ہاشمی اور شیخ ۔۔۔ نئی جنگ اور نئی ہتھیار
(Asif Yaseen, Jaffar Abad)
پاکستان تحریک انصاف کے منحرف
صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے انکشاف کیا ہے کہ شیخ رشید بھی اصل میں بٹ ہیں
لیکن شرم کے مارے بٹ نہیں لکھتے ۔ ان کے تین بھائی بٹ ہوں تو چھوتا شیخ
کیسے ہو سکتا ہے جبکہ شیخ رشید کے والدہ بھی رشیدہ بٹ کہتی تھیں ۔ مخدوم
جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ میراب نواز شریف یا کسی اور جماعت سے تعلق نہیں ،
ضمنی الیکشن سے جمہوریت کی راہ متعین ہو گئی اور نئی راہیں کھلیں گی۔ انہوں
نے کہا کہ دھرنا عمران خان کی سیاست ختم کرنے کی سازش ہے اب گو نواز گو کے
نعروں سے بھی تبدیلی نہیں آ ئے گی وغیرہ وغیرہ۔
اُس وقت جب میں نے مخدوم جاوید ہاشمی جیسے پرانے سینئر و سنجیدہ سیاست دان
سے ایسے جملہ سنا تو بہت افسوس ہوا ’’ شیخ رشید بھی اصل میں بٹ ہیں لیکن
شرم کے مارے بٹ نہیں لکھتے ۔‘‘ دراصل ’’ بٹ ‘‘ ایک پنجابی قوم کی ایک زیلی
شاخ ہے۔ پنجابی تو بہت ہیں آ سانی کے لئے بٹ وغیرہ جو آ سانی کے لئے ہوتے
ہیں۔ مخدوم صاحب ! آپ کی اس جملے سے ’’بٹ ‘‘ برادری کو کتنا افسوس ہوا وہ
بٹ ہی جانتے ہیں میں ایک بلوچ فر د ہوں ۔ بٹ پنجابی نہیں۔ لیکن مجھے افسوس
ہو ا کہ آ پ نے کسی ذات Self کو ٹارگیٹ کرنے کے بجائے آ پ نے پوری قوم کو
ٹارگیٹ کیا ہے ۔ لیکن کسی قوم کو ٹارگیٹ کرنا ایک بزرگ کہلانے والے سیاست
دان کے لیے ہر گز زیب نہیں دیتا ہے۔ ہاشمی صاحب ! آ پ کے مطابق کیا جو لوگ
’’ بٹ ‘‘ ہیں وہ قابل شرم ہے یا شرمندہ ہیں ؟ بٹ کوئی برائی ہے ؟ بٹ کم نسل
ہے؟ بٹ کہلانا کسی کے لئے شرم ناک ہے؟۔۔۔۔ ہاشمی آپ بہک گئے ہیں آپ بوڑھے
ہونے کے ساتھ اب کافی کنفیوزڈ بھی ہیں ۔ بٹ پنجابی قوم ہے ۔ اسلام میں بٹ ،پنجابی
، بلوچ ، سندھی ، پٹھان ، شیخ وغیرہ سب پہچان کے لئے ہیں ۔ جب قبر اور جنت
و جہنم کی بات آ ئیگی توبٹ ، بلوچ ، پٹھان، شیخ سندھی نہیں دیکھا جائے گا
بلکہ کرداد و اعمال اور نیت دیکھا جائے گا۔ ہاشمی صاحب : آ پ کو کیا فرق
پڑھتا ہے کہ کوئی بٹ ہے یا نہیں ۔ کوئی شیخ ہے یا نہیں ؟ ہاں آپ کی
جائیدادمیں بٹ کا حصہ ہے اور شیخ بٹ بن کر آپکو لوٹنا چاہتا ہے تو یہ بات
الگ ہے ۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے جاوید ہاشمی کے بیان پر در عمل
میں کہا ہے کہ میرے باپ دادا شیخ تھے، 60سال کی عمر میں باپ نہیں بدل سکتا
، جاوید ہاشمی بتائیں وہ ’’ مخدوم‘‘ کب بنے ؟ ان کا کہنا ہے کہ اولڈ من
جاوید ہاشمی انتخابات سے بھاگنا چاہتے ہیں تو کوئی اور بہانہ تلاش کریں ،
انہیں مجبور نہ کریں کہ وہ ملتان کے جلسہ میں جائیں ۔ انہوں نے میڈیا کو
بتایا کہ بچپن میں ہاشمی کے ساتھ پڑھتا رہا ہوں ، انہیں معلوم کے میں کون
ہوں ؟ میرے باپ دادا تھے ، تاہم انہوں نے جاوید ہاشمی سے پوچھا ہے کہ آ پ
جاوید ہاشمی تو پہلے تھے ٹھیک ہے لیکن آپ مخدوم جاوید ہاشمی کیسے بنے ؟ اب
مخدوم جاوید ہاشمی کیوں لکھنا شروع کیا ہے مجھے بتائیں وہ کون سے مخدوم ہیں
اور مخدوم کب بنے؟
شیخ رشید احمد ! افوس ہے آ پ ایک سیاسی پاڑٹی کے سربراہ ہیں اور آ پ اس طرح
بچوں کی طرح کی تخلص و لقب کو کیوں ٹارگیٹ کر رہے ہیں ۔اگر ہاشمی نے کہا
بھی تھا تو آپ کوئی درست جواب دیتے جو آ پ کو زیب دیتا ۔ شیخ رشید احمد !
