آنا جانا بھی روز کا ہے عذاب
(M.Ibrahim Khan, Karachi)
سب سے بڑا اور جامع شواہد کے
ساتھ پایا جانے والا طلسماتی دور تو وہ ہے جس میں ہم جی رہے ہیں۔ مگر خیر،
گزرے ہوئے زمانوں میں پائے جانے والے طلسمات کو سچ مان لیجیے تب بھی آج
ایسا بہت کچھ ہے جو اُس طلسمات سے بڑھ کر ہے۔ کراچی کا ماس ٹرانزٹ سسٹم اِس
سلسلے میں ایک ’’روشن‘‘ مثال کا درجہ رکھتا ہے۔
ایک زمانے سے کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم بہتر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ آپ
سوچیں گے یہ کیسا مذاق ہے؟ جب کوئی سسٹم ہے ہی نہیں تو کیا بہتر بنانے کی
کوشش ہو رہی ہے! آپ کا سوچنا بھی غلط نہیں۔ ایک بڑے اور عالمی نوعیت کے شہر
کو جس طرح چلایا جارہا ہے اُس سے تو لگتا ہے کہ شہر اور اُس کے رہنے والوں
سے کِھلواڑ کی جارہی ہے۔ مگر خیر ایک کراچی کو کیا روئیے، ملک کا ہر بڑا
شہر ایسے ہی سُلوک سے دوچار ہے۔
دیو مالائی داستانوں میں ایسے عجیب الخلقت حیوانوں کا ذکر ملتا ہے جو ٹھیک
ٹھیک نشانہ لیے جانے پر بھی مرنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ بعض طلسماتی قصوں
میں پائے جانے والے جانور کو اگر کوئی بہادر شہزادہ دو لخت بھی کردیتا تو
ہر ٹکڑا اپنی جگہ الگ، مکمل جانور کی حیثیت اختیار کرلیتا! کچھ ایسا ہی
معاملہ کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کا ہے۔ کراچی میں روزانہ کم و بیش 90
لاکھ افراد گھر سے نکلتے ہیں۔ اِن میں مزدوروں اور آفس ملازمین کے علاوہ
اسکول کے بچے بھی شامل ہیں۔ 70 لاکھ سے زائد افراد کو کام پر جانے کے لیے
یومیہ بنیاد پر ٹرانسپورٹیشن کی سہولت درکار ہے۔ اپنی کار میں یا موٹر
سائیکل پر جانے والوں کی تعداد تقریباً 15 لاکھ ہے۔ یعنی 50 لاکھ سے زائد
افراد کے لیے بسیں، ویگنیں، کوچیں، رکشے اور ٹیکسیاں درکار ہیں۔
ایک زمانے تک پبلک ٹرانسپورٹ ویگن اور کوچ مافیا کے کنٹرول میں رہی۔ اِس کا
زور توڑنے کے لیے چار پانچ سال قبل بڑے پیمانے پر موٹر سائیکل رکشے یعنی
چنچی رکشے متعارف کرائے گئے۔ یہ رکشے ہاضمے کے چُورن کے طور پر لائے گئے
تھے مگر اب ہاضمے کو مزید خراب خراب کرنے کا باعث بن چکے ہیں۔ ابتدا میں
لوگ یہ سمجھے کہ چنچی رکشے شاید تفریح طبع کا سامان ہیں! اِن رکشوں میں
سواری کرنا تفریح اور مہم جوئی کا مرقّع تھا۔
مرزا تنقید بیگ کو چنچی رکشوں سے شدید نفرت ہے۔ وہ جب بھی مجبوری کی حالت
میں اِن رکشوں کی سواری کرتے ہیں، کئی دن تک اُن کا مُوڈ خراب رہتا ہے۔
کہتے ہیں۔ ’’کوئی بھی تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے حلیم اور نہاری کا لُطف
نہیں پاسکتا۔ یعنی حلیم اور نہاری کھاتے وقت اِنسان کو شائستگی و آداب کے
تقاضے بالائے طاق رکھنے پڑتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح چنچی رکشے میں بھی کوئی
پوری تمیز اور شائستگی کے ساتھ سفر نہیں کرسکتا۔ چنچی رکشہ ایسی نامعقول
چیز ہے کہ کوئی دوسروں کا احترام ملحوظِ خاطر رکھے تو اِس میں سفر کر ہی
نہیں سکتا۔‘‘
چنچی کی منزل تو گزرے تو اہلِ کراچی 6 نشستوں سی این جی رکشوں تک پہنچے۔
اور اب 9 نشستوں والے رکشے عام ہیں۔ یعنی تین نشستیں پیچھے اور اندر آمنے
سامنے چھ نشستیں۔ ڈرائیور اپنے دائیں بائیں بھی ایک ایک مسافر بٹھاتا ہے۔
گویا کم از کم بارہ مسافر تو بیٹھتے ہی ہیں۔ بچوں کو ملائیے تو 20 افراد کو
لے کر خاصے کمزور انجن والے یہ رکشے کھانستے، چھینکتے کراچی کی سڑکوں پر
’’رواں دواں‘‘ نظر آتے ہیں۔
ویگنوں اور کوچوں کا زور توڑنے کے لیے جو منتر پھونکا گیا تھا وہ بیک فائر
کرگیا یعنی چنچی اور سی این جی رکشے برآمد ہوئے ہیں۔ وہی دیو مالائی جانور
والی بات۔ چند ہزار ویگنیں اور کوچیں کئی ہزار رکشوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔
اب حالت یہ ہے کہ کراچی کی سڑکوں پر سی این جی رکشے کیڑے مکوڑوں کی طرح
رینگتے پھر رہے ہیں۔ اور سچ پوچھیے تو پیروں میں آرہے ہیں!
