آج میں پرانے کاغذات کے ڈبوں میں‘
ایلیٹ سے متعلق‘ اپنا ایک مضمون تلاش رہا تھا۔ وہ تو نہ ملا‘ ایک پاکٹ سائز
کی ڈائری مل گئی۔ شوپر میں‘ لپیٹ کر بڑی حفاظت سے رکھی گئی تھی۔ یہ ڈائری‘
مجھے ایک امرود فروش ریڑھی والے سے ملی تھی۔ یہ اس کے کام کی نہ تھی۔ اس
میں موجود کاغذوں پر سودا نہیں ڈالا جا سکتا تھا۔ ریڑھی والے کا‘ ردی فروش
پر گلہ حق بجانب تھا۔ اس نے میری درخواست پر‘ یہ ڈائری مجیے چند سکوں میں
عنایت کر دی۔ یہ ڈائری کچھ عرصہ میرے کاغذات میں پڑی رہی۔ اس کے بعد‘ سچی
بات ہے‘ میرے دماغ سے بھی محو ہو گئی۔ آج جب یہ ملی ہے‘ تو مجھے بہت ہی
اچھا لگا ہے۔
یہ ڈائری ایک شاعر کی ہے‘ اور ١٣٦ صفحات‘ لفظوں سے معمور ہیں۔ ص١ تا ص٧ تک‘
حرف خاص کے عنوان سے‘ انہوں نے اپنی کہانی درج کی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے‘
اپنا تعارف درج کیا ہے۔ ص ٩ پر تین شعر ہیں۔ پہلا شعر‘ حالات سے متعلق ہے‘
جب کہ باقی دو شعر‘ حمدیہ ہیں۔ ص ١٠ پر بھی تین شعر ہیں‘ جو عصری حات کا
نوحہ ہیں۔ کلام میں غزلیں‘ طرحی غزلیں‘ نعت‘ نظم‘ قطعات‘ دوہے‘ فلمی لوری‘
ڈیفینس لوری‘ وداع اور مناجات‘ اصناف شامل ہیں۔ اس میں کل سات سو سات شعر
ہیں‘ آخر میں بھی دو شعر درج ہیں‘ اس طرح سات سو نو شعر بن جاتے ہیں۔۔ ص
١٣٦ کے بعد بھی کلام درج ہے‘ جو پنجابی وغیرہ میں ہے۔ خط مختلف ہے۔ کچھ
نعتیں وغیرہ درج ہیں۔ لگتا ہے‘ یہ ڈائری کسی کے ہاتھ لگ گئی تھی۔ اس نے
ناصرف پسند کا کلام درج کیا‘ بلکہ اس پر کاروبای حساب کتاب بھی لکھا۔ احباب
کے پتے وغیرہ بھی نوٹ کیے۔ کئی جگہوں پر‘ یسین انجم نام کی مہر لگی ہوئی ہے۔
یہ دوسرے خط کا کلام ان صاحب کا ہی لگتا ہے‘ کیوں کہ ایک جگہ درج ہے: شاعری
کا شاہزادہ یسین انجم۔ اس کلام سے متعلق کسی دوسری نشت میں عرض کروں گا۔
زیر حوالہ شاعر نے‘ اپنا تعارف کچھ یوں درج کیا ہے:
نام: ریحان احمد
تاریخی نام: محمد خورشید عالم
تخلص: صفت
ولدیت: حاجی ذیشان احمد
قوم: ملک۔۔۔ ککے زئی
قد ٥ فٹ ١ انچ
تاریخ پیدائش: ٨ اپریل ١٩٣٧
جائے پیدائش: سہارن پور‘ صوبہ یو پی‘ بھارت
تعلیم: میٹرک
استاذ: ناز لکھنوی‘ ارم سلطان پوری
آمد پاکستان: ٨ مئی ١٩٥٢
حالات زندگی حرف خاص کے نام سے کچھ یوں درج کیے گیے ہیں۔
حرف خاص
میں شام کا مسافر ہوں صبح مجھ سے بہت دور ہے۔ وہ ڈھلتا ہوا سورج ہوں جو
زیادہ طلوع نہیں ہوا۔ آکاش کا سورج مجھ سے بہت مختلف ہے۔ اس نے میری کئی
نسلیں اور ان کے سورج ڈوبتے چڑھتے دیکھے ہیں۔ میں اب چراغ سحری ہوں۔ ہوا کا
