آپکے مطلوبہ نمبر سے جواب موصول
نہیں ہو رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب یہ آواز آپکے کان میں پڑتا سنائی دیتا
ہے جب آپکو مطلوبہ شخص سے بہت ضروری کام ہو۔ تو آپکو کتنی تکلیف ہوگی۔ دنیا
میں شاز و نادر ہی ایسے علاقے ہوں جہاں موجودہ دور میں بھی ان علاقوں کے
بسنے والے لوگ دور جدید کی اس سہولت سے محروم ہوں۔ ایک آواران کا تحصیل
جھاؤ اور دوسرا زیارت کا علاقہ منہ یہ دو ایسے علاقے ہیں جہاں آپکو کسی
بندے سے کوئی ضروری کام بھی ہو تب بھی آپکا رابطہ اس سے ممکن نہیں رہتا۔جب
تک آپکو اسکے پاس جانا نہ پڑے یا آپ پرانے تقاضوں کو یاد کرتے ہوئے اسے
چھٹی نہ لکھیں یعنی دور جدید میں بھی آپکو دور قدیم کا یاد تازہ ہوگا۔ اور
آپ پر اپنے پرانے زمانے کے وہ خیالات آشکار ہوں گی جنہیں آپ کہانیوں کی مدد
سے سناکرتے تھے۔ دور جدید میں مواصلات کے ترقی کے نئے دور میں پاکستان کے
گوشے گوشے میں کمیونیکیشن کے ذرائع پہنچ گئے لیکن ان علاقوں کو یہ سہولت
نصیب نہیں ہوا۔ منہ کے علاقے میں دو یا تین جگہوں پر اینٹینا کی مدد سے
قائم وی وائرلیس سروس جو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں کے علاقے کی لوگوں کی اپنی
ایجاد کردہ نظام ہے کام کرتا ہے وہ بھی کبھی کبھار weekسگنل کی صورت میں۔
جہاں لوگوں کا ایک ہی جگہ جمع ہونا اور اپنے پیاروں کی خیریت دریافت
کرناوغیرہ وغیرہ روز روز کا معمول ہے علاقے کا ایک باشندہ محمد حنیف علاقے
میں کمیونیکیشن کے حوالے سے کہتے ہیں کہ 1986ء میں یہاں پر کمیونیکیشن کا
نظام ہینڈل والے پی ٹی سی ایل سسٹم کے ذریعے ہوا کرتا تھا لیکن جونہی
ڈیجیٹل ٹیلیفون سسٹم کا نظام علاقے میں متعارف ہوا تو وہاں سے اس سسٹم کو
اسلئے ختم کیا گیا کہ علاقے میں جدید نظام لائیں گے لیکن بعد میں نئے سسٹم
کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور
علاقے کے لوگوں کو نہ پی ٹی سی ایل کی سہولت فراہم کی گئی اور نہ ہی موبائل
سسٹم اور بارہ کلومیٹر زندرہ سے دور یہ علاقہ جہاں زندرہ کو یوفون کی سہولت
میسر ہے لیکن یہ علاقہ موبائل یا ٹیلیفون کی سہولت سے محروم ہیں۔ اور دوسرا
علاقہ تحصیل جھاؤ جہاں موبائل سروس کی سہولت موجود ہی نہیں اور لوگ کئی
کلومیٹر کا مسافت طے کرکے پی ٹی سی ایل کی سہولت سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔
اور پی ٹی سی ایل کی یہ سروس صرف جھاؤ ہیڈکوارٹر میں ہی واقع ہے۔ مجھے کبھی
کبھار اپنے کسی رشتہ داروں کی خیریت دریافت کرنی ہو تو میں ہیڈکوارٹر میں
موجود کسی جاننے والے فرد سے رابطہ کرکے انکے ذریعے سے ہی اپنی خیریت اپنے
گھر والوں کو پہنچا سکتا ہوں البتہ مجھے انکی آواز مہینہ بھر کانوں تک
سنائی نہیں دیتا۔ جس سے میرے کان اپنے پیاروں کی آواز کو ترستے ہیں۔ کہ
اپنے گھر والوں سے کس طرح سے رابطہ کر لوں۔ البتہ دور جدید میں ان دو
علاقوں میں قدیم روایات کا بول بالا ہے۔ بھلا کرے ہمارے حکمرانوں کا جو
یہاں کے عوام کا بھلا سوچتے ہیں بھلا انہیں اس سہولت سے فیض یاب کروا کر ان
کا مزید خرچہ کیوں کروانا چاہیں جہاں غربت اپنے انتہا کو ہے اور لوگوں کو
