قربانی کے فضائل ومسائل اورمتنازعہ سوچ
(Muhammad Siddique, Layyah)
قربانی کرنے کا مقصد محض
جانور کا خون بہانا نہیں بلکہ اﷲ پاک کا قرب حاصل کرنا ہے۔ اﷲ پاک کا قرب
اس وقت حاصل ہوتا ہے جب دل ونیت میں خلوص ہودکھاوا نہ ہو، نمود ونمائش نہ
ہو۔ کوئی شخص دس لاکھ روپے خرچ کرکے قربانی کرتا ہے اور وہ اس لیے اتنی
مہنگی قربانی کرتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ اس نے قربانی رپ بہت پیسہ خرچ کرتا
ہے۔اﷲ کا کے ہاں اس سے اس قربانی کرنے والے کا درجہ زیادہ ہے جو دس
ہزارروپے خرچ کرکے قربانی کرتا ہے اور صرف اورصرف اﷲ کی رضا اورخوشنودی کے
لیے کرتاہے۔ اﷲ پاک کے پاس خون نہیں تقوی پہنچتا ہے۔ جس نے گوشت کھانے کی
نیت سے قربانی کی ۔ اس کی کوئی قربانی نہیں اس لیے بکرے،بھیڑ، ، گائے ،بھینس
اور اونٹ کے گلے پر چھری چلانے سے پہلے اپنی خواہشات نفسانی پرچھری
چلائیے۔جانور ذبح کرنے سے پہلے اپنی تمناؤں کوذبح کریں۔ جانور کا خون بہانے
سے پہلے غرور، تکبر، ریاکاری، لالچ ،حرص ، انا اورانتقام کی آگ کا خون
بہائیں۔ جانورکی قربانی کرنے سے پہلے دولت، شہرت، ناموری، مطلب پرستی،غرور،
گھمنڈاورنفس امارہ کی قربانی کریں۔ جانورکی قربانی سال میں ایک بارجبکہ
مندرجہ بالا دیگر قربانیاں روزانہ کریں۔ اس کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے
کہ سب سے پیارے جانورکی قربانی کریں اس میں کوئی عیب نہیں ہونا چاہیے۔ اپنی
مالی استطاعت کے مطابق اچھے سے اچھے جانورکی قربانی کریں۔ گوشت کھانے کی
نیت سے قربانی نہ کرنا خواہشات ہی کی قربانی ہے۔اﷲ پاک کی رضا اوررسول کریم
صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی اتباع و اطاعت میں عقل اور خواہشات کا کوئی عمل
دخل نہیں ہوتا۔ صرف قربانی کاگوشت ہی تین حصوں میں تقسیم نہ کریں بلکہ اپنی
ضروریات زندگی کو بھی تین حصوں میں تقسیم کردیں۔ رشتہ داروں اورہمسائیوں کو
گوشت کے ساتھ ساتھ ان کو ان کی ضروریات زندگی بھی پہنچائیں۔ صرف جانور ذبح
کرنا ہی قربانی نہیں اپنی ضرورت کی چیز کسی دوسرے ضرورت مندکودینا بھی
قربانی ہے۔ جس نے خوش دلی سے طالب ثواب ہوکرقربانی کی وہ جہنم کی آگ سے
حجاب ہوجائے گا۔ جو روپیہ عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیااس سے زیادہ
کوئی روپیہ پیارا نہیں۔ آپ قربانی کریں یا نہ مستحب ہے کہ عیدقربان تک ناخن
بال وغیرہ نہ کاٹیں نہ کٹوائیں۔ بلکہ عید قربان کے دن عید کی نمازاداکرنے
کے بعدحجامت کرائیں قربانی کا ثواب پائیں گے۔
عرض کیا یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہ وسلم یہ قربانی کیا ہے فرمایا تمہارے
باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ عرض کیاہمارے لیے اس میں کیا ہے
فرمایا جانورکے ہربال کے بدلے میں نیکی ہے۔
حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس نے ذی الحج کا چاند دیکھ لیا اور
اس کا ارادہ قربانی کرنے کا ہے توجب تک قربانی نہ کرلے اپنے بال اورناخن نہ
کاٹے۔
حضور صلی اﷲ علیہ والہ وسلم نے عیدالاضحی کے دن دومینڈھے سینگ والے چٹ کبرے
خصی کیے ہوئے ذبح کیے اور فرمایا یااﷲ یہ میری طرف سے اورمیری امت میں سے
