طاہرالقادری کی امامت میں عید کی نماز ؟

بارہا تذکرہ کرچکا ہوں کہ طاہرالقادری اور نہ اسکی تحریک سے کچھ مجھے کوئی تعلق واسطہ ہے لیکن جب بونے لیڈروں اور انکے مزارعے سیاستدانوں کو طاہرالقاری پر بھونکتے دیکھتا ہوں تو مجھے دکھ کے ساتھ افسوس بھی ہوتا ہے اور میں سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ طاہرالقادری کچھ تو اچھا کررہا ہے جو جگاڑی لیڈر ، مزارعے سیاستدان ، نیم دانشور ، نیم خواندہ ٹی وی اینکر ، تمام ملکر اسکی مخالفت کررہے ہیں ، اور اب تو قادری کے خلاف کچی روٹی پکی روٹی پڑھے سیاسی ملاں بھی فتوی فروشی کے لئیے میدان میں آگئے ہیں - ان میں قابل صد تحسین حنیف جالندھری صاحب اور طاہر اشرفی صاحب قابل ذکر ہیں ، دونوں فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی امامت میں نماز نہیں ہوئی کیونکہ وہ رکوع وسجود سے معذور تھے اور معذور کی امامت میں نماز جائز نہیں۔ یہ فتوی اگر کوئی قابل مفتی دیتا تو میں اعتراض نہ کرتا مگر فتوی وہ دے رہے ہیں جنکا شیوہ ہے حکومتوں سے سیاسی رشوت کے طور پر عہدے لینا۔ اب انکو تکلیف قادری کی امامت پر نہیں عمرآن خان کے مقتدی بننے پر ہے ۔ یہ وہ ملاں ہیں جنکی زبانیں طالبان کے خلاف گنگ تھیں اور روز ہمیں آپریشن کرنے کے نقصانات گنوایا کرتے تھے ۔ جہاں فتوؤں کی اشد ضرورت تھی وہاں انکے قلم خاموش تھے اور جہاں ضرورت نہیں ہوتی وہاں یہ سیاسی آقاؤں کی خوشی کی خاطر دھڑا دھڑ فتوے دیتے ہیں ۔ انکے فتوے کا ہلکا سا آپریشن کرکے بتاتا ہوں کہ معذور کی امامت جائز ہے یا نہیں ۔

معذور کی امامت میں عید کی نماز پڑھنا یا نابینا حافظ امامت کروا سکتا ہے؟ سوال پوچھنے والے کا نام: حمزہ رسول مقام: سیالکوٹ۔ السلام علیکم میرا سوال یہ ہے کہ کیا نابینا حافظ مسجد کی امامت کروا سکتا ہے، نماز اور جمعہ وغیرہ پڑھا سکتا ہے؟
جواب ۔ بالکل نابینا حافظ اگر پڑھا لکھا ہے اور طہارت وصفائی وغیرہ صحیح طور پر کر سکتا ہے تو امامت وخطابت کروا سکتا ہے، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ ( مفتی: عبدالقیوم ہزاروی )۔

سیاسی مولویوں کا مطالعہ کوئی زیادہ نہیں ہوتا ، اس لئیے امامت کے سلسلہ میں ایک حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم نقل کرکے آگے بڑھتا ہوں ، "حضرت ابی مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا سب سے اچھا قرآن پڑھنے والا امامت کرے اگر قرات میں سب برابر ہوں تو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زیادہ جاننے والا امامت کرے، اگر اس میں بھی سب برابر ہوں تو سب سے پہلے ہجرت کرنے والا امامت کرے، اگر اس میں بھی برابر ہوں تو سب سے پہلے مسلمان ہونے والا، ایک روایت میں ہے سب سے زیادہ عمر والا۔
کیا معذور آدمی امامت کروا سکتا ہے ؟ یَجُوْزُ لٰکِنَّ الْاَوْلٰی وَالْاَفْضَلَ اَنْ یَؤُمَّ غَیْرُہُ ’’جائز ہے لیکن بہتر اور افضل یہ ہے کہ کوئی اور جماعت کروائے‘‘

