جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کی صدارت اور بنیادی رکنیت سے
استعفیٰ دیدیا، ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھاکہ عمران خان کا
رویہ غیر جمہوری ہے اور تحریک انصاف میں بادشاہت قائم ہورہی ہے اورمیں ایسی
پارٹی میں نہیں رہنا چاہتا جو جمہوریت تباہ کرناچاہتی ہو۔ بقول جاوید ہاشمی
تحریک انصاف اورعمران خان کا گراف روز بروز گررہا ہے۔ اسی پریس کانفرنس میں
بلال عرف بلو بٹ جو کل تک جاوید ہاشمی کو ملتان کی سیاست پر بدنما داغ قرار
دیتا تھا آج جاوید ہاشمی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ بلال عرف بلو بٹ جب جاوید
ہاشمی کو ن لیگ کی جانب سے ضمنی الیکشن میں حمایت کا یقین دلارہا تھا تو وہ
یہ بھول گیا کہ جاوید ہاشمی کے بارے میں وہ کیسے نیک خیالات ظاہر کرچکا
ہے۔یہ وہی بلو بٹ ہے جس پر ملتان میں شاہ محمود قریشی کے گھر پر حملے کا
الزام بھی تھا۔ جبکہ جاوید ہاشمی فرمارہے تھے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت سے اب
میرا کوئی رابطہ نہیں ہے لیکن میں نواز شریف، شہباز شریف، مسلم لیگ ن کی
قیادت کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری حمایت کا اعلان کیا۔ اس سے پہلے
جاوید ہاشمی نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُنہیں موت کے بعد مسلم لیگ
کے پرچم میں لپیٹ کر دفن کرا جائے ۔ جاوید ہا شمی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ
ن سے میرا 37 سال کا تعلق ہے، اُنہوں نے کہا کہ میں جب تحریک انصاف میں
شامل ہوا تھا تو اپنے بچوں کو وصیت کی کہ اگرچہ میں تحریک انصاف میں آگیا
ہوں لیکن موت کے بعد مجھے مسلم لیگ کے پرچم میں دفن کرنا۔ کہتے ہیں سیاست
میں کچھ بھی حرف آخر نہیں، لیکن ہمارئے ملک میں یہ ضرور ہوتا ہے کہ سیاست
دان باغی بھی ہوتے ہیں اور داغی بھی۔ جاوید ہاشمی کی وصیت تو یہ ہی بتارہی
ہے۔
تحریک انصاف کے دھرنے سے علیحدہ ہونے کے بعدجاوید ہاشمی نے ایک پریس
کانفرنس میں کہا کہ عمران خان نے فوج اور سپریم کورٹ کو بدنام کیا ، وہ ایک
منصوبہ بندی کے تحت اسلام آباد آئے ہیں، جس کا باقاعدہ اسکرپٹ لکھا ہوا
ہے لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ یہ سب منصوبہ بندی کس نے کی ہے۔ عمران خان کو
ملک کے آئین و قانون کی پروا نہیں، انہوں نے ہر وعدہ توڑا ہے، عمران خان
نے تمام ممبران اسمبلی سے زبردستی استعفے لیے اور اس وقت مجھے تشویش ہوئی
کیونکہ یہ عمل چھوٹی بات نہیں بلکہ ایک منتخب اسمبلی پر ہتھوڑا مارنے کے
مترادف تھا ، اگر فوج ، آئی ایس آئی اور عدلیہ کو لتاڑ کر اقتدار لیا
جائے تو میں ایسے اقتدار کا حصہ نہیں بن سکتا، میں اس سازش کا حصہ نہیں ہوں،
عمران خان کی ہر قدم پر مخالفت کی جبکہ عمران خان نے لکھ کر دیا تھا کہ
مارشل لا کی حمایت نہیں کروں گا اور آئین و قانون کی بالادستی کو مانتا
ہوں۔جاوید ہاشمی کے الزامات تو اور بہت سے ہیں لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ کیا جاوید ہاشمی کو دھرنے سے علیحدہ ہوتے وقت عمران خان کی
آئین و قانون کے خلاف اقدامات کا پتہ چلا یا پہلے سے پتہ تھا، لازمی بات
