گذشتہ عید قربان کی آمد سے پہلے
قربانی کی یاد آئی تھی اور بیگم کے اصرار پر بکرا منڈی کی رونقوں سے اپنے
دوست قلم کے ہمراہ لطف اندوز ہوا تھا ۔ میرا اور میرے دوست قلم کا چولی
دامن کا ساتھ ہے ۔ وہ ضرب اور تقسیم کا بڑا ماہر ہے اسی ضرب اور تقسیم میں
ہی مجھے اور اسے کئی دن بکر ا منڈی کے طواف میں لگے تھے او ر بالا آخر ایک
مریل سا بکرا ہم شفقت سے گھر لانے میں کامیاب ہوئے تھے ۔ اسی تگ و دو کا
ایک فائدہ یہ ہوا کہ آٹے دال کے بھاؤ معلوم ہوئے ۔ اپنی کئی دنوں کے محنت
اور کوشش کی روئیداد ہم نے بیگم کے گوش گذار کر دی تھی۔ ہم یہی سمجھ رہے
تھے کہ شاید بیگم کے دل میں ہمارے لئے ہمدردی کا جذبہ پیدا اہوگا گا ۔پر
ایسی قسمت تو نصیب والوں کو ہی ملتی ہے ہمارے حصے میں تو وہی چکی پیسنا ہی
آیا۔ جلی کٹی کے ساتھ معمول کا لقب کنجوس ہی سننے کو ملا تھا ۔ ایسے میں
انسان کی اندرونی کیفیت کا اندازہ متوسط طبقے کے لوگ ہی لگاسکتے ہیں جن کے
ساتھ ہر میدان میں دو ہاتھ ہی ہوتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کو میرا ساتھی قلم
بڑے غور اور دلچسپی سے دیکھ رہا تھا شاید وہ بھی اندرونی طو ر پر میری طرح
سے جلا بھنا ہوا تھا ۔ ایک تو کئی دنوں کی مشقت اور تکلیف سے بکرے کا حصول
ممکن ہواتھا اور اوپرسے ہمدردی کے بول کے بجائے شریک زندگی کے پیارے لبوں
سے پھلجڑیاں ۔ان سب کے باوجود ہم نے ساری باتیں سنی ان سنی کرتے ہوئے چپ
سادھ لی تھی اور دل میں اﷲ میاں سے دعا کرتے رہے تھے کہ یا اﷲ تو نے قربانی
خریدنے کی طاقت دی ہے تو اب ہمیں صبر کرنے کی قربانی بھی عطا کر تاکہ تیری
درگاہ میں ہماری قربانی قبول ہو۔ دل ہی دل میں دعا مانگتے ہوئے گھر کی
راجدھانی کی ملکہ کی دربار سے الگ ہو کر اپنے خلوت کدے کی راہ لی تھی۔ جب
تنہائی سی ہوئی تو میرا غمگسار اور ہمدرد تنہائی کا ساتھی قلم چپ کے سے جیپ
سے باہر آیا اور مجھے بتائے بغیر اپنا غصہ قرطاس ابیض پر اتارنے لگا ۔وہ
ایسا بپھرا ہوا تھا کہ میرے منع کرنے کے باوجود رکنے کا نام نہیں لے رہا
تھا۔اس کو پھرتی سے چلتے ہوئے دیکھ کر میں نے بھی اسے روکنا مناسب نہیں
سمجھا ۔بھلا ہو قرطاس کا کہ اس نے قلم سے التجا کی اور قلم مان گیا ۔ لیکن
رکتے رکتے اس نے ایک عنوان لکھ ہی ڈالا اور عنوان کچھ یوں تھا ۔ قربانی کا
بکرا ۔
یہ تو تھی گذشتہ عید قربان کی کہانی اور اس دفعہ کی کہانی بھی پرانی کہانی
سے الگ نہیں ہے ۔عید الضحیٰ کے قریب آتے ہی جس چیز کی یاد زیادہ ستاتی ہے
وہ یہی قربانی ہی ہے ۔ آٹے دال کا بھاؤ پہلے سے کہیں اوپر چلا گیا ہے بلکہ
یوں کہیں کہ آسمان کی بلندیوں سے بھی آگے مریخ کی طرف رواں دواں ہے ۔ بکر ا
منڈی کا سما ں بھی عجیب اور دیدنی ہوتا ہے ۔ یہاں جو خریدار آتے ہیں ان کی
کئی قسمیں ہیں ان بہت ساری قسموں میں سے دو تین ایسی ہیں جن کا تذکرہ کئے
بغیر بکرا منڈی کی خریداری کا تجربہ کچھ پھیکا سا محسوس لگے گا ۔ عید قربان
کے حوالے سے مناسب یہی لگتا ہے کہ ان چند خریداروں کی قسموں پہ ہی اکتفا
کیا جائے ۔ ان مٰیں سب سے پہلی قسم ان خریداروں کی ہے جس کا عنوان میرے
دوست قلم نے سابقہ عید قربان کیلئے تجویز کیا تھا یعنی قربانی کا بکرا ۔ جی
ہاں یہ وہ قسم ہے جنہوں نے ہر حال میں قربانی خریدنی ہے اور قربانی کے بغیر
چارہ ہی نہیں بے شک ان کے دل میں قربانی کا جذبہ موجزن ہو یا نہ ہو لیکن
محلے اور گاؤں میں چرچا ہونا ضروری ہے ۔یوں وہ قربانی کے بکرے بن جاتے ہیں۔
دوسری قسم کے خریداروں میں وہ لوگ شامل ہیں جن کو خدا نے قربانی سے مستثنیٰ
