ڈنڈے سے تسبیح تک

قومی سیاست میں گلو بٹ نے کیا انٹری دی، ہمارا تو ناک میں دم ہوگیا۔ بات آپ کو بھی عجیب لگ رہی ہوگی۔ گلو بٹ نے اگر سیاست میں انٹری دی ہے تو ہمیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم بھلا کیوں پریشان نہ ہوتے؟ اِدھر گلو بٹ نے ڈنڈا سنبھالا اور اُدھر اُسے سنبھالنا دردِ سر ہوگیا۔ اُس نے جس دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گاڑیوں کے شیشے توڑے اُسے دیکھ کر میڈیا والوں کے منہ میں تو پانی بھر آیا۔ اُنہیں تو پربت بنانے کے لیے بس رائی کا دانہ درکار ہوتا ہے۔ بات میڈیا والوں کے ہاتھ میں آئی نہیں کہ بتنگڑ بنی۔

جو بات میڈیا پر آئے وہ مرزا تنقید بیگ کی نظروں سے کیسے بچ سکتی ہے؟ وہ رات دن کئی چینلز کو انتہائے انہماک سے مانیٹر کرتے رہتے ہیں۔ جب اُنہوں نے گلو بٹ کی شاندار پذیرائی دیکھی اور یہ بھی کہ اُسے راتوں رات ملک گیر، بلکہ ’’خطہ گیر‘‘ شہرت مل رہی ہے تو اُنہوں نے ہم پر طنز کے تیر برسانا شروع کردیا۔ اُن کا کہنا یہ تھا کہ قلم گِھسنے کا فائدہ کیا اگر برسوں کی مشقّت کے بعد بھی شہرت ہاتھ نہ آئے۔ اِس سے بہتر تو یہ ہے کہ اِنسان گلو بٹ بنے، ڈنڈا تھامے اور شہرت پکڑے۔ اُن کی بات سُن کر ہمارا دل تو چاہا کہ گلو بٹ کی طرح کوئی ڈنڈا دونوں ہاتھوں سے تھام کر مرزا کے سر پر دے ماریں۔ مگر پھر خیال آیا کہ مرزا کا کیا نقصان ہونا ہے، ڈنڈا جان سے جائے گا!

گزشتہ روز چینلز پر عجیب منظر دیکھا۔ لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیشی کے بعد گلو بٹ واپس جارہا تھا۔ وضع قطع ایسی کہ خوش گوار حیرت نے ہمیں جکڑ لیا۔ ہاتھ میں تسبیح، سر پر ٹوپی۔ تیس مار خاں ٹائپ کی مونچھوں میں شائستگی کا عنصر نمایاں۔ چہرے پر پائی جانے والی سختی کو نرمی میں تبدیل کرنے کی شعوری کوشش۔ ٹی وی کیمروں کی طرف دیکھ کر موصوف نے سلیوٹ نما سلام بھی کیا۔ ہم یوں بھی حیران ہوئے کہ انقلاب برپا کرنے کے لیے تگ و دَو تو کر رہے ہیں طاہرالقادری اور انقلاب برپا ہوگیا گلو بٹ کی زندگی میں۔ کہاں ڈنڈا اور کہاں تسبیح! عوام کے ہاتھوں پٹائی اور جیل میں گزارے ہوئے دنوں نے گلو بٹ کو بدل ڈالا؟

ڈنڈے کی مدد سے گاڑیوں کے اور مخالفین کے دلوں کے شیشے توڑنے والے گلو بٹ کے ہاتھ میں تسبیح دیکھ کر ہمیں بے نظیر بھٹو یاد آگئیں۔ اُن کے ہاتھ میں بھی تسبیح ہوا کرتی تھی۔ آپ سوچیں گے بے نظیر بھٹو کے معاملے میں تسبیح کا حوالہ تو درست ہے مگر ڈنڈے کے ذکر کا یہ کون سا محل ہے؟ بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو بھی، دیگر بہت سے سیاست دانوں کی طرح، کسی حد تک توہّم پرست تھیں اور کُرسی مضبوط رکھنے کے لیے کسی بھی ٹوٹکے سے پرہیز نہیں کرتی تھیں۔ وہ ایک بار تسبیح کے دانوں پر انگلیاں پھیرتی ہوئی ڈنڈا پیر کی خدمت میں بھی حاضر ہوئی تھیں۔ مشہور تھا کہ ڈنڈا پیر جسے ڈنڈا رسید کرتے تھے اُس کا بھلا ہوجاتا تھا۔ ڈنڈا پیر نے حسب معمول بے نظیر بھٹو کو بھی پیار سے ڈنڈا رسید کیا۔ اور یہ بات تو آپ بھی جانتے ہیں کہ اِس ڈنڈے کی برکت سے بے نظیر بھٹو کا بھی بھلا ہوا۔

