لائٹ بلب عظیم ایجاد
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
ٹامس ایلوا ایڈیسن کے متعلق کئی
کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ اسے آج تک کی انسانی تاریخ کا عظیم ترین موجد قرار
دیا جاتا ہے۔ اُلجھے بالوں، سِلوٹ زدہ کپڑوں اور تھکے ماندے چہرے والا
ایڈیسن ہر وقت کام میں کھویا رہتا۔ وہ کبھی کبھار کچھ درشتی اور تکبر کا
رویہ بھی اختیار کرتا۔ مثلاً ایک مرتبہ اسے تھوکنے کے لیے اُگال دان پیش
کیا گیا تو اس نے کہا کہ وہ فرش پر تھوکنا زیادہ پسند کرتا ہے کیونکہ وہ ہر
کہیں اور ہر وقت پاس ہوتا ہے۔ ایک اور کہانی یہ ہے کہ اس نے Incandescent
لائٹ بلب ایجاد کیا تھا۔ ایڈیسن سے پہلے بھی کئی لوگ یہ ایجاد کر چکے تھے (کچھ
تو 30 برس پہلے بھی) لیکن کوئی بھی کارآمد نہ ہوئی۔ اس کا کارنامہ ایک
’’کارآمد اور حقیقی بلب‘‘ ایجاد کرنا تھا۔ اِنکینڈیسنٹ لائٹنگ میں ایڈیسن
کی دلچسپی کا آغاز 1878ء کے موسم بہار میں ہوا جب 31 برس کی عمر میں وہ ایک
ساتھی پروفیسر جارج بارکر کے ہمراہ چھٹی پر گیا۔ سیاحت کے دوران بارکر نے
ایڈیسن کو (جو فونوگراف ایجاد کرنے کی وجہ سے پہلے ہی مشہور ہو چکا تھا)
دیگر متعدد چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی تجویز دی کہ اب اسے امریکہ کے گھروں
میں بجلی کی روشنی پھیلانے کا مقصد اختیار کرنا چاہئے۔ یہ بات ایڈیسن کے دل
کو لگی۔ وہ Menlo پارک نیو یارک میں تعمیر کردہ اپنی ’’ایجادات کی فیکٹری‘‘
میں واپس آیا تو ماہرین کی ایک ٹیم جمع کی اور دنیا کے سامنے اعلان کیا کہ
وہ چھ ہفتوں کے اندر اندر امریکہ کے گھروں میں روشنی کر دے گا۔ یہ پیشگوئی
بہت رجائیت پسندانہ ثابت ہوئی۔ ابتدأ سے ہی ایڈیسن کے ذہن میں ایک ایسا
بلب تخلیق کرنے کا منصوبہ تھا جو بہت کم کرنٹ سے بھی جل سکتا ہو، پائیدار
ہو اور دوسرے بلبوں کے ساتھ مربوط نہ ہو۔ اگر ایک بلب خراب ہو جائے تو
دوسروں پر کوئی اثر نہ پڑے، اور ہر ایک بلب کو ایک سوئچ کی مدد سے آن آف
بھی کیا جا سکے۔ چنانچہ ایڈیسن اور اس کی ٹیم نے بلب بنانے کے ساتھ ساتھ
ایک پورا نظام بھی وضع کرنے کی کوشش کی۔ اِنکینڈیسنٹ بلب ایک سادہ سا آلہ
ہے اور اس کی تہہ میں کارفرما سائنس برقی مدافعت کے مظہر پر مبنی ہے۔ برقی
کرنٹ کو ایک میٹریل میں داخل کیا جاتا ہے جو مختلف ڈگریوں پر اس کی مدافعت
کرتا ہے۔ نتیجتاً وہ گرم ہو کر جلتا اور روشنی دیتا ہے۔ قبل ازیں بنائے گئے
بلبوں میں بہت سے مسائل تھے لیکن دو مسائل نمایاں تھے۔ برقی کرنٹ گزارنے کے
لیے استعمال کیے گئے فِلامنٹس حرارت کو برداشت نہ کر پاتے اور جل یا پگھل
جاتے۔ کھلی فضا میں تو یہ عمل چند سیکنڈوں یا منٹوں کے اندر اندر ہو جاتا۔
چنانچہ موجدوں نے فلامنٹ کو شیشے کے ایک گلوب میں ڈالا، اُسے سِیل کیا اور
اس میں سے آکسیجن کو کھینچ لیا تاکہ خلا میں فِلامنٹ حرارت کو زیادہ
بہترطور پر برداشت کر سکے۔ ایڈیسن جانتا تھا کہ اسے ایک اعلیٰ فلامنٹ تخلیق
کرنا ہے۔ اس کا بہت پتلا ہونا ضروری تھا تاکہ کرنٹ کی تھوڑی سی مقدار کافی
ہو۔ ایڈیسن اور اس کی ٹیم نے کامل فلامنٹ کی تلاش میں متعدد دھاتوں اور
دیگر چیزوں کو آزمایا اور بالآخر پلاٹینیم سے کام لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ
اس کا نقطۂ پگھلائو کافی زیادہ ہے___ تقریباً 3,191 ڈگری فارن ہائیٹ۔
