قربانی:شعائراﷲ کی یاد، جذبۂ ایثار، تعمیر افکار اور درس اخوت

قوموں کی حیات: اسلام نے یادوں کو حیاتِ تازہ دی۔ زندہ قوم یادوں کو حرزِ جاں بناتی ہے۔ یادگاروں کو محفوظ کرتی ہے۔ انھیں باقی رکھنے میں اپنی سعادت جانتی ہے۔ قرآن کریم نے انھیں ’’شعائراﷲ‘‘ قرار دیا۔ ان کی عظمت و شان بیان کی۔ ان کی تکریم کو دلوں کی پاکیزگی بتایا ۔ یادگاروں کی اہمیت فطری ہے۔ اس لیے وہ قومیں کامیاب رہیں جنھوں نے اپنے تاریخی آثار کا تحفظ کیا۔ ان کے ذریعے اپنی تہذیب وتمدن کو دنیا کے سامنے واضح کیا۔ ہماری تاریخ موہن جوداڑو اور ہڑپا کے کھنڈرات سے نہیں شروع ہوتی۔ ہماری تاریخ کے آثار خاکِ حجاز سے جُڑے ہیں۔ مزاراتِ ابنیا واولیا، صفا و مروہ، مقامِ ابراہیم، مزدلفہ ومطاف، حطیم و زم زم، بدر واحد، خیبر وخندق اور بقیع و معلی سے ہمارا رشتہ ہے۔ یہ رشتہ روح کا ہے۔ ظاہری رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ روحانی رشتے دوام پاتے ہیں۔ اخروی زندگی میں بھی کام آتے ہیں۔اور اسی سے تاریخ کی کڑیاں ملتی ہیں۔ نقوش ابھرتے ہیں۔ قومی عروج وزوال کے خط وخال نمایاں ہوتے ہیں۔

فلسفۂ حج؛ نقوشِ رفتہ: قربانی، حج، سعی، طواف، وقوف، رمی یہ یادیں ہیں محبوبانِ خدا کی، یادگاریں ہیں اسلام کی زریں تاریخ کی۔ انھیں اسلام نے زندہ وباقی رکھا۔ ان کی یادیں اسلامی رکن کا حصہ ہیں۔ خاصانِ خدا کے نقوش کو ہر سال دوہرایا جاتا ہے۔ساری دنیا سے مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ حج کا اجتماع جو عالم اسلام کا سب سے بڑا مجمع اوراتحاد کا ظہر ہوتا ہے۔ یادگاروں کے صدقے میں اتحاد کا منظر پیش ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج یادگاروں کو مٹایا جا رہا ہے۔ اسلام کے فلسفۂ حج کو فراموش کیا جا رہا ہے۔ حج کا ہر رکن اﷲ کے محبوبوں کی اداؤں کی یاد دلاتا ہے۔ جنھوں نے ان اداؤں سے درس لیا وہ خود اہلِ ایماں کے لیے نمونۂ عمل بنے۔ کیا ہم نے نہ دیکھا ترکوں کو؟ جنھوں نے اپنے عہدِ حکومت میں حرمین میں تمام اسلامی یادگاروں کو خصوصی اہتمام کے ساتھ بعد والوں کے لیے حوصلہ افزا تاریخ کا نشاں بنا کرپیش کیا۔ دوسری طرف یہودیوں نے بیت المقدس قبلۂ اول میں زمین دوز کھدائی کر کے مسجد اقصیٰ کی بنیادیں مسلسل کم زور کرنا شروع کیں۔ اس لیے کہ قبلۂ اول منہدم کر کے مسلمانوں کی اس تاریخی یادگار کو ختم کردیا جائے۔ پھر ایک دور آیا، سعادتوں کی تاریخ مرتب کرنے والے ترکوں کو دہلیزِحرم اور درِ محبوب خدا چوم کر حجاز سے رخصت ہوناپڑا۔ سعودی دور شروع ہوا۔ اسلامی نشانات مٹائے گئے۔ نقوشِ تاریخِ اسلامی کو بدعت کے مراکز قرار دے کر بے دردی سے مٹا کر سقاوتوں کی تاریخ لکھی گئی۔ کاش! حج وقربانی کے پیغام ہر غور کیا ہوتا، فلسفۂ حج پر کچھ تو غور کیا ہوتا!