قرار دیا ہے لیکن وہ بھی معاشرے کے ہاتھوں مجبور اپنی ناک اونچی کرنے کی
چکر میں بکرا منڈی کا مزہ لوٹتے ہیں اور سپیشل بکروں پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور
یہ سپیشل بکرے ان کی اس حرکت پہ سیخ پا ہوتے ہوئے جب انہیں گھورتے ہے تو دو
نمبری خریدارپھدک کر دور بھاگ جاتے ہیں اور پھر وہ ان بکروں کی طرف مڑ کر
بھی نہیں دیکھتے کہ کہیں وہ ان کی اصلیت کا پول نہ کھول دیں اور وہ معاشرے
میں منہ اٹھانے کے قابل نہ رہئیں ۔ بکر ا منڈی میں اس قسم کے ایک خریدار سے
میری ملاقات ہوئی تو اس نے اپنے ساتھ پیش آنے والے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے
کہا کہ پچھلی عید قربان میں اس نے ایک چھوٹا سا بکرا قربانی کے لئے خریدا
تھا اتفاقاً عید سے ایک دن پہلے وہ بکرا کھو گیا۔ تلاش بسیا ر کے بعد بھی
بکرا نہیں ملا تو دل میں ملال لئیے ہوئے اس خریدار نے قربانی مسائل کے کسی
ماہر سے رجوع کیا تھا ۔یہاں معاملہ یک نہ شد دو شد والا بن گیا۔ ماہر مسائل
قربانی نے اسے بتا یا تھا کہ دوسری قربانی خریدنی اب لازم ہو گئی ہے اور جب
گمشدہ بکرا مل جائے تو اسے بھی قربان کرنا ہے یعنی گمشدہ بکرا ملنے کی صورت
میں دو قربانیاں۔ اس خریدار کو گلہ اس بات کا تھا کہ اسے ایک قربانی تک
رسائی بڑی مشکل سے ہوئی تھی اور اب اوپر سے دو۔ عجیب سی صورتحال سے دوچار
ہوا تھا بیچارہ ۔ اب اس دوست نے نئی قربانی خریدی تھی یا نہیں یہ اس نے
نہیں بتایا۔ماہر قربانی مسائل نے اس غریب اور لاچار کو نئی قربانی خریدنے
کا مشورہ یا حکم یقینا اپنے ماہرانہ تجربے اور حالات کی نزاکت کو دیکھتے
ہوئے دیا ہوگا ۔ پر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اس کو قربانی کے بکرے کا لقب دیا
جائے یا قربانی کے بیل کا ۔ تیسرے قسم بکرا منڈی میں ان خریداروں کی ہوتی
ہے جو اﷲ تعالیٰ کی ہر نعمت سے بہر و مند ہوتے ہیں اور جن کی کوٹھیوں کے
گیٹ میں ہٰذا من فضل ربی۔ نمایاں لکھا ہوا ہوتا ہے ایسے خریدار اپنے پورے
خاندان سمیت بڑی بڑی پراڈوز میں سیر سپاٹے کا لطف اٹھاتے ہوئے بکرا منڈی کی
حدود سے بھی تجاوز کرجاتے ہیں ان کے چہرے خوشی سے چمک بلکہ دمک رہے ہوتے
ہیں۔ مجال ہے کہ ماتھے میں بل آجائے۔ اس لئے کہ قربانی دینی نہیں ہے بلکہ
خریدنی ہے جب اس قسم کے خریدار بکرا منڈی میں آجاتے ہیں تو بکرا منڈی میں
ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے اور اس ہلچل میں پہلی اور دوسری قسم کے خریدار
بکروں کی نعرہ بازی اور انکی اچھل کود کی وجہ سے اٹھنے والی دھول میں غائب
ہوجاتے ہیں ۔ اس قسم کے خریداوروں پر بحث کرنا خود کو فرشتہ سمجھنے کے
مترادف ہے ۔ کسی پہ تہمت یا گمان نہیں کرنا چاہئیے کیوں کہ اس سے اپنا
ایمان ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ۔ لب لباب یہ کہ اب کی دفعہ بکرا منڈی میں
بکروں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا یہ فائدہ ہوا کہ ایک بزرگ بکرے نے پتے کی
بات بتا دی ۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہم قربانی کے بکرے نہ بن جائیں تو
بیچارے انسان کس کو قربان کریں گے ہم بکرے اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر
کے انسانوں کو قربان ہونے سے بچاتے ہیں لیکن یہ ناشکرا انسان چند ٹکے چاہے
وہ کیسے بھی حاصل ہوئے ہوں خرچ کر کے ہم اصلی قربانی کے بکروں کی قربانی کو
خاطر میں نہیں لاتے اور خود محاورے والے قربانی کے بکرے بن کر سب سے یہی
کہتے پھرتے ہیں کہ قربانی ہم نے دی ہے۔۔۔۔۔۔ |