ایک جھونکا میری زندگی کے چراغ کو بجھانے کے لیے کافی ہے۔
میں ایک پہر کا پھول ہوں جو ایک جھونکے سے زمین پر پتی پتی ہو کر بکھر جاتا
ہے۔ اور اسے گرا کر خود مسروری سی آگے بڑھ جاتی ہے۔ میں دنیا کے لیے ایک
عبرت اور اپنے لیے ایک عذاب ہوں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی
بھی دوسروں کو دیکھ کر عبرت حاصل نہیں کرتا۔ ہم سب آہستہ آہستہ یہی کردار
انجام دیتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ جہاں سانس لینے کی بجائے دم گھٹتا ہے اس نے مجھے بہت دکھ دیے
ہیں۔ اسی نے میری سوچوں کو اپنے لیے وقف کر لیا ہے۔ اپنا پہرا بیٹھا دیا ہے
کہ میں سوچوں زیادہ سے زیادہ سوچوں میرا مرکز معاشرہ میرا محور یہ معاشرہ
ہی ہو۔ جہاں چوری ہے ڈاکہ ہے رشوت ہے جہاں قرآن بکتے ہیں جہاں ایمانوں کے
سودے ہو جاتے ہیں۔ جہاں عصمتیں ارزاں ہیں اور ایک وقت کی روٹی بہت گراں ہے
جہاں سوہنی دھرتی کے جیالے ماں کو ماں بہن کو بہن نہیں جانتے۔ کاش کاتب
تقدیر نے میرے ساتھ یہ ظلم نہ کیا ہوتا۔ مجھے باغ بہشت سے اس صحرا کے لق و
دق چٹیل میدان میں پھینک دیا۔ کہنے کو ایک جم غفیر ہے رہنے کے لیے ایک
جھونپڑا نہیں۔ مگر اس سوہنی دھرتی پر رہنے والے اور بسنے والے ہزاروں سال
کی شناسائی ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو نہیںپہچانتے۔ معاشرہ اور اس کے باسی
مجھے دعوت فکر دیتے ہیں۔ اور میں دکھ کے ان بیتے لمحموں میں کھو جاتا ہوں۔
جب حالات نے مجھے جکڑ لیا تھا اور مجھے اپنا گھر اپنے بہن بھائی بزرگ باپ
اور اپنا وطن چھوڑنا پڑا اس دنیا میں دو بہنیں تھیں جو میرے لیے دعائیں
مانگا کرتی تھیں ان میں سے ایک کو یہ دنیا پسند نہ آئی اور واپس چلی گئی۔
اب ایک ماں جائی ہے جو ہزاروں میل دور رہ کر بھی میرے لیے دعاگو ہے۔
یہاں آ کر بڑے بڑے پاتڑ بیلے مگر وہی ڈھاک کے تین پات نتیجہ سامنے ہے نہ
رہنے کو گھر ہے نہ پہننے کے لیے کپڑے۔ ہاتھ خالی منہ سوالی اس پر ضد یہ ہے
کہ میں اس معاشرے کے لیے سوچوں۔ کیا ملے گا اکیلا چنا باجے گھنا کے مصداق
طوطی کی صدا کو کون سنے گا۔ بہن مری صبر کیا باپ الله کو پیارا ہوا تو
خاموش رہا ایک ایک کرکے سب چاہنے والے رخصت ہو گیے اور میں اس معاشرے سے
نفرت کرنے کے لیے آج بھی زندہ ہوں۔ سب کہتے ہیں اندھیروں میں روشنی کے چراغ
جلائے جاتے ہیں۔ سچ ہے مگر یہ تاریکی جو مجھ پر چھا گئی ہے یہ ان اندھیرے
غاروں کی ہے جہاں سورج کی کوئی کرن نہیں پہنچ سکتی۔ یہ ظلم اور اقدار سے