ہے پہلے سے پتہ تھا تو وہ کو ن سیاسی مجبوری تھی جس نے جاوید ہاشمی کو سچ
بولنے سے روکے رکھا اور اُنہیں تحریک انصاف میں جکڑئے رکھا؟ اسی پریس
کانفرنس میں جاوید ہاشمی نے کہا کہ نوازشریف کی ناقص کارکردگی سب سے زیادہ
تباہی لائی ہے، نوازشریف نے ملک کے ساتھ زیادتی کی ہے، وہ قوم کی امنگوں پر
پورا نہیں اترے۔ آج پورا ملک حکومت کی نااہلی کے باعث اس دہانے پر پہنچ
چکا ہے، میں آئین کو بچانے کیلئے سچی بات کہہ رہا ہوں۔
آیئے تھوڑا سا ماضی میں چلتے ہیں اور جاوید ہاشمی کے ماضی میں یہ دیکھتے
ہیں کہ وہ آئین و قانون کی بالادستی کےلیے کیا کچھ کرتے رہے ہیں، ایک اور
چیز بھی معلوم کرتے ہیں کہ وہ باغی ہیں یا داغی، یا پھر دونوں؟ مخدوم جاوید
ہاشمی زمانہ طالبعلمی میں جماعت اسلامی کی طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کے
سرگرم رکن رہے اورسال 1971ء میں پنجاب یورنیورسٹی کی اسٹوڈنٹس یونین کے صدر
منتخب ہوئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جاوید ہاشمی مولانا مودودی کی خدمت میں
حاضر ہوئے جنہیں وہ اپنا مرشد او رہنما تسلیم کرتے تھے۔ جاوید ہاشمی نے
مولانا مودودی سے کہا کہ میں تعلیم اور جمعیت سے فارغ ہوچکا ہوں مگر جماعت
اسلامی میں شمولیت اختیار نہیں کررہا۔ میرے لئے دعا کریں۔ مولانا مودودی نے
فورا دعا کے لئے ہاتھ اٹھادئیے، اور دعا کی کہ یا اللہ اس نوجوان سے اپنے
دین کی خدمت لے لے۔ (بحوالہ جاوید ہاشمی کی کتاب، ہاں میں باغی ہوں)، دین
کی تو جاوید ہاشمی کیا خدمت کرتے لیکن شاید مولانا مودودی سمجھ گے تھے کہ
اس بندئے کوجماعت اسلامی میں لانا جماعت اسلامی کےلیے ٹھیک نہیں ہوگا۔
1977ء میں جاوید ہاشمی لاہور سے قومی اتحاد کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی
نشست کے لیے امیدوار بنے تاہم قومی اتحاد نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔
جاوید ہاشمی نے کچھ عرصہ سابق ائیر مارشل اصغر خان کی جماعت تحریک استقلال
میں گذارا اور بعد میں وہ مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔
جاوید ہاشمی نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنی عملی
سیاست کا آغاز 1978ء میں فوجی آمریت کے سائے میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل
ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیر مملکت برائے امور نوجوانان کی حیثیت سے کیا۔
یہاں اس بات کا ذکر بھی لازمی ہے کہ اُس وقت جاوید ہاشمی پرقتل کے الزامات
کی خبریں بھی اخبارات میں آرہی تھیں۔جاوید ہاشمی جو آج آئین و قانون کی
بالادستی کا رونا رو رہے ہیں کل اُن کا سیاسی گروُ صرف نوئے دن اقتدار میں
رہنے کا وعدہ کرنے والا فوجی آمرجنرل ضیا الحق آئین کے بارئے کہتا تھا کہ
"میں آپ کو یقین دلاتا ہوں مجھے اداکاری نہیں آتی، اگر مجھے سیاسی اقتدارکی
خواہش ہو تو مجھےروکنے والا کون ہے۔ فوج میرے ساتھ ہے اور میرے پاس طاقت ہے
جو جی میں آئے کروں ۔ آئین کیا ہوتا ہے؟ دس بارہ صفحات کا ایک کتابچہ۔ میں
کل ہی اسے پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں اور ایک نئے نظام کے تحت حکومت شروع کر
سکتا ہوں۔ کون ہے جو مجھے روکے گا۔" تاہم بعدازاں جاوید ہاشمی وزیر بننے کے