گلو بٹ کو کسی ڈنڈا پیر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اُس کے معاملے میں خود ڈنڈے نے ڈنڈا پیر کا کردار ادا کیا ہے۔

ڈنڈا چلاکر اُس نے ایسی شہرت پائی کہ لوگ دانتوں تلے انگلیاں دابے رہ گئے۔ گلو بٹ کی انٹری نے قومی سیاست کا ایک نیا پہلو متعارف کرایا۔ قوم حیران رہ گئی کہ کوئی یوں ذرا سا بھی خوفزدہ ہوئے بغیر، بھرپور دیدہ دلیری سے نقصِ امن کا باعث بن سکتا ہے اور قانون کی گرفت سے دور بھی رہ سکتا ہے!
لوگ بھی کیا سادہ ہیں، کیا کیا سوچتے ہیں۔ جو پیا کے من کو بھائے وہی تو دلھن ہوا کرتی ہے۔ گلو بٹ پولیس کے ٹاؤٹ کی حیثیت سے ماڈل ٹاؤن کے سانحے میں سیاسی دادا گیری کا انوکھا ماڈل بن کر میڈیا کے اُفق پر طلوع ہوا۔ ویسے تو خیر اب کچھ بھی ایسا نہیں جسے دیکھ کر حیران ہوا جائے مگر گلو بٹ نے تو واقعی پوری قوم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

جو کچھ گلو بٹ نے کیا اُس نے ماہرینِ لسانیات کو بھی لغت میں ایک نیا لفظ شامل کرنے کی طرف مائل کیا ہے۔ آکسفورڈ کی مشہور زمانہ لغت میں لفظ ’’گُلّو‘‘ اور اُس سے بننے والے کئی الفاظ شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ سیاسی کلچر کے ایک نئے رجحان کو باضابطہ ’’علمی‘‘ حیثیت مل جائے!

سچ یہ ہے کہ ہم گلو بٹ سے زیادہ متاثر نہیں ہوئے۔ بات حسد کی نہیں۔ ٹھیک ہے، قلم گِھس گِھس کر ہمیں برسوں، بلکہ عشروں میں وہ ’’نیک نامی‘‘ اور کوریج نہ مل سکی جو ایک ڈنڈے کے بے محابہ استعمال نے پلک جھپکتے میں گلو بٹ کے قدموں میں ڈال دی۔ عزت اور ذلت تو خدا کے ہاتھ ہے۔ مگر خیر، گلو بٹ نے ڈنڈا تھام کر نام کمایا تو اُسے اِس کی ’’توفیق‘‘ ہوئی تھی۔ اور ہم نے ڈنڈے کو چھوڑ کر قلم تھاما تو یہ ہمارا مقدر۔ اور اب کیسا حسد اور کیسی حیرت؟ بچپن سے سُنتے آئے ہیں کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ اب یوں کہہ لیجیے کہ جس کا ڈنڈا اُس کی شہرت! یہ تو ہونا ہی تھا۔ اِس طرح تو ہوتا ہے اِس طرح کے معاشروں میں!
گلو بٹ کی گُڈّی میڈیا والوں نے اِتنی اونچی اُڑائی کہ لگے ہاتھوں شہرت بٹورنے ن لیگ کی طرف سے کئی اور بٹ میدان میں آگئے۔ سیاست کے گراؤنڈ میں دیکھتے ہی دیکھتے ’’بٹ میلہ‘‘ لگ گیا۔ گلو بٹ کو دیکھ کر پومی بٹ میدان میں آئے۔ اُن کے بعد اب توفیق بٹ اور مانی بٹ کے درشن ہوئے ہیں۔