مخدوم کا معنی ٰ کسی سے برائے مہربانی پوچھیں ۔ بیان بازی کی کسی کی ذاتیات
کو ٹارگیٹ کرنا اور مخدوم اور شیخ جیسے نام و تخلص لیکر عوام کو گمران کرنا
قابل افسوس عمل ہے ۔ایسے ہتھکنڈے والے سیاست دان ہر گز تجربہ کار سیاست دان
نہیں ہوسکتے ہیں ۔ سیاست کا اصول ہے اختلاف برائے کردار و اعمال نہ کسی کی
نام ، ولدیت ، پیدائش یا قوم کی ہونی چاہئے۔ جس بات پر جو کوئی بھی غلط ہو
تو برائے مہربانی کرداد اور اعمال کو غلط قرار دیں تو درست ہوگا اس طرح
احمقانہ حرکات کرنا غلط ہے ۔ خصوصاََ برزرگ سیاست دانوں اور پارٹی کے
سربراہوں ہر گز زیب نہیں دیتا ہے ۔
قارئین حضرات ! مخدوم لغوی معنی خدمت گار کے ہیں ۔ ہر وہ شخص اپنا نا م کے
ساتھ تخلص یا لقب لگا سکتا ہے ۔ کوئی غنی لکھتا ہے تو کوئی مخدوم ۔ اب جبکہ
کوئی بندہ کسی کی خدمت بھی نہ کرے توخود کو مخدوم لکھے تو یہ جھوٹ تصور
ہوتا ہے جیسے ہاشمی صاحب نے اپنے نام کے ساتھ تخلصاََ مخدوم لکھنا شروع کیا
ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ خدمت بھی کرتا ہے یا نہیں ؟ یاصرف دکھا وا کی
مخدومیت لکھتے ہیں ۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ ن کو زندہ رکھا اور آج
اگر مسلم لیگ ن میں ہوتے تو ٹاپ 5 لوگوں کی فہرست میں ضرور ہوتے کیونکہ
پاڑٹی کامرکزی صدر رہا ہے اور میاں نواز شریف کی جلا وطنی کے بعد مخدوم
جاوید ہاشمی نے پاڑٹی کو سنبھالا اور اسکی نگرانی کی ۔ اگر نگرانی نہ کرتا
ار نہ ہی سنبھالتا تو آ ج نواز شریف اس مقام پر شاید نہ ہوتے اور پاکستان
کی عوام زرداری جیسے مگر مچھ کے ہاتھ میں ہی رہتا ۔یہ حقیقت ہے کہ نواز
شریف کی حکومت زرداری کی حکومت سے دو گناہ درست ہے ۔ مینجمنٹ بھی درست ہے
لیکن وہ مینجمنٹ نہیں ہے جس کا پاکستان کو شدید انتظار ہے ۔
قارئین حضرات ! کہانی مختصر: دراصل ہاشمی کو شیخ رشید سے کافی جیلس ہے
کیونکہ دھرنے سے پہلے کچھ دنوں سے لیکر شیخ رشید صاحب عمران خان کے مشیر
خاص محسوس ہو رہے ہیں ۔ شیخ رشید صاحب اپنی جماعت کو حکومت کے خلاف ’’ گو
نواز گو‘‘ کا نعرہ لگوانے کے بجائے پی ٹی آ ئی کے کارکنان سے زیادہ پسند
کرتے ہیں ۔ بحرحال! عمران خان صاحب کے ہمیشہ دائیں طرف ہاشمی کی جگہ شیخ
رشید نظر آ نے لگے تو ہاشمی کو غصہ آ نا شروع ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ہاشمی
نے پارٹی سے علیحدگی کا دلی فیصلہ کر لیا اور آ خر میں الزام تراشی شروع کر
کے اسمبلی و پارٹی سے دور ہو گئے ۔ ہاشمی اور شیخ صاحب کی سیاسی نظریاتی
اختلافات برائے اصلاح ضرور کرنی چاہئے مگر بٹ اور شیخ قبیلے کو اس طرح غلط
بیان نہیں کرنا چاہئے ۔ |
|