اقدام پر افسوس کا اظہار بھی کرتے رہے لیکن جاوید ہاشمی تو اُس دن ہی داغی
ہوگے تھے جب فوجی آمرجنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی
اور جاوید ہاشمی فوجی آمر کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جاوید ہاشمی اور نواز
شریف مشرف کےلیے آمر کا لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن دونوں ہی آمر کی گود میں
پلے ہیں۔
ضیاء الحق کی موت کے بعد محمد خان جونیجو کی جونیجو یا ج لیگ پرنوازشریف نے
قبضہ کرلیا اور پھر ج لیگ ن لیگ بن گئی اور اس ن لیگ کے بننے کے بعد جاوید
ہاشمی بھی اس میں شامل ہوگے، ن لیگ کے مالک نواز شریف تھے۔ دسمبر 2000ء میں
جب مسلم لیگ ن کےسربراہ نواز شریف اپنے خاندان کےہمراہ سعودی عرب چلے گئے
تو جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ ن کا قائم مقام صدرمقرر کیا گیا تھا۔ نواز شریف
کی واپسی سے قبل جاوید ہاشمی نے اپنا زیادہ وقت جیل میں گذارا اوراس درمیان
میں ہی انہوں نے اپنی کتاب "ہاں میں باغی ہوں" لکھی۔ اُن پر غیرقانونی
اثاثے بنانے اور ایک پریس کانفرس میں یہ دعویٰ کرنے پر کہ انہیں فوج کے
مونوگرام والے لیٹر ہیڈ پر فوجی حکمرانوں کے خلاف ایک خط موصول ہوا ہے کے
الزامات میں گرفتار کیا گیاتھا۔ جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن کےسنیئر نائب
صدرتھے اور 2008ءکےانتخابات میں جاوید ہاشمی تین مختلف حلقوں سےرکن اسمبلی
منتخب ہوئے، لیکن اُس وقت تک اُن میں اور نواز شریف میں دوریاں پیدا ہوچکی
تھیں۔ جاوید ہاشمی جو اب اپنے آپ کو مسلم لیگ ن کرتا دھرتا سمجھ رہے تھے
انہوں نے اپنی جماعت کی پالیسیوں پر بھی تنقیدشروع کردی جو لازمی مسلم لیگ
ن کے رہنما یا مالک نواز شریف کو پسند نہ آیں اور اختلافات بڑھتے چلے گے۔
25 دسمبر 2011ءکو جاوید ہاشمی نے ن لیگ سے بغاوت کی اور تحریک انصاف کو
جوائن کرلیا۔
یکم اکتوبر 2014ء کو جاوید ہاشمی نے تحریک انصاف کی صدارت اور بنیادی رکنیت
سے استعفیٰ دیدیا جبکہ تحریک انصاف اور عمران خان سے بغاوت وہ پہلے ہی
کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف کے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جاوید ہاشمی نے کہا
تھاکہ عمران خان کرپشن کے خلاف جنگ کر رہے ہیں اور وہ جمہوریت کے استحکام
کی اس جنگ میں ان کے شانہ بشانہ ہیں۔ اُس وقت تجزیہ نگار جاوید ہاشمی کی
تحریک انصاف میں شمولیت کو مسلم لیگ ن کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے
تھے۔ تحریک انصاف کے کراچی کے جلسے میں شاہ محمود قریشی لوگوں سے جاوید
ہاشمی کےلیےپوچھ رہے تھے کہ باغی ہے یا داغی ہے۔ ملتان کےضمنی انتخابات میں
الیکشن کمیشن نے آزادا میدوار جاوید ہاشمی کو بالٹی کا نشان الاٹ کر دیا
ہے، سنا ہے لوٹے کے نشان پر پابندی ہے۔اگر جاوید ہاشمی ملتان کےضمنی
انتخابات میں کامیاب ہوکرواپس مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرتے ہیں
تونواز شریف کو اسلام آباد کے دھرنوں کا بونس مل جائے گا جبکہ شاہ محمود
قریشی کے سوال کا جواب تو یہاں پہلے ہی موجود ہےکہ تین جماعتوں اور ایک
فوجی آمر کو چھوڑنے والا جاوید ہاشمی باغی بھی ہے اور داغی بھی۔ |