بس سے اترکر جیب میں ہاتھ ڈالا،
میں چونک پڑا، جیب کٹ چکی تھی۔ جیب میں تھا بھی کیا؟کل نو ئےروپے اور ایک
خط جو میں نے ماں کو لکھا تھا اور اُسے اطلاع کی تھی کہ "میری نوکری چھوٹ
گئی ہے، ابھی پیسے نہیں بھیج پاونگا"۔ تین دنوں سے وہ پوسٹ کارڈ جیب میں
پڑا تھا، پوسٹ کرنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی۔ نوئےروپے جاچکے تھے، ویسے بھی
نوئے روپے کوئی بڑی رقم نہیں تھی۔۔۔۔ لیکن جسکی نوکری چھوٹ گئی ہواُس کےلیے
نوئے روپے بھی نوسو روپے سے کم نہیں۔ کچھ دن گذرئے ۔۔۔ ماں کا خط ملا،
پڑھنے سے پہلے میں سہم گیا، ضرور پیسوں کا تقاضہ کیا ہوگا۔ لیکن خط پڑھا تو
حیران رہ گیا! ماں نے لکھا تھا: "بیٹا! تمارئے بھیجے ہوئے ایک ہزار روپے کا
منی آرڈر مل گیا۔ تو کتنا اچھا ہے رے، پیسے بھیجنے میں ذرا دیر نہیں
کرتا"۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی چیرپرسن بینظیربھٹوجب 1988ء میں پہلی مرتبہ
وزیراعظم بنیں تو وہ آصف علی زرداری سے شادی کرچکی تھیں اور نواز شریف جو
اب مسلم لیگ ن کے سربراہ ہیں جنرل ضیاء الحق کے سیاسی بیٹے بن چکے تھے، یہ
وہ زمانہ تھا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے حامی اور ضیاءالحق کے حامی ایک
دوسرئے کے بدترین مخالف تھے۔ بھٹو اور ضیاء دونوں اس دنیا سے جاچکے تھے
لیکن نفرتیں عروج پر تھیں۔ 12 اکتوبر1999 سے پہلے دونوں سیاسی جماعتیں دو
دو مرتبہ اقتدار میں رہیں، دونوں ایک دوسرئے کی مخالفت میں رہیں لیکن اپنے
اپنے دور میں لوٹ مار کرنے میں ایک جیسے ہی تھے۔ آصف علی زرداری کو مسڑ ٹین
پرسینٹ کا خطاب ملا تو نواز شریف لوہا چور کہلائے۔ دولت دونوں خاندانوں کی
بڑھی، زرداری اور بینظیرشاہی جوڑئے کے خطاب سے بھی نوازئے گے اور سرئے محل
اور دبئی کے محل کے مالک بنے جبکہ نواز شریف کے کاروبار سعودی عرب اور
انگلینڈ تک جاپہنچے۔پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضہ کرلینے سے پاکستان میں
کرپشن ختم تو نہیں ہوا لیکن کچھ کم ضرور ہوا۔ 2006ء تک جنرل پرویز مشرف کی
اقتدار پر گرفت مضبوط تھی، بھٹو خاندان یا شریف خاندان کا سیاست میں
اثرروسوق کم تھا، مشرف نے ایک آئینی ترمیم کے زریعے کسی کے بھی تیسری مرتبہ
وزیراعظم بننے پر پابندی عائد کردی تھی جسکا سیدھا اثربینظیر بھٹو اورنواز
شریف پر پڑا تھا۔ لوٹ مار سے محروم ہونے اور اقتدار کے دروازئے بند ہونے پر
کل کے دشمن اپنے اپنے مفادات کو جو ایک ہی تھے اور آج بھی ایک ہی ہیں 2006ء
میں لندن میں اکھٹے ہوئے اور میثاق جمہوریت یا چارٹر آف ڈیموکریسی کے نام
سے آٹھ صفحات کا ایک معاہدہ کیا۔ میثاق جمہوریت کی ایک شق میں کہا گیا کہ
اس آئینی ترمیم کو ختم کیا جائےجس میں تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر
پابندی عائد کی گئی ہے۔ ایک اور شق میں یہ سفارش کی گئی ہے کہ سیاسی
بنیادوں پر کام کرنے والے نیب کی جگہ ایک آزادانہ احتساب کمیشن بنایا جائے
جس کے سربراہ کو وزیر اعظم قائد حزب اختلاف کے مشورے سے مقرر کرے۔ ان دونوں
شقوں کا فاہدہ نواز شریف، آصف زرداری اور اُنکی پارٹی کے لوگوں کو ہوا ہے۔
بینظیربھٹو اکتوبر 2007ء میں اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس
آئیں، اپنی جلاوطنی ختم کرنے سے پہلے بینظیربھٹو نےجنرل پرویز مشرف کیساتھ
کے ساتھ ایک معاہدہ جسکو این آر او کہا گیا کیا تھا۔ دسمبر 2007ء میں ایک
دہشت گرد حملے میں بینظیربھٹو کو ہلاک کردیا گیا۔ این آر او کے تحت جو
ثمرات بینظیربھٹو نے حاصل کرنے تھے، وہ آصف زرداری کے حصے میں آئے۔ پیپلز
پارٹی نے فروری 2008ءکے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور اُس عوامی
ہمدردی کا فائدہ اٹھایا جو دہشت گردی کی سفاکانہ واردات میں بینظیر بھٹو کی
موت سے پیدا ہوئی تھی، ستمبر 2008ء میں آصف زرداری پاکستان کے صدر بن گے۔
نواز شریف کے پانچ سال تک فرینڈلی اپوزیشن کے کردار کی وجہ سے پیپلز پارٹی
جسکو اب زرداری پارٹی کہا جائے تو بہتر ہوگا اپنی حکومت کی پانچ سالہ آئینی
مدت کو پورا کیا۔ لیکن اس پانچ سال میں پیپلز پارٹی نے پاکستان کو کرپشن کے
زریعے جس معاشی تباہی و بربادی کی دلدل میں پھینکا ہے اس کا ازالہ کرنے
کےلیے کسی ایماندار قیادت کو برسوں درکار ہونگے۔
اگر پیپلز پارٹی کے گذشتہ دور حکومت کی بدعنوانیوں پر لکھا جائے تو شاید اس
کےلیے دو چار کتابیں بھی کم پڑجایں۔ آج کےقائد حزب اختلاف خورشید شاہ جو
پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر بھی رہے ہیں، کسی زمانے میں بجلی کی ایک کمپنی
میں میٹر ریڈر تھے جو اب ارب پتی ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جب
جیل میں تھے تو انہوں نے گھڑی فروخت کرکے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کی تھیں
مگر پیپلز پارٹی کے دور میں وہ اور اُنکے بچے کروڑوں پونڈز کی شاپنگ دنیا
کے مہنگے ترین سٹور ہیرڈز سے کرتے تھے اور ایک ایک رات میں مبینہ طور پر
کہا جاتا ہے کہ لاکھوں روپے کسینو میں خرچ کر دیتے تھے۔ امین فہیم جو ٹیکس
تو چھوڑیں بجلی کا بل بھی نہیں دیتے جب وہ وزیر تھے تو اُنکو کو پتہ ہی
نہیں چلا کہ اُنکے اکاونٹس میں 10 کروڑ روپے کیسے آگئے یا اُنکی بیٹی کیسے
بغیر سی ایس ایس کئے برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے میں سکینڈ سیکرٹری کے
عہدے پر فائز ہو گئیں۔ پیپلزپارٹی کے ایک اورسابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف
نے اپنے 18 ویں گریڈ میں انکم ٹیکس میں تعینات داماد کو پہلے ای او بی میں
