مرتب کردہ آڈیو ٹائمز
محمد اشرف عطاری
چلنے پھرنے سے معذور تھا مگر قوم کو تن کر چلنے کی ترغیب دیتا تھا۔اس کی
آنکھیں بے نور تھیں پھر بھی وہ آزاد مملکت کا خواب دیکھتا تھا۔ تبھی تو اس
کا نام سن کر امریکا و اسرائیل پہ لرزہ طاری ہوجاتا تھا۔ اسرائیلی اس معذور
شخص سے اتنے خوفزدہ ہوگئے تھے کہ اس کے خلا ف ہوائی فوج کو استعمال کرنے پر
مجبور ہوگئے۔اسرائیل کے خلاف مزاحمتی قوت میں سے ایک بڑی قوت کا ذکر خاص
دونوں تقریباً ایک ہی عمر کے تھے۔ بارہ تیرہ برس کے۔ ان میں سے ایک کا نام
احمد اور دوسرے کا عبد اﷲ الخطیب تھا۔ عبد اﷲ ہاتھ پاؤں کا مضبوط تھا جبکہ
احمد دبلا پتلا۔ اس کے باوجود احمد نے عبد اﷲ کو کشتی لڑنے کا چیلنج دے دیا
تھا۔ یہ کشتی غزہ کے مہاجر کیمپ میں ہورہی تھی۔
آس پاس تماشا دیکھنے والے جمع ہو گئے تھے عوتیں، مرد اور بچے۔ یہ سب کے سب
پناہ گزین تھے....وہ بہت بڑا کیمپ تھا۔ اس کیمپ میں وہ لوگ پناہ گزین تھے
جو اسرائیلی مظالم سے تنگ آکر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان میں
احمد کا خاندان بھی تھا۔
یہ بچہ اپنے باپ کے بغیر اپنے چار عدد بھائیوں اور دو بہنوں کے ساتھ اس
کیمپ میں رہتا تھا۔ یہ لوگ القبرا نام کے گاؤں سے آئے تھے۔ جب فلسطین پر
برطانوی راج تھا تو اس گاؤں میں احمد کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس سے بڑے بھائی
اور بہن تھے۔ سوائے ایک بہن کے جو اس کی پیدائش کے ایک سال بعد دنیا میں
آئی تھی۔
اس کے باپ کا نام عبد اﷲ یاسین تھا۔ وہ ایک بیدار مغز سچا مسلمان تھا۔ اسے
اس بات پر افسوس ہوا کرتا کہ مسلمان اپنی حالت کیوں نہیں سدھارتے ۔ ان کے
ساتھ پریشانیاں کیوں لگی رہتی ہیں۔ جب احمد2 سال کا تھا تو اس کے باپ عبد
اﷲ یاسین کا انتقال ہوگیا۔۔۔۔ساری ذمے داری ماں پر آگئی تھی۔ ماں نے بہت
سلیقے سے بچوں کی پرورش شروع کردی۔
اسی دوران 1948ء میں عرب اسرائیل جنگ شروع ہوگئی۔۔۔۔اسرائیل نے اس گاؤں پر
قبضہ کر کے مسلمانوں پر ظلم ڈھانا شروع کردیا۔ اس وجہ سے احمد کا خاندان
بلکہ اور بھی بہت سے مسلمان گاؤں سے نکل کر اس کیمپ میں آگئے۔ یہیں احمد
اور عبد اﷲ الخطیب کی دوستی شروع ہوئی تھی۔
پھر ایک دن احمد نے اپنے دوست عبد اﷲ عبد الخطیب کو کشتی لڑنے کا چیلنج دے
دیا اور دراصل یہی لمحہ اس کی زندگی کا سب سے اہم ٹرننگ پوائنٹ بھی ثابت
ہوا۔
کشتی کے دوران عبد اﷲ عبد الخطیب نے نہ جانے کون سا داؤ مارا کہ احمد زمین
پر گرا اور دوبارہ اُٹھ نہیں سکا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچا تھا۔
اس وقت کیمپ میں موجود ڈاکٹر اس کے پاس پہنچ گئے۔ اور اس کی پوری کمر کو
پلاستر کردیاگیا۔بے چارہ عبد اﷲ عبدالخطیب سخت شرمندہ تھا۔ لیکن احمد نے
اسے تسلی دی کہ جو کچھ بھی ہوا اس میں تمہارا کیا قصور تھا؟ یہ تو ایک
حادثہ تھا۔ جو کسی طرح بھی اور کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔
پنتالیس دنوں تک پلاسترمیں رہنے کے باوجود بھی احمد ٹھیک نہیں ہوسکا۔ اس
حادثے کے بعد وہ وہیل چیئر پر آگیا تھا۔ اور ساری زندگی وہیل چیئر ہی پر
رہا۔طرفہ ستم یہ ہوا کہ اس کی بینائی آہستہ آہستہ زائل ہوتی چلی گئی۔
ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کو کچھ ایسا ہی نقصان پہنچا ہے۔
جس نے بینائی کو متاثر کرنا شروع کردیا ہے۔ ا سکی ماں اور بھائی بہن پریشان
تھے۔
کہتے ہیں کہ قدرت جب کوئی چیز لیتی ہے تو اس نقصان کو بہت کچھ دے کر پورا
بھی کردیتی ہے۔ خدا نے احمد کو کسی خاص موقع کیلئے منتخب کرلیا تھا۔ اس لیے
اس کے ساتھ ایسا حادثہ پیش آیا تھا۔
وہ آنکھوں والا ہی رہتا تو شاید اس مقام تک نہیں پہنچ پاتا جو مقام اس کو
نابینا ہو جانے کے بعد حاصل ہونا شروع ہواتھا۔
احمد کے ذہن میں بچپن ہی سے اسرائیل کے خلاف نفرت تھی۔ اس کے گاؤں کے
مسلمانوں پر اسرائیل کے مظالم، اس کے خاندان کا گاؤں چھوڑ کر کیمپ میں
آجانا۔
ا س کا کہنا تھا کہ اگر وہ لوگ ہجرت پر مجبور نہیں کیے جاتے، اپنے گاؤں ہی
میں رہتے تو شاید اس کے معذور اور نابیناہونے کا حادثہ نہیں ہوتا۔ اس نے اس
حادثے کو بھی اسرائیل کو کھاتے میں ڈال دیا تھا۔ اس نے کیمپ اور غزہ کی
مساجد میں خطبات دینے شروع کردیئے۔
اس کے مخفی جو ہر اب سامنے آرہے تھے۔ وہ ایک باکمال اور پُر جوش مقرر ثابت
ہوا تھا۔ اس کی تقریریں نوجوانوں کے دلوں میں آگ لگا دیتی تھیں۔
اس زمانے میں اس نے الازہر یونیورسٹی میں داخلہ کی کوشش کی لیکن اسے داخلہ
نہیں مل سکا۔ اس کے بعد اس نے گھر ہی پر تعلیم حاصل کرنی شروع کردی۔
اس نے فقہ، فلسفہ، سوشیا لوجی اور تاریخ وغیرہ پرعبور حاصل کرلیا۔ اس کے
خطبات میں چونکہ حقائق ہوا کرتے اس لیے بہت شوق اور توجہ سے سنے جاتے تھے۔
وہ زمانہ اس کی بے روزگاری کا تھا۔ ابھی تک کوئی ایسا وسیلہ نہیں بنا تھا
کہ وہ زندگی کی گاڑی کو کھینچ سکتا۔ پھر کسی نے اسے بتایا کہ رملہ کے ایک
اسکول میں ایک عربی استاد کی ضرورت ہے۔
وہ انٹر ویوکے لئے پہنچ گیا۔ انتظامیہ نے اسے دیکھ کر نوکری دینے سے انکار
کردیا۔’’ دیکھیں یہ درست ہے کہ آپ میں صلاحیت ہے لیکن ایک تو آپ وہیل چیئر
پر ہیں، دوسرے آپ نابیناہیں۔
طالب علم آپ سے متاثر نہیں ہوں گے بلکہ آپ کا مذاق اُڑائیں گے۔ اسی لیے آپ
سے معذرت کی جاتی ہے۔’’آپ ایک کام کریں۔صرف ایک بار، صرف ایک بار مجھے طالب
علموں کے سامنے آنے کا موقع دیں۔ اگر ناکام رہا تو پھر میں کبھی ملازمت کی
بات نہیں کروں گا۔‘‘
انتظامیہ نے اس کی یہ درخواست منظور کرلی۔ طالب علم جمع ہوئے، اور احمد نے
انہیں اپنی علمیت اور خطابت سے باند کر رکھ دیا اور اس طرح اس کی ملازت
کاآغازہوگیا۔
طالب علموں کو بھی وہ اسرائیل کے خلاف اکساتا رہا تھا۔ اسکول میں ملازمت کے
دوران حلیمہ نام کی ایک خاتون اس سے متاثر ہو کر اس کے قریب آگئی۔اس قربت
کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں نے شادی کرلی تھی۔ (اس سے اس کے گیارہ بچے پیدا
ہوئے) 1984ء میں وہ ایک اسلامی جماعت سے منسلک ہوگیا۔
یہاں بھی اس کے نظریات وہی تھے۔ وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن
مذاکرات وغیرہ کا قائل نہیں تھا۔ کچھ عرصے کے بعد جب اسے اس کے مزاج کے کچھ
اور لوگ مل گئے تو اس نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھ دی جس کا نام حماس ہے۔پوری
دنیا میں اسرائیل مخالف سب سے بڑی تنظیم۔ اس تنظیم کے وجود میں آتے ہی اس