بڑی مشکل سے دو وقت کا کھانا کھانا انہیں نصیب ہوتا ہے۔ میرا دوست جو مجھے
کبھی کبھار زیارت کی سیر کرانے لے جاتا ہے تو مجھے جھاؤ اور زیارت کے علاقے
منہ میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔ مکمل طور پر دیہاتی ماحول پایا جاتا ہے۔
اور ان دو جگہوں پر فون کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے آپ زہنی سکون سے
مالامال ہو سکتے ہیں جہاں شہروں میں موبائل کی گھنٹی اور دن رات موبائل کے
ساتھ چمٹے رہنے سے یہاں آپکو آزادی مل ہی جاتی ہے۔ زیادہ تر نوجوان جنہیں
موبائل استعمال کرتا ہو ا تو وہ میوزک کا شوق پورا کرنے کیلئے ۔ غیر سرکاری
ادارے کی جانب سے ٹریننگ چل رہا تھا تو جدید مواصلاتی نظام اور اسکی خوبیوں
اور خامیوں کے متعلق بحث شروع ہو گیاتو میں نے انہیں جھاؤ میں مواصلاتی
نظام کے حوالے سے آگاہ کیا جس وقت پی ٹی سی ایل کا نظام بھی ناپید تھا تو
ٹریننگ میں موجود شرکاء نے میری باتوں پر یقین نہیں کیا کہ موجودہ مواصلاتی
دور میں بھی اس علاقے میں مواصلاتی نظام پایا ہی نہیں جاتا۔ مجھے یاد پڑتا
ہے جب ہینڈل والے ٹیلیفون کا زمانہ تھا تو جھاؤ میں مواصلات کا یہ نظام
آواران سٹی سے پہلے اس علاقے کو میسرتھی۔ لیکن جوں جوں دیگر علاقوں میں
کمیونیکیشن کے کے نئے نئے ذرائع وجود میں آرہے ہیں وہیں یہ علاقے دور جدید
میں اس سہولت سے محروم ہیں۔ ان علاقوں کے باسیوں کو کیا پتہ کہ انٹرنیٹ کیا
ہوتی ہے۔ اسکائپ کیا ہے، فیس بک کیا ہے انکی فیس بک، اسکائپ انکے مجالس
ہوتی ہے جو اکثر شام کے بعد محفل کی صورت میں ہوتی ہے جہاں دن بھر کے
مصروفیات کا تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔ یہاں پر دیر سے سونے اور دیر سے
اٹھنے کا رواج نہیں۔ کیونکہ انکے پاس یہ سہولیات دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے
یہ جلدی سو جاتے ہیں اگر آپکو کہیں ان علاقوں میں جانا ہو تو آپ ان علاقوں
میں سکون اور نیند کا وہ مزہ لوٹتے ہیں جو برسوں سے آپکا خواب رہے گا۔ پھر
کوئی گلہ شکوہ بھی نہیں کرے گا کہ آپ سے کام تھا اور آپ نے اپنا سیل فون آف
کیا تھا۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ آواران اور زیارت پر عرصہ دراز سے
حکمرانی کرنے والے وزراء کا تعلق بھی ان پسماندہ علاقوں سے ہے لیکن ان
علاقوں میں ٹیلیفون کی سہولت نہ ہونا بھی ایک سوالیہ ہے۔عید کے موقع پر جب
بھی میں اپنے علاقے کو تشریف لے جاتا ہوں تو ہفتہ دس دن میرا رابطہ اپنے
دوست اور احباب سے منقطہ ہو جاتا ہے۔ اور جب واپس نیٹ ورک کے ایریا میں آتا
ہوں تو انہیں عید کی مبارکباد دیتا ہوں تو اکثر دوست ناراضگی کا اظہار کر
جاتے ہیں کہ اتنے دنوں سے اپنا فون کیوں بند کیا تھا عید کو گزرے ایک ہفتہ
ہوا ہے اور آپ ابھی عید کی مبارک دے رہے ہو جب میں اپنے دوستوں کو اپنا عذر
پیش کرتا ہوں تو تب مان جاتے ہیں میرے دوستوں کا خیال ہے کہ اس سال یہ سروس
علاقے میں دستیاب نہیں تو اگلے سال ضرور علاقے والوں کو یہ سہولت دستیاب
ہوگی تو میں انہیں بلوچی جملے کا استعمال جو اکثر لوگ ناامیدی کی صورت میں
کہہ دیتے ہیں کرتا ہوں ’’ یاقسمت‘‘ |