اس کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی۔
امام احمدبن حنبل فرماتے ہیں کہ چارقسم کے جانوروں کانا، بیمار، لنگڑااورجس
کی ہڈیوں میں گوشت نہ ہوکی قربانی جائز نہیں۔
ابن ماجہ میں ہے کہ حضور علیہ الصلواۃ والسلام نے کان کٹے ہوئے اورسینگ
ٹوٹے ہوئے جانورکی قربانی سے منع فرمایا۔
جس پر زکواۃ فرض ہے اس پر قربانی بھی واجب ہے ۔یعنی جس کے پاس حاجت اصلیہ
رہنے کامکان سامان خانہ داری پہننے کے کپڑے خادم سواری ہتھیار پیشہ کے
اسباب واوزارکے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا
اتنی مالیت کا کوئی اورسامان یا نقدی ہوتو وہ صاحب نصاب ہے اوراس پر قربانی
واجب ہے ۔ ہاں جس پر قربانی واجب نہیں اگر وہ کرنا چاہے توکرسکتاہے۔ جس پر
اس کی مالی استطاعت کے مطابق قربانی واجب نہیں اگر اس نے ارادہ کرلیا ہے
تواس پرقربانی واجب ہوجاتی ہے۔رسول کریم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا فرمان
عالی شان ہے کہ جس نے عید نماز سے پہلے قربانی کی وہ صرف گوشت ہے ( اس کو
قربانی کا ثواب نہیں ملے گا)
قربانی کرنے کا وقت عیدقربان کی نماز اداکرنے کے بعد سے تین دن اوردوراتیں
ہے۔ قربانی کے وقت قربانی ہی کریں اتنی قیمت یااتنی قیمت کا جانور صدقہ
کرنے سے واجب ادا نہ ہوگا۔ قربانی کے دن گزرگئے تواب قربانی نہیں ہوسکتی۔
اگرکوئی جانورقربانی کے لیے خرید رکھا ہے تو وہ صدقہ کرے کوئی جانور
خریداہی نہیں توایک بکری کی قیمت صدقہ کرے۔ بکری ، بھیڑ کی ایک قربانی جبکہ
گائے، بھینس اوراونٹ کی سات قربانیاں ہیں۔ اجتماعی قربانی میں کسی شریک
کاحصہ ساتویں سے کم ہوتو کسی کی بھی قربانی نہ ہوگی ۔ البتہ حصہ دارسات سے
کم ہوں اورکسی کاحصہ ساتویں سے کم نہ ہوتوقربانی جائزہے۔ حصہ داروں کی نیت
گوشت حاصل کرنے کی نہیں ثواب حاصل کرنے کی ہونی چاہیے۔ بھوکے اورپیاسے
جانورکی قربانی نہ کریں اسے ذبح کرنے سے پہلے چارہ پانی دیں۔ جانورکی نظروں
سے اوجھل ہوکر چھری تیزکرلیں۔ جانورکوبائیں پہلواس طرح لٹائیں کہ قبلہ کی
طرف اس کا منہ ہو۔ ذبح کرنے والا اپنا داہناپاؤں اس کے پہلو پر رکھ کر
قربانی کی دعا پڑھ کر تیز چھری سے جلدذبح کردے۔ اجتماعی قربانی کا گوشت
اندازے سے نہیں تول کرتقسیم کریں۔ اگر کسی کوزیادہ مل گیا تو دوسرے کے معاف
کرنے سے بھی جائزنہ ہوگا کہ یہ حق شرح ہے۔ اپنے حصہ کے گوشت کے تین حصے
کریں۔ ان میں سے ایک حصہ فقیروں ،محلہ داروں اورہمسائیوں کودیں ۔ بہتر یہی
ہے کہ اس کے گھرقربانی کاگوشت ضروردیں جس نے استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے
قربانی نہیں کی۔ ایک حصہ رشتہ داروں کودیں۔ ایک حصہ خود رکھیں۔ خود بھی
کھائیں اوربیوی بچوں کوبھی کھلائیں۔ گھروالے زیادہ ہوں توساراگوشت بھی رکھ
سکتاہے۔ اورساراگوشت اﷲ کے نام پربھی دے سکتاہے ۔ بہتریہی ہے کہ اپنے پاس
ایک تہائی گوشت رکھیں۔ میت کی طرف سے کی گئی قربانی کابھی یہی حکم ہے۔
اگرمیت کے کہنے پرقربانی کی ہے تواس صورت میں ساراگوشت صدقہ کردے نہ
خودکھاسکتاہے اورنہ غنی کوکھلاسکتاہے۔ عید قربان کی بنماز اداکرنے سے پہلے
کچھ نہ کھائیں۔ مستحب ہے کہ قربانی کرنے والا عیدکے دن سب سے پہلے قربانی
کاگوشت کھائے۔ قربانی کاگوشت کافر، یہودی، ہندو عیسائی ، قادیانی کونہ دیں۔
قربانی کیے گئے جانورکا چمڑا،جھول، رسی اورہارسب صدقہ کردیں۔ قربانی کا
جانورخریدنے یاگھرمیں پہلے سے موجود جانورکو قربانی کے لیے مختص کرنے کے
بعد اس کا دودھ اوراون بھی صدقہ کردیں۔ چمڑااپنے استعمال میں لایا جاسکتاہے
تاہم اس کو فروخت کرکے اس کی قیمت استعمال میں نہیں لاسکتے۔ موجودہ دورمیں
قربانی کی کھالیں ہتھیانے والے بہت ہیں۔ کوئی مدرسہ کے نام پرمانگتاہے
توکوئی ویلفیئرکے نام پر۔اس لیے جوقربانی کرے وہ کھال سوچ سمجھ کرحقیقی
مستحق کودے۔ ملک میں کھالیں دینے کے جتنے بھی اشتہارشائع ہوئے ہیں۔ کسی
اشتہارمیں یہ نہیں لکھا ہواہوگا کہ چرمہائے قربانی پر سب سے پہلا حق آپ کے
غریب ،نادار، یتیم، بیوہ، اورہمسائے کا ہے۔ حالانکہ صدقہ فطرکی طرح قربانی
کی کھالوں کے سب سے پہلے یہی مستحق ہیں۔ قربانی کی کھالیں دینی مدرسہ میں
بھی دے سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں امام مسجد بھی اس کے مستحق ہیں۔جن مساجد
میں تنخواہیں دی جاتی ہیں وہ اتنی کم ہیں کہ روزمرہ کی ضروریات بھی پوری
نہیں ہوتیں۔ اورایسی مساجدبھی ہیں جہاں امام مسجدکو کوئی تنخواہ وغیرہ نہیں
دی جاتی۔ اس لیے قربانی کی کھال امام مسجدکودیں یہ سب سے بہتر ہے۔ مگر یہ
کھال تنخواہ یا اجرت میں نہیں بلکہ مستحق اورغریب سمجھ کردیں۔جس امام
مسجدکی تنخواہ ۶ ہزارسے کم ہواس کو یہ کھال دی جاسکتی ہے۔ قربانی کا گوشت
اور چمڑا ذبح کرنے والے کواجرت میں نہیں دے سکتے۔ ویسے اﷲ کے نام پردے سکتے
ہیں۔ذبح کرنے کی مزدوری اسے الگ سے دیں۔ قربانی پالتو حلال جانورکی ہوتی
ہے۔ وحشی اورجنگلی جانور، پرندے اورمرغی کی قربانی نہیں کی جاسکتی۔ قربانی
کرتے وقت بکری، بھیڑ کی عمرایک سال بھینس دوسال اوراونٹ کی پانچ سال ہونی
چاہیے۔ بھیڑ کا ایک سال سے کم عمرکا ایسا بچہ جودورسے ایک سال کا لگتا ہواس
کی قربانی کی جاسکتی ہے۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ والہ وسلم امت کی طرف سے
قربانی کیا کرتے تھے۔ اب صاحب استطاعت امتیوں کو بھی چاہیے کہ وہ بھی
سرکاردوجہاں صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی طرف سے قربانی کیا کریں۔ کئی مسلمان
ایسا کرتے بھی ہیں۔
مولوی پوپلزئی پہلے رمضان المبارک اورعیدالفطر کے چاند کومتنازعہ بناتا تھا
۔ اب اس نے عید قربان کے چاند کوبھی متنازعہ بنادیا ہے۔اس نے عیدالفطرکے
بعد عیدالاضحی کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ ۲۴ ستمبربروزبدھ کو پاکستان
میں ذی قعد کی ۲۸تاریخ تھی۔اس دن پاکستان میں چاندنظرآنے کا کوئی امکان
نہیں تھا۔ اسی دن اس مولوی پوپلزئی نے پانچ اکتوبربروزاتوارکوعیدمنانے کا
اعلان کردیا۔۲۵ ستمبرکو ۲۹ ذی قعدتھی۔ اس دن چاند ملک بھرمیں کہیں نظرنہیں
آیا۔پاکستان میں یکم ذی الحجہ ستائیس ستمبربروزہفتہ کو ہوئی۔ سعودی عرب میں
عید چاراکتوبربروزہفتہ کو ہے۔ جبکہ پاکستان میں ۶ اکتوبربروزسوموارکو ہے۔
اورمولوی شہاب الدین پوپلزئی پانچ اکتوبربروزاتوارکومنارہاہے۔اب مولوی شہاب
