گھاس ہی ڈالتے۔
ہماری رائے یہ ہے کہ کوئی کیوں گھاس ڈالے گا، گھاس کوئی مفت ملتی ہے؟ مرزا
یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ فی زمانہ اگر کوئی اِنسان دوسرے اِنسان کو
گھاس نہیں ڈالتا تو یہ معاملہ ایک دوسرے کو غیر اہم سمجھنے کا نہیں بلکہ
جانوروں کو اہم سمجھنے کا ہے! اب گھاس کے دام بھی اِتنے بڑھ چکے ہیں کہ یہ
صرف کارآمد جانوروں ہی کو ڈالی جاسکتی ہے!
جب مرزا زِچ ہوجاتے ہیں تو زندگی بھر اہل خانہ کی بھرپور خدمت کا حوالہ
دینے بیٹھ جاتے ہیں۔ اُن کا زور اِس بات پر ہوتا ہے کہ اُنہوں نے پوری
جوانی، بلکہ زندگی رات دن گدھے کی کام کرتے گزار دی۔ مگر اِس کا صِلہ دینے
کی کسی کو توفیق نہیں۔ سب نے ہمیشہ ’’دل مانگے اور‘‘ کے اُصول پر عمل کیا
ہے۔ یعنی دُم ہلاکر سب کا بوجھ اُٹھاتے جائیے اور کوئی صِلہ طلب نہ کیجیے۔
مرزا کا مطالبہ ہے کہ قربانی کے جانوروں کی طرح اُن کا بھی احترام کیا جانا
چاہیے کیونکہ اُنہوں نے بھی زندگی بھر اپنے حلق پر چُھری پِھروائی ہے۔ اب
ہم اُنہیں کیا سمجھائیں کہ قربانی کے جانور اور اُن میں واضح فرق ہے۔
قربانی کے جانور کا باضابطہ ذبیحہ ہوتا ہے جبکہ شادی شدہ مَرد کو ہمیشہ
جھٹکے کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے! یعنی بے چارہ بار بار جان سے بھی جاتا ہے
اور ذبیحے کی سعادت سے بھی محروم رہتا ہے! اور مرزا یہ بات بھی بھول جاتے
ہیں کہ جب اُنہوں نے زندگی بھر گدھے کی طرح محنت کی ہے تو گھر والے اِس عمر
میں اُنہیں بکرے کا، بلکہ قربانی کے بکرے کا درجہ کیوں دیں! گھر والے اِتنے
گدھے تو نہیں ہیں کہ گدھے اور بکرے کا فرق نہ سمجھ پائیں!
ہم آپس کی گفتگو میں کسی بھی بھی مظلوم شخص کو قربانی کے بکرے سے تشبیہہ
دینے میں بُخل سے کام نہیں لیتے۔ کبھی ہم نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے
کہ قربانی کے بکرے کی کتنی قیمت اور توقیر ہے؟ اِنسان تذلیل کے جن مراحل سے
گزر رہا ہے اُن کے پیش نظر اگر قربانی کے بکروں کو معلوم ہوجائے کہ بہت سے
دو ٹانگوں والے بکروں کو اُن سے تشبیہہ دی جاتی ہے تو ہمیں یقین ہے کہ وہ
یعنی چار ٹانگوں والے حقیقی بکرے پانی کی آمد کا انتظار کئے بغیر ہی شرم سے
ڈوب مَریں! |