گلشن اقبال سے واپسی کا راستہ
لیمارکیٹ کی طرف تھا تو مجھے کفایت اﷲ قاضی یاد آگئے جن سے ملے کافی عرصہ
ہو چکا تھا تو فون پر رابطہ کرنے پر ان سے ملاقات کی حامی بھر لی ۔
لیمارکیٹ پہنچا تو حسب معمول موصوف نے مسکراہٹ بھرے انداز میں میرا استقبال
کیا۔ جو میرے انتظار میں لیمارکیٹ کے مین روڑ پر واقع المکہ ہوٹل میں بیٹھا
میرا انتظار کر رہا تھا۔ ساتھ ہی ایک دوست بھی انکے ہمراہ موجود تھے۔ گلے
ملنے کے بعد دوست کا تعارف کرتے ہوئے بولے کہ ریاض جوگ ہیں ریاض جوگ نہایت
ہی ہنس مکھ معلوم ہوئے جو چند ہی لمحوں میں اپنے آپ کو جان پہچان کرانے کا
موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے خوش گپیوں میں دوستوں نے گرما گرم چائے کا
آرڈر یوں دے دیا کہ دو کا چار۔ پہلے مجھے تجسس ہوا کہ دو کا چار کیا ہوتا
ہے لیکن جونہی بار والا چار کپ ہمارے سامنے رکھ کر رفو چکر ہو گیا تو مجھے
دو کا چار سمجھ میں آگیا کہ دو دوست ایک کپ کو دو کرکے پی لیں تو اس سے
دوستی کا رشتہ بھی مزید گہرا ہو جاتا ہے۔ خیر دوستی کے اس رشتے کو مزید
گہرا کرنے کے لئے ہمیں اس نئے طریقے پر عمل کرنا ہی پڑا دیگر صورت میں چائے
پینے کا شوقین آدھے کپ سے مہمان نوازی کا قائل نہیں تھا جو قاضی کے نئے
منطق پر مجھے عمل کرنا ہی پڑا۔ تو اسی اثناء دیگر دوستوں کی آمد کا سلسلہ
شروع ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا چھوٹا نشست محفل کی شکل میں تبدیل ہو
گیا۔ جوں جوں نئے احباب اس غیر رسمی محفل میں شامل ہو رہے تھے تو میرے دوست
کفایت اﷲ قاضی نہ صرف میرا تعارف ان دوستوں کے ساتھ کیا کرتے تھے بلکہ اسکے
ساتھ ساتھ آنے والے مہمانوں کا تعارف مجھ سے کیا کرتے تھے جن سے پہلی مرتبہ
ملنے کا موقع مل رہا تھا اور اسکا سہرا کفایت اﷲ قاضی کو جاتا ہے جنہوں نے
اس محفل میں میری شمولیت کو یقینی بنا لیا تھا کیونکہ ان دوستون کی تو محفل
کا لگنا روز روز کا معمول ہے۔ جہاں وہ دن بھر اپنے سرگرمیوں سے فارغ ہو کر
زہنی تسکین اور خوش گپیوں کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔ جن جن دوستوں نے
ہمیں جوائن کیا تھا ان میں رزاق سربازی، اکرم ہوت، وسیم ناروی، ع ر گمنام،
طارق مراد شامل تھے۔ یہ تمام ادب سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔ بیس فٹ
چوڑے لیمارکیٹ کا یہ اانتہائی مصروف شاہراہ جسکے کنارے المکہ ہوٹل واقع ہے
زیادہ تر کرسیاں جو ہماری مجلس کے شروع میں خالی پڑی تھیں وہ اب آہستہ
آہستہ لوگوں کی آمد کے ساتھ ساتھ فل ہو گئے تھے ۔دوستوں کی خوبصورت محفل نے
اس مقام کو وہ خوبصورتی بخشتی تھی جسکا تصور آپ کسی بھی ہوٹل میں تنہا بیٹھ
کر نہیں کرتے۔ محفل میں مزاحیہ گفتگو شامل ہونے کی وجہ سے قہقہوں کی گونج
نے گاڑیوں کے شور و غل پر حاوی پا ئی تھی اوور دوستوں کا ہنسی مذاق بھرا
ماحول پورے فضا کو خوشگوار بنانے کا کام کر رہا تھا۔ ریاض جوگ جو لیاری میں
اسسٹنٹ لائبریرین کے خدمات انجام دے رہے ہیں اور اکرم ہوت جو ایک سماجی
ورکر ہیں دونوں کے درمیان مزاحیہ جملوں کا ایک دوسرے پر حملہ جاری تھا جس
پر موجود شرکاء داد دیئے اور ہنسے بغیر نہیں رہتے اور ان تمام تمام ہنسنے
والوں میں سے کفایت اﷲ قاضی کے ہنسنے کی آواز سب سے بلند تھی اور دوسرے
دوست بھی ان مزاحیہ جملوں کے تبادلے سے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔
اکرم ہوت انسانیت کی خدمت پر یقین رکھنے والے انسان ہیں۔ جو انسانیت کی
خدمت کرکے سکون حاصل کرنے کے متلاشی ہیں جبکہ ریاض جوگ انکے مقابلے میں
اکرم ہوت کی سماجی سرگرمیوں سے نالاں انسان ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ جب تک
انسان خود کفیل نہ ہو اسے دوسرے انسانوں کے خدمت کی کیا ضرورت جب انسان
مالی طور پر مستحکم ہو تب اسے دوسروں کا سوچنا چاہئے جبکہ اکرم ہوت اس کے
مقابلے میں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسانیت کی خدمت ہی سب کچھ ہے اگر
آپ انسانیت کی خدمت کرو گے تو آپکی مصیبتیں خود بخود کم ہو جائیں گی بلکہ
وہ اسکی مثال رسول پاک کی زندگی کو دیتے ہیں جنکی پوری زندگی عالم اسلام
اور انسانیت کی خدمت میں گزری۔ اور کوئی بھی ایک دوسرے کے دلائل کو ماننے
سے انکاری تھے۔ جبکہ ان دونوں کے درمیان بحث مباحثے کو طول دینے میں رزاق
سربازی اور کفایت قاضی کا بڑا ہاتھ تھا جو اکرم ہوت اور ریاض جوگ کو خاموشی
کا موقع ہی فراہم نہیں کر رہے تھے۔ ریاض جوگ عمر میں اکرم ہوت سے بڑے ہیں
لیکن ان دونوں کی ظاہری شکل و صورت کا اندازہ لگایا جائے تونہیں لگتا کہ
ریاض جوگ عمر میں بڑے ہیں کیونکہ ظاہری شکل و صورت میں اکرم ہوت عمر میں
کافی بڑے لگتے تھے۔ اور اس سے اکرم ہوت کے دل کے اندر ایک دکھ درد کی
داستان چھپی نظر آئی جبکہ ریاض جوگ جو کافی زندہ دل معلوم ہوتے تھے۔ دوستوں
کی یہ محفل مجھے میرے سوچوں کی دنیا میں لے کر گیا تھا۔ کہ ہماری میڈیا نے
آج تک لیاری کو صرف گینگ وار کا اڑہ ہی قرار دیا ہے لیکن شاید ہماری میڈیا
یہاں کے بسنے والے زندہ دل انسانوں اور یہاں کے اہل دانش، اہل علم اور اہل
قلم سے واقف ہی نہیں جسکا چہرہ آج تک دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ہے کہ
انہی گولیوں کی گونج بھری دنیا میں قہقہے لگانے والے لوگ بھی بستے ہیں
جنہوں نے نہ صرف یہ تصور پیش کیا ہے کہ دنیا میں چاہے جتنی بھی بے چینی
کیوں نہ ہو لیکن وہ اپنے اسی روایتی ماحول کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار
ادا کریں گے۔ جب بھی کبھی آپکو انہی خوبصورت لمحات کو اپنے آنکھوں میں
محفوظ کرنے کی ضرورت ہو تو شام کے فرصت ٹائم میں لیمارکیٹ کا ہوٹل المکہ کا
رخ ضرور کرنا۔ میں نے محفل میں موجود دوستوں کے سامنے اپنی رائے رکھی کہ
اگر ایک پرسکون جگہ ملتا جہاں ہم بلا تکلف ایک دوسرے کی گفتگو سے بھر پور
لطف اٹھاتے تو میرے ساتھ ہی بیٹھے وسیم ناروی نے کہا کہ ہماری دنیا ہی یہی
ہے اور اسی میں رہ کر ہی اسے خوب سے خوب تر بنانا ہی کمال ہے۔ تو میں نے
اپنے الفاظ واپس لئے۔
شام کا حسین لمحہ شب تاریکی میں تبدیل ہو گیا تھادوستوں کا محفل جاری تھا
لیکن مجھے نہ چاہتے ہوئے دل کے ساتھ ان سے اجازت لینا پڑ رہا تھا کیونکہ
لیمارکیٹ سے حب جانے والی بس میری منتظر تھی۔ میں دوستوں کی محفل سے کافی
دور نکل چکا تھا لیکن انکے قہقہوں کی آواز اب بھی سنائی دے رہا تھا۔ بس دل
سے یہی دعا نکل رہی تھی کہ صدا سلامت رہے یہ محفلیں، قہقہے ، مسکراہٹیں اور
صدا سلامت رہے اہل لیاری
|