جذامی آدمی کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟ جذامی نماز میں شامل ہو سکتا ہے اور اس کو مسجد میں آنے سے روکا جا سکتا ہے یا نہیں؟
جذام جسمانی بیماری ہے۔ شرعی عیب نہیں اس لیے اس کی امامت بھی صحیح ہے جماعت میں شرکت کر سکتا ہے۔ جبراً مسجد میں نہیں نکالا جائے گا۔ ہاں اگر کسی شخص کو اس سے طبعی نفرت ہو! تو بحکم:((فر من المجذوم فرارک من الاسد))
’’مجذوم سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘ ساتھ ملانے سے پرہیز کرے تو گناہ نہیں۔ (۱۵/۸ رمضان ۳۵ھ، فتاویٰ ثنائیہ جلد ۱ ص ۲۶۵)
فتاویٰ علمائے حدیث کتاب الصلاۃجلد 1 ص ١٩٧
کیا فرماتے ہیں علماء دین و حامیان شرح متین در بارہ مسئلہ ہذا زید ایک ٹانگ سے معذور ہے بیٹھ کر نماز پڑھاتا ہے تمام مقتدیوں سے علم شریعت زیادہ جانتا ہے کی اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟
مام اگر کسی عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھاتا ہے تو کوئی حرج نہیں مقتدی کھڑے ہو کر نماز پڑھی مشکوٰۃ شریف میں ہے۔
عَنْ عَائشَة رضی اللہ عنہ قَالَتْ لَمَّا ثَقُلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم جَائَ بِلَالٌ بِالصَّلوٰة فِقَالَ مُرُوْا ابَا بَکْرٍ یُّصَلِّیْ بِالنَّاسِ فَصَلّٰی اَبُوْ بَکْرِ رضی اللہ عنہ تِلْك الاَیَامِ ثُمَّ اَنَّ النَّبِیَّ وَجَدَّ فِیْ نَفْسِہٖ خِفَّۃَ فَقَامَ یُھَادٰی بَیْنَ رَجْلَیْنِ وَرِجْلَاہُ تَخُطَّانِ بِالْاَرْضِ حَتّٰی دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمَّا سَمِعَ اَبُوْ بَکْرٍ رضی اللہ عنہ حَسَّہٗ ذَھَبَ یَتَاخَّرُ فَاَوْمٰی اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ لَّا یَتَاخَّرُ فَجَائَ حَتّٰی جَلَسَ عَنْ یَسَارِ اَبِیْ بَکْرٍ یُصَلِّیْ قَائِمًا وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ یُصَلِّی قَاعِدًا یَقْتَدِیْ اَبُوْ بَکْرٍ بِصَلوٰٰۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَالنَّاسِ یَقْتَدُوْنَ بِصَلٰوةِ اَبِیْ بَکْرٍ (الحدیث بَابُ مَا عَلَی الْمَامُومِ ص۱۰۲)
’’بلال رضی اللہ عنہ نماز کے لیے آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو بکر کو کہہ دیں کہ وہ نماز پڑھائیں چنانچہ بیماری کے ایام میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب افاقہ محسوس کیا تو دو آدمیوں کے سہارے سے پائوں گھسیٹتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب آپ کے آنے کی آہٹ سنی تو پیچھے ہٹنے لگے تو آپ نے پیچھے نہ ہٹنے کا اشارہ فرمایا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا رہے تھے اور آپ ا بو بکر رضی اللہ عنہ کے بائیں طرف بیٹھ گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر رہے تھے۔‘‘
بخاری ومسلم کی ایک روایت میں ہے :
«یُسْمِع اَ بُوْ بکر النَّاسَ التکبیر»
’’یعنی ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو تکبیر سنا رہے تھے۔‘‘ (حررہ محمد صدیق سرگودھا، تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۲۱ شمارہ نمبر ۱۷) فتاویٰ علمائے حدیث
ہمارے ہاں ایک دن امام صاحب کو دوران جماعت شدید دردہوا اوروہ بیٹھ گئےاور اسی حالت میں جماعت مکمل کی،سلام کے بعد نماز ی حضرات میں اختلاف ہوا کچھ کہنے لگے کہ ہمیں بھی بیٹھ کر نمازادا کرنی تھی جبکہ دوسرے حضرات کہنے لگے کہ ہمیں بیٹھنے کی کیا ضروری تھی؟ا س سلسلہ میں وضاحت فرمائیں۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب امام کسی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی کو بیٹھ کر نماز پڑھنا چاہیے یا انہیں کھڑا رہنا چاہیے، اس کےمتعلق دونوں روایات ہیں ،چنانچہ رسول اللہﷺ پانچ ہجری میں گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے تو آپ نے اپنے گھر میں نمازپڑھائی اور فرمایا:‘‘جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز اد ا کرو۔’’ (صحیح بخاری،حدیث نمبر:۶۸۸)