الدین پوپلزئی نہ توعیدسعودی عرب کے ساتھ منارہاہے اورنہ ہی پاکستان کے
ساتھ۔آئی ڈی پیزسعودی عرب کے ساتھ چاراکتوبرکوعید منارہے ہیں۔ مولوی
پوپلزئی نے رمضان المبارک، عیدالفطرکے بعداب عیدقربان پربھی قوم کوتقسیم
کرنے کی کوشش کی ہے۔اس سے پہلے بھی مولوی پوپلزئی اس دن چاندنظرآنے کا
اعلان کرچکے ہیں جس دن اس کے نظرآنے کاکوئی امکان نہیں تھا۔ ۲۰۱۲ء میں سترہ
اگست کوسعودی عرب سمیت دنیاکے کسی کونے میں شوال المکرم کاچاندنظرنہیں
آیا۔اسی شب وزیرستان کے مکینوں نے ماہ شوال کاچانددیکھ کر ۱۸اگست
کوعیدمناڈالی۔ سعودی عرب کے ساتھ روزہ رکھنے اورعیدمنانے کے مطالبات کوعرصہ
درازسے جاری ہیں تاہم وزیرستان کے مکینوں نے سعودی عرب سے بھی ایک دن پہلے
عیدمناکرنیاریکارڈ قائم کردیا ۔اب مولوی پوپلزئی نے بھی نیاریکارڈقائم
کردیا ہے کہ وہ نہ توعیدسعودی عرب کے ساتھ منارہا ہے اورنہ ہی پاکستان کے
ساتھ۔ یہ تفرقہ بازی نہیں تواورکیا ہے۔کئی سالوں سے یہ قوم کوتقسیم
کرتاآرہا ہے۔ حیرت کی بات تویہ ہے کہ اس کے خلاف کسی بھی حکومت نے کارروائی
نہیں کی۔ تفرقہ بازی روکنے کے لیے ایک طرف لاؤڈ سپیکرکے استعمال پرپابندی
ہے۔ نعت شریف اوردرودوسلام بھی نہیں پڑھا جاسکتا۔ دوسری طرف عید کے مبارک
دنوں میں قوم کوتقسیم کرکے تفرقہ پھیلانے والوں کو حکومتوں نے کھلی چھٹی دے
رکھی ہے۔مرکزی رویت ہلال کمیٹی (جوزونل رویت ہلال کمیٹیوں کی معاونت سے
چاندنظرآنے یا نہ آنے کااعلان کرتی ہے) کی موجودگی میں اس مولوی کوکس نے
اختیاردیا ہے کہ وہ چاندنظرآنے اورعیدمنانے کا اعلان کرے۔ اس مولوی کے خلاف
توکوئی کارروائی نہیں کرتا۔ روزنامہ پاکستان نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ
(چاندنظرآنے کا) فیصلہ بہرحال تمام مسالک کے اکابرین پرمشتمل مرکزی رویت
ہلال کمیٹی نے کرنا ہوتاہے۔ اس لیے اس فیصلے کومان لینا کئی تنازعات سے بچا
سکتا ہے۔ اب تو یہی تجویزکرنے کوجی چاہتا ہے کہ سرکاری رویت ہلال کمیٹی
کوقانونی شکل دے دی جائے۔ اورقانون بناکرفیصلے کی مخالفت کرنے والوں کے لیے
سزامقررکردی جائے۔ اﷲ سے دعاہے کہ وہ مسلمانوں کو تفرقہ سے بچائے۔پاکستان
کے عوام بھی اس مشورہ کی تائیدکرتے ہیں۔اورحکومت پاکستان سے مطالبہ کرتے
ہیں کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلوں کونہ ماننے والوں اوراوررمضان
المبارک اورعیدین پرقوم کوتقسیم کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
آخرمیں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ چاندکبھی متنازعہ نہیں ہوتا۔کہ وہ
پشاورمیں تونظرآجائے اورکسی جگہ دکھائی نہ دے۔ اوریہ بھی نہیں ہوسکتا کہ وہ
پاکستان میں پہلے نظرآئے اورسعودی عرب میں بعد میں۔ اﷲ پاک نے چاندکی
منزلیں طے کردی ہیں۔ اسلامی مہینہ ۲۹ یا تیس دن کاہوتاہے ۔ یہ ۲۸ اور۳۱دن
کا نہیں ہوسکتا۔ اس لیے چاندکو متنازعہ کہنا اس پر جھوٹاالزام ہے۔ چاند
متنازعہ نہیں ہوتا بلکہ کچھ افرادکی سوچ متنازعہ ہوتی ہے۔ ان کے خیال
اوروہم وگمان متنازعہ ہوتے ہیں۔ ان کے سوچنے، سمجھنے ، بولنے اورفیصلہ کرنے
کی صلاحیت متنازعہ ہوتی ہے۔ آئندہ چاندکو متنازعہ نہ کہاجائے۔ |
|