نے کھل کر بولنا شروع کردیا۔
اس کا کہنا تھا کہ فلسطین کو آزاد ایک الگ ملک ہونا چاہئے اور اسرائیل کو
صفحہ ہستی سے مٹ جانا چاہئے۔ احمد یاسین کی مقبولیت دن بہ دن بڑھتی چلی
جارہی تھی۔وہ اب پورے عالم اسلام میں ایک جانی پہچانی شخصیت اور باغی لیڈر
کے طور پر سامنے آیا تھا۔ لوگ اس سے محبت کرنے لگے تھے۔
اس نے عام لوگوں کے لئے بہت کام کئے۔ ہسپتال بنوائے، سکول بنوائے،
لائبریریز بنوائیں۔ وہ ہر سطح پر اسرائیل کا مقابلہ کرنا چاہتا تھا۔اس پر
الزامات لگائے گئے کہ اس نے اسرائیل کے خلاف حملوں کا سلسلہ شروع کروا دیا
ہے۔ وہ اسرائیل کے خلاف حملوں کی حوصلہ افزئی کرتا ہے اسی الزامات میں اسے
1984ء میں گرفتار کرلیا گیا۔
اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 1997ء میں اس کی رہائی اسرائیل اور عمان
کے درمیان ایک معاہدے کے تحت عمل میں آئی۔ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے
دو ایجنٹ گرفتار ہوئے تھے۔ان دونوں کی رہائی کے عوض احمد یاسین کی رہائی
عمل میں آئی تھی۔رہائی کے بعد احمد نے پھر حماس کی سرگرمیاں شروع
کرادیں۔اسرائیل کے خلاف مسلح جدو جہد میں تیزی آگئی۔یہ بات یورپی ممالک کو
کب پسند آتی۔ حماس کی مخالفت میں امریکا، جاپان ، کینیڈا وغیرہ نے ہنگامہ
مچاناشروع کردیا۔ انہوں نے اس تنظیم پر دنیا بھر کے الزامات عائد کردیئے۔
اس مہم میں کچھ نادان دوست بھی پیش پیش رہے جن کے تیل کی صنعت امریکا پر
انحصار کررہی تھی۔
احمد کے خیالات کی وجہ سے فلسطین کی حکومت کو بھی اس سے خطرہ محسوس ہوا
کرتا۔ اسی لیے وہ کئی بار گرفتار یا نظربند ہوتا رہا۔اور جب بھی اس کے ساتھ
ایسا معاملہ ہوتا اس کے حق میں مظاہرے شروع ہوجاتے۔کیونکہ لوگ جانتے تھے کہ
وہ حق پر ہے۔اس کا جرم صرف یہی ہے کہ وہ ایک ظالم اور بے رحم حکومت اسرائیل
کے خلاف ہے اور اسی کی کوشش سے فلسطین آزاد ہوسکتا ہے۔
2003ء میں اس کے آدمیوں نے اسرائیل کی ایک بس پر حملہ کر کے بہت سے لوگوں
کا ماردیا تھا۔ اس میں حماس کے دو آدمی بھی گرفتار ہوئے تھے۔اس گرفتاری کے
ساتھ ہی اس کی مخالفت کرنے والے ممالک میں اس کی مخالفت اور بھی تیز ہوگئی
۔ اسے عالمی دہشت گرد قرار دیا جانے لگا۔
وہ اسرائیل سے جتنی نفرت کرتا تھا۔ اسرائیل کو بھی اس سے اتنی ہی نفرت
تھی۔کئی بار حملے کروائے۔ لیکن وہ بچتے گئے۔ بالآخر ایک دن جب وہ فجر کی
نماز ادا کرکے مسجد سے گھر کی طرف جارہے تھے تو اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے ان
پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور وہ شہید ہوگئے۔ یہ واقعہ مارچ2004ء کا ہے۔
ان....کا پورا نام شیخ احمد اسماعیل حسین یاسین تھا۔ حماس کے بانی۔ ایک محب
وطن نابینا عالم دین ۔ ان کے جنازے میں دو لاکھ سے زیادہ افراد شریک
تھے۔دنیا بھر میں ان کی موت پر واویلا مچ گیا تھا۔ یو این او کے جنرل
سیکرٹری کو فی عنان نے مذمت کی تھی۔ عالمِ اسلام اپنے ایک سچے اور بہادر
سپاہی سے محروم ہوگیا تھا۔شیخ احمد معذور اور نابینا تھے۔ اس کے باوجود
انہوں نے ثابت کردیا تھا کہ ظاہری آنکھیں بند ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ |