امریکہ بھارت گٹھ جوڑ اور پاکستانی میڈیا کی بے حسی !!!!

ہم اور ہماری قوم کتنی بے حس ہے اسکا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں …… ہم اور ہمارے نوجوان ،صحافی ،دانشور اور اینکرز ٹی طی ٹاک شوز ،فیس بک، اور دیگر کاموں میں تو وقت ضائع کرنے پر ہمہ وقت تیار ہوتے ہیں۔لیکن ملک کی قومی سلامتی اور انتہائی اہم نوعیت کے مسائل پر بات کرنے ،لکھنے اور پاکستانی قوم کو لاحق خطرات سے آگاہی دینے کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔اقوام عالم کی تاریخ بھری پڑی ہے ان قوموں کی تباہی و بربادی کی داستانوں سے جنہوں نے اہم ملکی اور عالمی سطح کے انتہائی اہم معاملات میں بے حسی اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔اور اپنے غیر ذمہ دار قوم ہونے کا ثبوت دیا۔اب تک کی اپنی تاریخ پر نظر ڈالنے سے ہمارے غیر ذمہ دار ، لاپرواہ اور بے حس ہونے کا کافی مواد دستیاب ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر ہمارے بے حس ہونے کا اور کیا ثبوت چاہئیے کہ ہم نے اپنا آدھا ملک کھو دیا ہے مگر ندامت سے ہمارا سر جھکنے کی بجائے ہماری گردن میں مذید اکڑا پن آگیا ہے۔

پچھلے دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے حکمران شریک ہوئے، ہمارے وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے ذریعہ وہ داغ دھونے کی بھرپور کوشش کی جو ان کے دامن پر بھارت دوستی کے حوالے سے لگا دیا گیا ہے۔ گو اس دورہ امریکہ میں امریکی حکام کی جانب سے ہمیں کوئی زیادہ لفٹ نہیں کرائی گئی لیکن دیگر سربراہان مملکت اور حکومت سے دورس نتائج کی حامل ملاقاتیں ہوگئیں۔جو آگے چل کر ہمارے قومی مفادات کے لیے سودمند ثابت ہوں گی۔

امریکہ میں قیام کے دوران بھارتی وزیر اعظم کے لیے امریکی حکام اور وائٹ ہاؤس غیر معمولی طور پر سرگرم عمل دکھائی دیا، نریندر مودی کو امریکی صدر باراک حسین اوبامہ نے شرف ملاقات ہی نہیں بخشا بلکہ اس نے بھارتیی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملکر واشنگٹن پوسٹ کے لیے مشترکہ آرٹیکل تحریر کیا ،جو گذشتہ دنوں شائع ہوا،جو پاکستان اور خطے کے لیے چونکا دینے والی باتوں سے لبریز ہے ۔ اوبامہ اور نریندر مودی کا یہ مشترکہ آرٹیکل ہمارے لیے ایک بڑے صدمے سے کم نہیں، اس آرٹیکل کے ذریعہ ہمارے سامنے وہ باتیں آئی ہیں جو امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعطم اس آرٹیکل کی اشاعت سے قبل بھی میڈیا کے سامنے دہرا چکے تھے…… فکر اور پریشان کر دینے والی باتیں تو وہ ہیں جو ان دونوں راہنماوں کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ہوئیں ۔

لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمارے کسی اردو اخبار اور ٹی چینل نے اس خوفناک آرٹیکل پر اپنے قلم اور زبان کو جنبش دینے کی جرآت نہیں کی،ماسوائے ڈان کے انور اقبال کے کسی انگریزی اخبار نے بھی اس پر لکھنے کے لیے قلم اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔گفتار اور الفاظ کے ان بیوپاریوں اورغازیوں کو شائد اس آرٹیکل کے پس پردہ چھپے امریکی اور بھارتی عزائم کا ادراک نہیں ، ورنہ ہمارے اردو انگریزی اخبارات میں اس قدر بقول حبیب جالب ’’ ہوکا عالم ‘‘ نہ ہوتا ۔ بقول استاد محترم محمود شام ’’امریکہ بھارت دوستی کا سفر ہمارے لیے روس امریکہ کی سرد جنگ کے زمانے میں روس بھارت تعاون سے زیادہ خطرناک ہوجائیگا‘‘ میرا دل بھی جناب محمودشام کی طرح کڑھتا جا رہا ہے کہ ہمارے لوگ فیس بک پر تو گھنٹوں بے تکی باتوں پر تبصرے کرتے ہیں لیکن قومی اہمیت کے موضوع پر پراسرار خاموشی بڑی معنی خیز ہے۔۔کم از کم وزیر اعظم کے دوست اور ایڈوائزر جناب عرفان صدیقی ،وزیر اعظم کے انتہائی قریبی سابق سفیر اور کالم نگار جناب عطا اﷲ قاسمی،پاکستان ریلوے کی خون پسینے کی کمائی سے اپنے گھر کا کچن چلانے والے جناب رؤف طاہر جیسے درجنوں صحافیوں کی ذمہ دار بنتی تھی کہ وہ اوبامہ ،نریندر مودی کے مشترکہ آرٹیکل پر طبع آزمائی کرتے اور پاکستانی قوم کو ان خطرات سے آگاہ کرتے جو اس مشترکہ آرٹیکل کے پس پردہ مقصود و مطلوب ہیں۔مجھے پورا یقین ہے کہ ان احباب کی نظروں سے مذکورہ آرٹیکل نہیں گذرا ورنہ یہ دوست خاموشی رہنے والے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے اندر چھپی پاکستانیت انہیں ایسے ہاتھوں پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے دیتی۔

کیا ہمارے دفتر خارجہ کو اس امر کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ وہ بھی امریکہ سمیت عالمی میڈیا پر اس امریکی بھارتی گٹھ جوڑ پر زور قلم دکھاتے؟ کیا ہمارا دفتر خارجہ مفت کی روٹیاں تورنے کیے ہے؟ وزیر اعظم نواز شریف کے ہمراہ جانے والے اعزاز چودہری،سرتاج عزیز اور طارق فاطمی سمیت دیگر ماہرین امور خارجہ کے اذہان زنگ آلودہ ہو چکے ہیں یا پھر انکی آنکھوں ، زبان اوراذہان پر امریکی نوازشات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کو اس بات کا نوٹس ضرور لینا چاہیے اور اس غیر ذمہ دارانہ اور مجرمانہ خاموشی پر باز پرس کرنی ہوگی۔

میری دفتر خارجہ کے ارباب اختیار ،اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان، ینکرز پرسن ، کالم نگاروں ، تجزیہ نگاروں خصوصا وزیر اعطم کے میڈیا مینجرز کی خدمت میں عرض ہے کہ اس ملک اور قوم کے مفادات کی حفاظت کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ آپ سب اس ملک اور قوم کے خزانے سے بہت نمک کھا چکے ہیں اور ابھی کھا رہے ہیں۔ نمک حرامی کوئی اچھی بات نہیں اور نہ ہی قابل فخر چیز ہے۔اس لیے اس ملک کے کھائے ہوئے نمک کو حلال کرنا ہی آپ سب کے فرائض میں شامل ہے۔
 
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161390 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.