ایثار واخوت و غربا پروری: قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یادگارہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایثار کا جلوہ ہے۔ اس میں جہاں ایک طرف حکم الٰہی و حکم رسالت پناہی ﷺ کی تعمیل ہے تو وہیں خلیل اﷲ و ذبیح اﷲ کی یاد بھی ہے۔ قربانی کا تصور دوسری قوموں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اسلام نے فطری نظام کے تحت ذبیح اﷲ کی یاد کو باقی رکھا۔ لیکن اسلام کا تصورِ قربانی مختلف ہے اور انسانیت کے تقاضوں کو پورا کرنے والا بھی۔ قربانی کا جو اسلامی مفہوم ہے وہ محض جانور کا راہِ خدا میں ذبح نہیں؛ بلکہ رضائے الٰہی کے وسیع النظر تصور کی فراہمی بھی ہے۔ قربانی جانور کی کیا دی جاتی ہے؛ اپنے نفس کی قربانی بھی درکار ہوتی ہے؛ اپنی خواہشات کی قربانی اس طرح پیش کر دی جائے کہ مولیٰ کی رضا میں اپنی خواہشات کوفنا کر دیا جائے۔ اپنی ہوا وہوس کو تج دے کر مولیٰ کی خوش نودی کا ساماں کیا جائے۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے……مال کی قربانی کا……وقت پڑنے پر جان کی قربانی کا……نفس کی قربانی کا……قربانیوں کی جولان گاہ کا اسلامی تصور اس قدر وسیع ہے کہ اگر انھیں اپنا لیا جائے تو انسانیت ذلت و رسوائی سے بچ جائے گی۔ جانوں کا اتلاف ختم ہو جائے گا۔ وقارِ آدمیت پھر بحال ہوگا۔ دنیا مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ جہاں انسانی قدریں اور ہیومن ویلوز کا کوئی کانسپٹ باقی نہ رہا؛ ایسے میں حقوقِ انسانی کی صحیح ودرست تعبیر اسلام کے عطا کردہ قربانی کے وسیع تناظر میں ہی متصور ہے۔

وہ انسان جو غربت و افلاس کے سبب انسانی عزت سے محروم کر دیئے گئے ان کے لیے جذبۂ ایثار کی تمہید ہے عیدِ قرباں۔ بے شک خوشی حقیقی جبھی کہلائے گی جب کہ غربا و مساکین ، فراموش کردہ بھائیوں کو اس میں حصہ دار بنایا جائے ۔ یہاں اِسلامی تصوف کی اصطلاح ’’احسان‘‘ کا مفہوم بھی کھلتا ہے کہ غریبوں کی مدد کر دی جائے، انھیں قربانی کا گوشت ہدیہ کر کے انھیں احسان مند نہ گردانا جائے بلکہ احساس تشکر ہو کہ کسی غریب نے ہمیں اس لائق سمجھا کہ قربانی کا عطیہ قبول کیا اور ہماری خوشی میں شرکت کی۔اسلام نے ایمانی رشتوں کو فوقیت دی ہے۔ ہر ایمانی بھائی جو مفلوک الحال ہے اس کی خبرگیری صاحبِ نصاب کی ذمہ داری ہے۔ وہ خود ’’ذبیح اﷲ‘‘ کی یاد منائے۔ ان کی قربانی کی نقوشِ جاوداں اپنائے اور اپنے تنگ دست بھائی کو اس میں شامل نہ کرے تو خوشی کیوں کر حاصل ہوسکے گی! یہی سبب ہے کہ اسلامی ایامِ مسرت حاجت مندوں کی حاجت برآری سے حقیقی خوشی عطا کرنے کاموجب ہوتے ہیں۔

محبت و مساوات، انسانیت نوازی، فکر سازی، کردار کی تابندگی کا درس لے کر پھر قربانی کے ایام آگئے۔ ذبیح اﷲ کی یاد منا کر ہمیں دنیا کو محبت و اخوت کا گہوارہ بنانا ہے۔ اسلام کو بدنام کرنے والے حربوں کو نامُراد کرنا ہے۔ یہودو انگریز و مشرکین کی تمام تر سازشوں کی بخیہ ادھیڑنی ہے۔ اسلامی اخلاق سے دلوں کو فتح کرناہے۔ اسلامی ایثار سے محبت رسول ﷺ کی جوت جگانی ہے۔ یہی محبت صحابہ و مجاہدین اسلام کی کامیابی وکامرانی کا باعث تھی۔ آج ناموس رسالت پر چہار جانب سے حملے ہیں۔ پادریوں، آریاؤں، بھگوا قوتوں، شدت پسند خارجیوں غرض کہ ہر کوئی نکتہ چیں ہے احمدِ مختار ﷺ پر۔ سبھی کا نشانہ بارگاہِ رسالت ہے۔ کوئی ان کی شانِ جود و عطا وسخا کا منکر ہے، کوئی علمِ مبارک و حیاتِ طیبہ کا، تو کوئی ان کے لائے ہوئے مبارک دین متین کا۔ حالات کا تقاضا ہے کہ مسلمان ایثار کا مظاہرہ کریں۔ اسلام کی طرف لوٹ آئیں۔ جلوۂ دانشِ فرنگ سے نگاہیں خیرہ ہو توانسان سُراب کا اسیر ہوجاتا ہے اور اپنی حقیقت کو فراموش کردیتاہے۔ اہلِ محبت تو خاکِ حجاز کو سرمہ جانتے ہیں اور درِ پاکِ مصطفی ﷺ سے جُڑے رہنے میں ہی ایمان کی عافیت اور توحید کی بقا تصور کرتے ہیں، آج اسی کی ضرورت بھی ہے ؂
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھوں کا خاکِ مدینہ و نجف
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 257391 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.