سال2009 میں دہشتگردی سارا سال ملک کو جلاتی رہی

پاکستان میں2009ﺀ کا سال بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے لحاظ سے انتہائی دردناک رہا جس میں سینکڑوں خاندان اجڑے، بہت سے لوگوں کی جانیں گئیں ہزاروں زخمی ہوئے اور سینکڑوں کی تعداد میں دوکانیں اور سرکاری املاک دھماکوں کی زد میں آئیں ملک کے مشہور شاپنگ سنٹرز، فائیو سٹار ہوٹلز، تعلیمی ادارے، تربیتی مراکز اور ملکی وغیرملکی دفاتر بھی دھماکوں کے باعث ملبے کے ڈھیر اور کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے اس کے علاوہ درجنوں مساجد بھی شہید ہوئیں 2009ء کا ہر ماہ پشاور اور ملک کے دیگر شہروں میں بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی آوازوں سے گونجا اور سال کا ہر دن، ہر منٹ اور ہر سیکنڈ شہریوں کے لئے خوف کی گھنٹی بجاتا رہا 2009ء کے اس خوفناک سال نے ایسے گھروں کی بھی خوشیاں اجاڑیں جنمیں مہندی، شہنائیوں اور ڈھول کی آوازیں سسکیوں اور آہوں میں تبدیل ہوئیں کئی نوجوان لڑکیاں اور لڑکے جن کی شادی یا منگنی کے دن قریب تھے، اپنے سہانے مستقبل کے سپنے آنکھوں میں لئے دنیا سے رخصت ہوگئے کئی مائیں اور بہنوں کے سروں کا دوپٹہ چھین گیا اور بہت سی خواتین اپنے پیاروں کی یاد میں یا تو کوما میں چلی گئیں یا پھر اس دنیا سے ہی کوچ کر گئیں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہاتھوں میں تسبیح اور سر پر ٹوپی پہنے نمازی بھی شدت پسندوں کی انسانیت سوز روش سے محفوظ نہیں رہے۔ 2009ﺀ کا یہ سال ہر لحاظ سے غمزدہ رہا اگر ہم اس سال کو معاشی، اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری کی شعبوں کے قتل عام سال کہیں تو بے جا نہ ہوگا ان حالات کے باعث پوری قوم خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگی تفریحی مقامات، سینما ہال، تھیٹر یہاں تک کے مساجدوں میں بھی جانے سے لوگ ڈر کے باعث کترا رہے ہیں 2009ﺀ میں صرف عام شہریوں ہی نہیں بلکہ ہماری بہادر فوج کے اہلکاروں نے بھی دہشت گردوں کے مزموم عزائم خاک میں ملانے کی جدوجہد کے دوران اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیا سوات اور مالاکنڈ ڈویژن کا کامیاب آپریشن بھی اسی سال ہوا جبکہ خیبر ایجنسی سے وزیرستان تک اور باجوڑ سے کرم ایجنسی تک پاک فوج دہشت گردوں کے تعاقب میں رہی اور نہایت جرات مندی سے شدت پسندوں کی ہر چال کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کی کمر توڑ دی۔ سیکورٹی فورسز کا ذکر کرتے وقت اگر صوبہ سرحد کی پولیس فورس کو نظرانداز کردیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی کیونکہ صوبہ سرحد کی پولیس فورس نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران جرات اور بہادری کی بے مثال تاریخ رقم کی یہاں تک کے پولیس اہلکاروں نے کئی خودکش حملوں کے منصوبے ناکام بنائے اور شہادت کو گلے لگا کر ملک کا قیمتی سرمایہ اور قوم کی جانیں محفوظ بنائیں۔ 2009ﺀ کا آخری مہینہ دسمبر بھی کسی عذاب سے کم نہ تھا ماہ دسمبر کا آغاز ہوتے ہی سوات، اسلام آباد اور پشاور میں تخریب کاری کے واقعات رونما ہوئے۔ پہلے چار روز کے دوران یکم دسمبر کو سوات میں رکن سرحد اسمبلی ڈاکٹر شمشیر علی خان کے حجرے پر خودکش حملہ ہوا جس میں ایم پی اے کی شہادت ہوئی جبکہ اگلے ہی روز دو دسمبر کو اسلام آباد کے نیول ہیڈ کوارٹر کے داخلی گیٹ پر خودکش حملہ کیا گیا، تین دسمبر کو پشاور کے مضافاتی علاقے ریگی میں قائم پولیس چیک پوسٹ کے قریب ریموٹ کنٹرول سے بم دھماکہ کیا گیا جس میں دو سیکورٹی اہلکار زخمی ہوئے جبکہ 4دسمبر کو روالپنڈی میں پشاور روڈ پر واقع پریڈلین مسجد میں خودکش دھماکہ ہوا جس میں 40 سے زائد نمازی شہید ہوئے۔2009ﺀ اپنے اختتام کے قریب ہے تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ 2010ﺀ میں بھی داخل ہوگی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیرستان میں پاک فوج کے کامیاب آپریشن کے نتیجے میں جس طرح دہشت گردوں کو کاری ضرب لگی ہے اور دہشت گرد حواس باختہ ہو کر اپنی پوری شدت سے معصوم جانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گرد اس چراغ کی شکل اختیار کرچکے ہیں جس کی لو بجھنے سے پہلے پوری شدت سے بھڑکتی ہے یہ حقیقت پاکستانی قوم کے دلوں میں امید جگا رہی ہے کہ انشاﺀ اللہ 2010ﺀ پاکستانی عوام کے لئے دہشت گردوں سے نجات کا سال ثابت ہوگا۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 90602 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.