لیکن دوسری روایات سےمعلوم ہوتا ہے کہ مرض وفات میں رسول اللہﷺ نے بیٹھ کر نما ز پڑھائی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپ کے پیچھے کھڑے ہوکر نمازپڑھائی اور لوگ بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اقتدا میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہےتھے۔ (صحیح بخاری،الاذان:۶۸۳)

امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں حضرت حمیدی کے حوالہ سے بایں الفاظ فیصلہ کیا ہے:‘‘جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی اس کے پیچھے نماز بیٹھ کر ادا کرو،یہ واقعہ مرض قدیم میں پیش آیاتھا۔’’اس کے بعد رسول اللہﷺ نے مرض وفات میں بیٹھ کر نماز ادا کی جبکہ لوگ آپ کےپیچھے کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہےتھے۔،آپ نے انہیں بیٹھنے کا حکم نہیں دیا،اس لئے رسول اللہﷺ کے آخری فعل کو عمل میں لاناچاہیے۔ (صحیح بخاری،۶۸۹)
اس لئے صورت مسئولہ میں اگر امام دوران نماز کسی وجہ سے بیٹھ گیا تو مقتدی حضرات کو بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ کھڑے ہو کرہی نمازادا کریں۔اگرچہ قیس بن فہد انصاریؓ فرماتے ہیں کہ عہد رسالت میں ان کاامام بیمارہوگیا تو وہ بیٹھ کرسار ی امامت کراتاتھا ،ہم بھی بیٹھ کر نمازپڑھتے تھے۔ (مصنف عبدالرزاق،ص:۴۶۲،ج۲)
تاہم رسول اللہﷺ کا عمل ہمارے لئے نمونہ ہے اور اسی کےمطابق عمل کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم )
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص144 ۔
سیاسی ملاں صاحبان سے درخواست ہے کہ فتوی دینے سے پہلے اسکے تقاضے دیکھ لیا کریں اتنی جلدبازی اچھی نہیں ہوتی اور یہ دین آپکی خالہ جی کا صحن نہیں کہ جسے چاہا داخل کرلیا اور جسے چاہا خارج کردیا۔ تمھیں یہ کس نے اختیار دیا کہ تم بتاتے پھرو کہ کس کی نماز قبول ہوئی اور کس کی رد ہوئیں ۔ وہ مالک ارض وسمآ کا فضل ہی ہوگا جو ہمارے شکستہ سجدے ، نامکمل عبادتیں ریاکارانہ قربانیاں قبول ہوں گی ۔ ملاں جی علم پڑھو اور قوم کو بھی علم کی ترغیب دو ہمارے ہمسائے مریخ پر پہنچ گئے ہیں اور آپ ہمیں بتا رہے ہیں کہ قادری کی امامت میں عید کی نماز پڑھنے والوں کی نماز نہیں ہوئی۔ خدارا یہ الله رب العزت پر ہی رہنے دیں اور یہ فیصلے بھی میرا الله روز محشر کرے گا کہ کس کی نمازیں قبول اور کس کی رد ہیں ۔
یہ فتوی باز ملاں کوئی شرعی عیب ڈھونڈھتے پھر فتوی لگاتے تو بات سمجھ میں بھی آتی مگر نیم ملاں ہوتا ہی وہ ہے جو سوچے سمجھے بغیر جنت و جہنم کے ٹکٹ ایشو کردے۔ بچو جتنا بچ سکتے ہو نیم ملاں سے کیونکہ نیم حکیم خطرہ جان نیم ملاں خطرہ ایمان ۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186480 views System analyst, writer. .. View More