چنچی کو پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ سی این جی رکشے بھاری باڈی کے ساتھ خاصے
متوازن ہیں۔ ذرا سا لہرانے پر یہ چنچی کی طرح دُھول چاٹتے دکھائی نہیں دیتے
مگر اِن کے مسافروں کے نصیب میں توازن نہیں۔ سی این جی رکشے کے سفر میں
مسافروں کے لیے ویسے ہی پَلٹے ہوتے ہیں جیسے کلاسیکی آئمٹز میں تان پَلٹے
ہوتے ہیں۔ خواتین کی آمد پر مردوں کو پورشن بدلنا پڑتا ہے۔ اندر آمنے سامنے
کی نشستوں پر چار مسافر اور پچلی نشست پر دو خواتین بیٹھی ہوں تو مزید تین
خواتین مسافروں کے لیے پچھلی نشست کی خواتین کو اندر کی طرف آنا پڑتا ہے
اور اندر والے مسافروں کو پچھلی نشست پر جانا پڑتا ہے۔ اگر کوئی اضافی مرد
ہو تو ڈرائیور اپنے پاس بٹھا لیتا ہے۔ چند اسٹاپس کے بعد تمام خواتین اُتر
جائیں تو مردوں کو دوبارہ اندر آکر سُکون سے بیٹھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
اگر کسی کو پندرہ بیس کلومیٹر کا سفر کرنا ہے تو کئی بار اِس عمل سے گزرنا
پڑتا ہے۔ یعنی گاڑی تو وہی رہتی ہے مگر ع
مسافروں کے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں
سی این جی رکشوں کے ڈرائیوروں نے ایک جُملہ رٹا ہوا ہے۔ یہ کہ دل میں جگہ
ہونی چاہیے۔ ہم نے بارہا وضاحت چاہی ہے کہ کیا پہلے سے موجود لوگوں کے پیٹ
چیر کر مزید مسافر بٹھاؤگے!
ویگنوں اور کوچوں کا زور تو ٹوٹ گیا مگر اب چنچی اور سی این جی رکشوں کا
زور کون توڑے گا؟ 10 روپے والا مسافر بٹھانے کے لیے نصف درجن رکشوں میں بیچ
سڑک پر جنگ ہو رہی ہوتی ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین معاشیات ایسی بھرپور مسابقت
کا مشاہدہ کریں تو کتابوں پر کتابیں لکھیں اور سَیر نہ ہوں۔
جس کے پاس کوئی ہنر نہ ہو اور نوکری کرنے کا مزاج بھی نہ پایا جاتا ہو وہ
کہیں سے بیس تیس ہزار روپے کا بندوبست کرکے قسطوں پر رکشہ حاصل کرکے سڑک پر
کرتب دکھانے لگتا ہے۔ جس نے کبھی سائیکل بھی ڈھنگ سے نہ چلائی ہو وہ بھاری
بھرکم رکشہ میں دس بارہ افراد بٹھاکر اپنا ہنر اور دوسروں کا صبر آزماتا
ہے! کراچی کی سڑکوں پر یہ تماشا صبح و شام ہے اور بن دام ہے۔ دو تین دن تک
انٹ شنٹ چلانے کے بعد لوگ رکشہ چلانا سیکھ جاتے ہیں۔ حیرت کیسی؟ اِنسان
اِسی طرح تو سیکھتا ہے۔ اب اگر ہزاروں رکشہ ڈرائیوروں کے گھروں میں چولھے
جلتے رکھنے ہیں تو قوم کو تھوڑی بہت قربانی تو دینی پڑے گی۔
عام آدمی کے لیے کام پر جانا کل بھی جاں گسل مرحلہ تھا اور اب بھی ہے۔ کل
تک کوچ سے جانے کے لیے 20 روپے خرچ کرنے پڑتے تھے۔ اب سی این جی رکشوں میں
طویل فاصلے کے 40 یا 50 روپے تک خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اور جس دن سی این جی
بند ہو اُس دن پانچ دس روپے اضافی دیجیے۔ ویگنوں اور کوچوں سے نجات پانے کی
کوشش یہ رنگ لائی ہے کہ اب چنچی اور سی این جی رکشے گلے کی ہڈّی بن گئے
ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا یہ ’’رخِ پُرنور‘‘ دیکھنے کی سب میں تاب نہیں۔ سی
این جی رکشوں کا سفر کئی مراحل پر مشتمل ہے۔ جو منزل پر پہنچ کر صحیحی ذہنی
حالت کے ساتھ رکشے سے خارج ہو اُسے اپنے مقدر پر ناز کرنا ہی چاہیے۔
جو قوم پانی اور بجلی کو ترس رہی ہے وہی قوم یہ بھی چاہتی ہے کہ حکومت ماس
ٹرانزٹ سسٹم بھی بہتر بنائے۔ یعنی عوام کے لیے روزانہ کام پر جانا اور واپس
گھر آنا ایک سہل اور پُرلطف مرحلہ ہونا چاہیے۔ کراچی، لاہور اور دیگر بڑے
شہروں میں ماس ٹرانزٹ سسٹم انقلابی اقدامات کا طالب ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ
اِس کے لیے بھی لوگوں کو دھرنے دینے پڑیں گے۔ اہلِ وطن کے لیے یاروں نے
دُنیا میں آنا عذاب بنادیا ہے مگر روز کام پر آنا جانا تو عذاب نہ ہو۔ پانی
و بجلی کے ماروں کو کم از کم اِتنا ریلیف تو ملنا ہی چاہیے۔ تب تک قوم کو
یومیہ عذاب جھیلتے رہنا پڑے گا۔ ع
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک |
|