گلو بٹ سے ’’تحریک‘‘ پاکر دوسرے کئی بٹ بھی میدان میں آگئے ہیں تو کون سا تعجب کا محل ہے؟ ہمارے ہاں لوگ یہی تو کرتے ہیں۔ پہلے ڈنڈا چلاتے ہیں تاکہ دہشت اچھی طرح بیٹھ جائے۔ جب دہشت اور دھاک اچھی طرح بیٹھ جاتی ہے تو ڈنڈا ایک طرف رکھ کر تسبیح تھامی جاتی ہے تاکہ اُس کے دانوں پر ہاتھ پھیر کر کچھ روحانیت کا ٹچ بھی دیا جائے۔ سیاسی دال اُس وقت زیادہ مزا دیتی ہے جب اُس میں تقدّس کا تڑکا بھی لگا ہو۔ ہماری سیاست میں گلو بٹ والا انداز بہت پہلے سے موجود ہے۔ پہلے ڈنڈا گھماکر دھاک بٹھائیے اور پھر تسبیح کے دانوں پر انگلیاں پھیر کر دہشت کی دال میں تقدّس اور روحانیت کا تڑکا لگائیے۔ ڈنڈے اور تسبیح کے تال میل سے راہ ہموار ہو جاتی ہے، فضا بن جاتی ہے اور کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔

ہماری اجتماعی زندگی میں بٹ صاحبان کی کمی نہیں رہی۔ بٹ برادری میں باڈی بلڈنگ کا کلچر عام رہا ہے۔ اب تک جتنے بھی بٹ ہماری زندگی میں آئے ہیں وہ محض گورے ہی نہیں، تنومند بھی ہیں۔ کراچی میں جب ہم پاک کالونی میں رہا کرتے تھے تب وہاں ایک جاوید بٹ تھے جو باڈی بلڈنگ کیا کرتے تھے۔ بعد میں کرکٹر بن گئے تو باڈی بلڈنگ کی بدولت پُھول پُھول کر کُپّا ہوجانے والے بازوؤں کو چَھکّے مارنے پر مامور کردیا! ایک زمانے میں نصراﷲ بٹ سِلور اسکرین کی زینت تھے۔ باڈی بلڈر تھے اِس لیے اُنہوں نے زورِ بازو کے مظاہرے پر مبنی کئی فلموں میں کام کیا اور لاکھوں پاکستانیوں کے دِلوں میں جگہ بنائی۔ بعد میں جماعت اسلامی میں حافظ سلمان بٹ بھی زورِ بازو کی توانا علامت بن کر اُبھرے۔

خیر، وہ بہت اچھا زمانہ تھا۔ لفظ بٹ سے طاقت کا تصور وابستہ تھا، دادا گیری کا نہیں۔ گزشتہ دنوں بٹ برادری کے لوگوں نے گلو اور ن لیگ کے دیگر بٹ صاحبان کے مذموم کردار کے خلاف احتجاج کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس نوعیت کے بٹ سامنے آکر پوری براردی کو بدنام کر رہے ہیں۔ بات برحق ہے مگر نقار خانے میں طوطیوں کی آواز کون سُنتا ہے! میڈیا کو اُچھالنے کے لیے کوئی نہ کوئی اِشو چاہیے اور بٹ صاحبان، اﷲ بُری نظر سے بچائے، اِشو فراہم کرنے پر تُل گئے ہیں! میڈیا والے بٹ برادری میں اُنہیں تلاش کر رہے ہیں جو زیادہ سے زیادہ مشتعل ہوکر قوم کی آنکھوں کے تارے بن جائیں اور میڈیا کا پیٹ بھی بھریں۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے خوب کہا ہے ؂
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں!

بٹ برادری سے ابھی پتا نہیں کتنے جوانانِِ رعنا کو مطلعِ شہرت پر طلوع ہونا ہے مگر جو بات گلو میں ہے وہ شاید ہی کسی اور بٹ میں دِکھائی دے۔ ایک بار پھر بقول حالیؔ ؂
ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی، تُو مگر کہاں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524872 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More