20ویں گریڈ میں پوسٹ کیا پھر 21ویں گریڈ میں اپنے پاس وزیراعظم سیکرٹریٹ
میں جائنٹ سیکرٹری بنا دیا۔یہ جن لوگوں کا ذکر اوپر کیا ہے جب اُنکی کرپشن
کا یہ حال ہے تو سوچیں اُنکے گروُ آصف علی زرداری نے کیا کچھ نہیں کیا
ہوگا۔
بینظیر و زرداری کے مانند شریف خاندان نے بھی بیرون ممالک (آف شور) کمپنیاں
کھولیں۔ انہی بیرونی کمپنیوں کی مدد سے شریف خاندان نے پھر پارک لین، لندن
میں چار عالی شان فلیٹ خریدے جو مختلف ادوار میں ان کے زیرِاستعمال رہے۔
نوازشریف حکومت کے دونوں ادوار میں کرپٹ پاکستانی امرا وسیع پیمانے پر
بینکوں سے قرضے لیتے رہے۔ دوسری طرف ٹیکسوں کی رقم چوری کرنا ان کا وطیرہ
رہا۔ تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد نواز شریف ابھی اقتدار کے نشے میں
پوری طرح مدہوش نہیں ہوئے تھے کہ عمران خان نے دھاندلی دھاندلی کا شور
مچانا شروع کردیا۔ شروع شروع میں عمران خان کے اس شور پر کسی نے دھیان نہیں
دیا لیکن جب 14 اگست کو علامہ طاہرالقادری اور عمران خان نے اسلام آباد پر
چڑھائی کردی تو نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ پیپلز پارٹی، اے این پی، جمیت
علمائے اسلام ف اور باقی پارلیمینٹ میں موجود لٹیروں کو اپنے مفادات ختم
ہوتے نظر آئے تو یہ سب ایک ہوگے، یہ جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں تو پہلا
سوال تویہ پیدا ہوتا کہ کیا یہ سب واقعی جمہوری طریقے سے پارلیمینٹ میں
پہنچے ہیں یا یہ سب دھاندلی کا شاہکار ہیں۔چلیں مان لیتے ہیں کہ عمران خان
اور علامہ طاہرالقادری کے دھرنے غلط ہیں لیکن کیا آپ یہ بھی کہنے کو تیار
ہیں کہ گذشتہ دو ماہ میں عمران خان اور علامہ طاہرالقادری نے آصف زرداری
اور نواز شریف کے کرپشن پر سے جو پردئے اٹھائے ہیں وہ بھی غلط ہیں۔ ابھی
آصف زرداری اور اُنکے بیٹے نے کھل کر موروثی سیاست کو اپنا حق کہا ہے کل یہ
شریف خاندان بھی جو اس وقت بھی موروثی سیاست کےزریعے ہی حکومت کررہا ہے
موروثی سیاست کو اپنا حق کہےگا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں کہ پاکستان بنانے
میں بھٹو خاندان ، زرداری خاندان یا پھر شریف خاندان کا کوئی کردار نہیں،
پاکستان بننے کے بعد بھی کافی عرصے تک عام لوگ اُن کو نہیں جانتے تھے۔
پاکستان تو ہر پاکستانی کی دھرتی ماں ہے، لیکن ہمارئے سیاست دان اس ہی ماں
کو برباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
میں کافی دنوں تک اس ادھیڑ بُن میں رہا کہ آخر ماں کوپیسے کس نے بھیجے؟کچھ
دن بعد ایک اور خط ملا ، آڑی ترچھی لکھاوٹ، بڑی مشکل سے پڑھ سکا: "بھائی
نوئے روپے تمارئے اور نو سو دس روپے اپنے ملاکر میں نے تماری ماں کو منی
آرڈر بھیج دیا ہے۔ فکر نہ کرنا، ماں تو سب کی ایک جیسی ہی ہوتی ہے نا! وہ
کیوں بھوکی رہے؟۔۔۔۔ تمھارا جیب کترا"۔ |