ایڈیسن کی ٹیم کے دوسرے افراد نے شیشے کے گلوب میں سے آکسیجن نکالنے کے کچھ
بہتر طریقے بھی وضع کیے۔ پلاٹینم فِلامنٹ والا بلب موزوں ثابت ہوا، لیکن
صرف 10 منٹ کے لیے۔ اتنا وقت جلنے کے بعد وہ بھی پگھل گیا۔ نیز پلاٹینم ایک
کم یاب اور مہنگی دھات تھی۔ ایڈیسن اور اس کی ٹیم نے تقریباً 1600 میٹریلز
کو آزمایا اور گلوب کے اندر سے آکسیجن خارج کرنے کے طریقوں کو بھی بہتر
بناتے رہے مگر کوئی ایسی چیز نہ ملی جو ان کا مقصد پورا کر سکے۔ ایک روز
ایڈیسن نے کاربن کو بطور فِلامنٹ دوبارہ آزمانے کا سوچا۔ وہ ایک سال پہلے
بھی ایسا کر چکا تھا، مگر بعد میں ارادہ ترک کر دیا۔ اسے معلوم تھا کہ
کاربن کا نقطۂ پگھلائو 6,233 ڈگری فارن ہائیٹ یا 4,500 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔
ایڈیسن نے حساب کتاب لگایا کہ موزوں مدافعت کے ساتھ کام کرنے کے لیے
فِلامنٹ کو قطر میں 1/64 انچ اور لمبائی میں 6 انچ ہونا چاہیے۔ اس نے گیس
لیمپوں کے شیشوں پر جمی ہوئی کالک کھرچی، اسے رال (Tar)کے ساتھ ملایا تاکہ
فلامنٹ کی شکل دے سکے۔ اس فلامنٹ پر کیے گئے تجربات سے معلوم ہوا کہ یہ ایک
یا دو گھنٹے تک جل سکتا تھا،لیکن ایڈیسن قائل ہو گیا تھا کہ اگر یہ کاربن
اتنی بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے تو ضرور کوئی اور ایسا میٹریل بھی ہو گا
جو کاربن میں تبدیل کیے جانے پر اور بھی بہتر ثابت ہو۔ یہ بات سوچ کر اس نے
عام سوتی دھاگے کے ٹکڑوں کو آزمایا جنہیں بھٹی میں جلا کر کاربن میں تبدیل
کیا گیا تھا۔ فلامنٹ بہت نازک تھا جسے لگانے میں بھی بہت مشکل ہوئی۔ آخر
کار تمام تیاریاں مکمل کرنے کے بعد کرنٹ آن کیا گیا۔ یہ 21 اکتوبر 1879ء کی
رات کا واقعہ ہے۔ یہ فلامنٹ توقعات کے برعکس ضائع نہ ہوا۔ اس کی روشنی
موجودہ 100 واٹ کے بلب کی روشنی کے صرف ایک فیصد جتنی تھی۔ یہ جلتی رہی اور
جلتی رہی۔ انجام کار ایڈیسن آہستہ آہستہ کرنٹ میں اضافہ کرتا رہا اور روشنی
بڑھتی گئی…حتیٰ کہ فِلامنٹ ٹوٹ گیا۔ یہ 13.5 گھنٹے تک جلا تھا اور ہر کوئی
جانتا تھا کہ یہ مدھم سا ننھا بلب الیکٹرک لائٹ کے دور کا نقیب ہے۔ یقینا
ایڈیسن نے اتنے پر ہی اکتفا نہ کیا۔ اس نے فلامنٹ کو خردبین کی مدد سے
دیکھا اور جانا کہ اسے درکار کاربن ایسے میٹریلز سے حاصل ہو گا جو ریشے دار
ہیں…سن کی کوئی قسم، آخر کار ایڈیسن نے جاپان سے درآمد شدہ بانس کا ریشہ
استعمال کیا جو 900 گھنٹے جلتا رہا۔ ایڈیسن کو بجلی کا نظام تخلیق اور نصب
کرنے میں صرف تین سال لگے جس نے روشنی کو عملی بنا دیا۔ اس کی ’’ایڈیسن
الیکٹرک لائٹ کمپنی‘‘ نے نیویارک سٹی کی پرل سٹریٹ میں ایک پاور سٹیشن
تعمیر کیا اور ممکنہ گاہکوں کے گھروں میں جانے والے گیس پائپوں کے ذریعہ
تاریں پہنچائیں۔ ابتدأ میں صرف 88 گاہک ملے۔ اس نظام میں کافی خرابیاں
تھیں‘ لیکن انہیں دور کیے جانے پر بلب بہتر ہوتے گئے اور گاہکوں کی تعداد
بھی بڑھی۔ انیسویں صدی کے اختتام پر 10 لاکھ گھروں میں برقی روشنی موجود
تھی۔ آج ٹنگسٹن اور نائٹروجن کی مدد سے بلب بنائے جاتے ہیں۔ چیزوں کی ترتیب
میں لائٹ بلب کی اہمیت کس قدر ہے؟ آپ اس کی اہمیت پر غیر مختتم بول سکتے
ہیں۔ روشنی کے بلب نے رات کو ’’دن‘‘ میں بدل دیا۔ لوگوں کے لیے رات کے وقت
بھی پڑھنا، لکھنا، دیر تک گھر سے باہر رہنا وغیرہ ممکن ہو گیا تھا۔ اس
ایجاد نے دنیا کی نئے سرے سے صورت گری کی۔ |
|