ایک پروگرام میں ٹی وی اینکر
پرسن بڑے جوش سے پاکستان کے موجودہ حالات پہ تبصرے کر رہے تھے ۔ پروگرام
میں بلائے گئے مہمان نے عرض کیا کہ یہ پاکستان ہے یہاں سب کچھ ممکن ہے ۔
ایک لمحے کیلئے مجھے بے حد حیرت ہوئی مگر پھر سوچا یہ تو پاکستان ہے ہاں
یہاں تو حقیقت میں سب کچھ ممکن ہے ۔ بجلی چوری ہو رہی ہے تو بھی کیا مسئلہ
ہے یہ پاکستان ہے لوٹ مار ہوتی ہے ، میرٹ پامال ہوتا ہے ، دھاندلی ہو تی ہے
کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ پاکستا ن ہے۔ حکمرانوں کے بیٹے قوم کی بیٹیوں
کو اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں ، قوم کے پیسوں پہ حکمران عیاشی کرتے ہیں
مگر کوئی نوٹس نہیں کوئی مقدمہ نہیں یہ پاکستان امیر لوگوں کا پاکستان ہے ۔
اس نام نہاد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صرف امیر آدمی کیلئے سب کچھ ممکن
ہے اور اگر غریب آدمی کچھ کرنے کی جرات کر تا ہے تو اس پہ ایسے ایسے مقدمے
ڈالتے ہیں کہ بیچارہ عمر گزار کر جائے گا مگر مقدموں سے باہر نہیں نکل سکے
گا۔
پاکستان میں VIPکلچر اور انڈیا میں لال بتی کلچر بلندیوں کو چھو رہا ہے ۔
غریب عوام جو اپنے ووٹوں سے ان حکمرانوں کو نمائندہ منتخب کرتی ہے تاکہ ان
کی غربت دور ہو مگر یہ نام نہاد عوامی لیڈر اقتدار میں آنے کے بعد انہیں
غریبوں کو سڑکوں سے ہٹاتی ہے تاکہ ان کے پروٹوکول میں کوئی تاخیر نہ ہو۔ اﷲ
بھلا کر ے عمران خان کا جس نے پاکستانی قوم کو بیدار کرنے کی کوشش کی ہے ۔
45دن کے دھرنے کے باوجود بے شک حکومت کا استعفیٰ نہیں آیا ، مگر اس دھرنے
سے جہاں اور بے شمار فوائد حاصل ہوئے ہیں وہاں میں دو بڑے صبر کے پھلوں کا
ذکر کرنا مناسب سمجھوں گی ایک تو یہ فائدہ ہوا کہ حکومت کا اصلی چہرہ اور
اصلی مقاصد سامنے آگئے ہیں ۔ حکومت چاہے جتنا بھی ڈ ٹھائی کا مظاہرہ کرے
مگر اب حکومت اخلاقی طور پر اپنے برے انجام کو پہنچ چکی ہے ۔ ایک بات سالم
ہے کہ اگر عمران خان کا مطالبہ تسلیم نہیں بھی ہوتا پھر بھی نوا ز حکومت
زیادہ عرصہ چلنے والی نہیں ۔پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتیں فی
الحال جمہوریت کو بچانے کیلئے بھیڑ ، بکریوں کا کام تو کر رہی ہیں ۔۔۔مگر
وہ وقت دور نہیں جب خواجہ سعد رفیق، چوہدری نثار اور شریف برادران کے
درمیان سیاسی روائتی پھوٹ پڑ جائے گی اور حکومت پاش پاش ہو جائے گی ۔
دھرنوں کا دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ عوام جا گ چکی ہے عوام با خبر ہو گئی ہے
کہ ان کے حقوق کیا ہیں ۔حقوق تک رسائی کیلئے وہ موجودہ دھرنے میں اپنے جوش
کو کم نہیں ہونے دے رہے صرف یہی نہیں پورے پاکستان میں بچہ بچہ چیخ چیخ کر
اپنے حق کی دہائی دے رہا ہے ۔ پاکستانی عوام کو جو لوگ بدقسمت یا بے وقوف
عوام کہتے رہے ہیں وہ اپنے ہی کیے پہ اب شرمندہ ہونے لگے ہیں ۔ لوگ اب ظلم
برداشت کرنے والے نہیں بلکہ وہ تو اب ظالموں کوبھی جوتے جوتے مار مار کر
بھگانے کے جتن کر رہے ہیں ۔ دھرنے جاری ہیں ، احتجاج جاری ہیں ، مطالبے
برقرار ہیں مگر حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔۔ اس میں کوئی دو رائے
نہیں کہ عمران خان کا جذبہ پاکستانی عوام کو روایتی بادشاہت کے اندھیروں
اور ظلم سے نکال کر روشنی کی راہ ہموار کر رہا ہے ۔
اس روشنی کا ایک ثبوت 15ستمبر کو ساری دنیا نے دیکھا ، جب PIAکے 350مسافروں
کو دو گھنٹے جہاز میں انتظارکے قرب سے گزرنا پڑا ۔ صاحبو یہ انتظار کس کا
کیا جا رہا تھا یہ انتظار سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک اور ن لیگ کے
اہم رہنما ڈاکٹر رمیش کمار کیلئے جاری تھا ۔ نام نہاد VIPجمہوریت کو لونڈی
سمجھ بیٹھے ہیں اور عوام کے طاقت سے بے خبر ہوئے عیاشیوں میں روز بروز
سرگرم نظر آرہے ہیں ۔ نہیں جانتے کہ بد عنوانی ، بد نظامی اور من مانی کے
زمانے گزر چکے ہیں ۔ عمران خان نے نوجوانوں کی عزت کو للکارہ ہے اب عام
انسان بھی اپنے حق کیلئے بے تاب نظر آنے لگا ہے یہی وجہ ہے کہ جہاز میں ایک
تو گھنٹے انتظار کرنا معمول بن چکا تھا کوئی پوچھنے والا نہیں اور اگر کوئی
پوچھ بھی لے کہ دیری کس بنا ء پر ہو رہی ہے تو فنی خرابی کا لقمہ لگوا کرچپ
کروا دیا جاتا تھا مگر 15ستمبر کو بے شک انقلاب نہیں آیا مگر انقلاب اور
شخصی آزادی کی خوشبو ضرور آنے لگی جب سینکڑوں مسافر گھنٹوں انتظار کے بعد
ڈاکٹر رمیش کی تاخیر سے آمد پر نہ صرف شدید تنقید کی بلکہ شدید نعرے بازی
کر کے اخلاقیات میں رہتے ہوئے انہیں جہاز سے اپنے سامان سمیت نکل جانے پر
مجبور کر دیا ۔ تھوڑی دیر مزید انتظار کی تکلیف برداشت کرتے ہوئے مسافروں
کو رحمان ملک کی آمد کا انتظار بھی تھا جو کہ سارے واقعہ کے اصل کردار تھے
۔ میڈیا نے دونوں نام نہاد VIPsکی ویڈیو ساری دنیا میں دکھائی ۔ کیا دیکھا
کہ رحمان ملک صاحب اپنی غلطی سے بے خبر جہاز میں شان بے نیازی کے ساتھ داخل
ہونے کیلئے تشریف لا رہے تھے ۔ مگر مسافر جو جہاز کے دروازے پر غصے کی حالت
میں کھڑے تھے ۔ جناب نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے پتلی گلی سے چلنے میں ہی
عافیت سمجھی ۔ مگر مسافروں نے ان کا پیچھا کیا ۔ بے پناہ لپٹے ہوئے الفاظ
استعمال کئے گئے گویا عوام کی یہ شاندار کامیابی رہی کہ انہوں نے نام نہاد
حکمرانوں کو ان کی اصلیت دنیا بھر میں دکھا دی ۔اگرسوچا جائے تو حکمرانوں
کیلئے یہ نہایت ہی شرم کا مقام ہے کہ کس طرح مسافروں نے ان کو جہاز میں
سوار ہونے سے منع کرتے ہوئے باہر نکال مارا۔ یقینا اس کامیابی کے پیچھے
عمران خان کا فارمولا کام کر رہا ہے ۔ نیاپاکستان اور باشعور پاکستان اب
وجود میں آرہا ہے ۔ باشعور پاکستانی اب انہیں حکمرانوں کو عزت دیں گے جو
صحیح معنوں میں آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوں گے ۔
کراچی میں ہی باشعور پاکستانی اپنے شعور کو استعمال کرتے ہوئے سامنے آئے جب
سکھر میں وزیر اعلیٰ سندھ کے پروٹوکول کیلئے سڑک پر موجود گدھا گاڑی کے
مالک کو پیٹا گیا ۔ غریب انسان کو بری طرح زخمی کیا گیا ۔ شہری مشتعل ہو کر
سڑک پہ نکل آئے اور سڑک بلاک کر دی وزیراعلی سندھ کو دوسرا راستہ اختیار
کرنا پڑا ۔ پی پی پی پی سے تعلق رکھنے والے وزیراعلی سندھ کی وجہ سے غریب
مزدور کو مارا گیا کہ غریب راستے کی رکاوٹ بن گیا۔ شائد وہ بھول چکے ہیں کہ
بھٹو نے ان غریبوں کے کندھوں پر سوار ہوکر پارٹی بنائی ان غریبوں کیلئے
انھوں نے قربانیاں دیں آج اگر بھٹو کا نام زندہ ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے
کہ بھٹو نے غریبوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ مگر آنے والے حکمران غریبوں کے
پیسوں اور ووٹوں سے مقام حاصل کرنے کے بعد ان کو روندھے چلے جاتے ہیں ۔
بھٹو کی طرح آج عمران خان نوجوانوں کے اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو چکا
ہے ۔ نوجوانوں کی دھڑکن عمران خان بن چکا ہے ۔اور یہی دھڑکن اب ہر پاکستانی
کی بنتی جا رہی ہے اور حکمرانوں کا احتساب ہوتا جا رہاہ ے جس کاآغاز ان دو
واقعات سے تاریخ میں رقم کیا جائیگا۔
پاکستان کا سیاسی میدان بے پناہ گندہ ہو چکا ہے لیکن عمران خان اس گندے
سیاسی کیچڑ میں کنول کے پھول کی مانند نکل آئے ہیں جو عوام کو اپنے حقوق
حاصل کرنے کی طرف راغب کرتے چلے جا رہے ہیں اور جلد ہی نیا پاکستان ، آزاد
پاکستان اور باشعور پاکستان سامنے آئیگا۔ |