بغاوت کی تاریکی ہمارے اردگرد پھیل گئی ہے۔ یہ وحشتناک جنگلوں اور سنسان
کھنڈرات کی ماند خوفناک ہے۔ لیکن کیا کوئی رات ایسی بھی ہے جس کی کوئی سحر
نہ ہو۔ ان تاریک جنگلیوں سے پھر کوئی گوتم جنم کیوں نہیں لیتا۔ صحرا کی
گہرائیوں سے پھر کوئی سورج طلوع کیوں نہیں ہوتا۔ بات لمبی ہو چلی ہے۔ سوچ
اور فکر کی طرف آ گیا ہوں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم روشنیوں کی قدر اس وقت
کرتے ہیں جب اندھیرا پھیل چکا ہوتا ہے۔
نقل وطن کے بعد میری کوشش رہی کہ میں اپنے نصب العین کو حاصل کر لوں۔ میری
کمزوری غربت تھی۔ ایک رئیس گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود میں اقتصادی
غریب غریب تھا۔ میں غریبوں میں رہ کر ان کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ مجھے دکھی
انسانوں سے ہم دردی تھی اور آج بھی ہے مگر میرا مستقبل میرے نصب اعین کے
روپ میں نہ ملا بلکہ اور زیادہ تاریک ہو کر غبار راہ بن کر رہ گیا ہوں۔ میں
نے اپنوں کی خدمت کی ان کے جا بجا حکم پر سرنگوں کیا مگر ذلت کے سوا کچھ نہ
ملا تو میں نے غیروں کو اپنانا چاہا تو وہاں مطب پرستی نے ہر قدم پر
ٹھوکریں ماریں اور آج میں اس معاشرے سے اس پوری دنیا سے نفرت کرتا ہوں ۔
میری اس تنقید کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں ملامت کروں۔ بقول شخصے ملامت
قصوروار کو کی جاتی ہے اور معاشرہ تو مظلوم ہے ازل سے جو راہیں جس کے لیے
منتخب کر دی گئی ہیں وہ اسی راہ پر گامزن ہے یوں سمجھیے کہ
غم یہ نہیں کہ ہم کو زمانہ برا ملا
افسوس یہ ہے ایسے زمانے کو ہم ملے
یوں سمجھ لیجیے کہ کوئی پودا ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگا دیا جائے
جہاں کی زمین‘ آب و ہوا اور موسم اس کی طبعت کے خلاف ہو تو پودا پروان چڑھ
سکتا ہے۔ کچھ یہی میرے ساتھ بھی ہوا۔ ابتدائی پرورش کے دوران محبت اور خلوص
نے مجھے جھولے جھلائے ہر ضد پوری ہوئی زبان سے نکلا ہوا کوئی حرف حرف آخر
ہوتا تھا اور جب شعور پختہ ہوا جذبات و احساسات نے جنم لیا اور اپنی منزل
قائم کرنے کے عزم پیدا ہونے لگے تو آہستہ آہستہ تقدیر نے سب لوازمات چھین
لیے۔ سب سہارے ٹوٹ گیے اور بیساکھیاں کام نہ آ سکیں۔
نویں جماعت میں تھا کہ موسم کا اثر طبعیت پر ہونے لگا۔ ظلم و تشدد سے دل
کڑھنے لگا۔ ہر خوبصورت چیز اچھی لگنے لگی تو ہم گنگنانے لگے اور اسی طرح
روتے روتے گویے ہو گیے۔ اس امر سے قطعی اتفاق نہیں کہ میں شاعر ہوں یہ ایک
ایسی بات ہوگی گویا شاعری کا مذاق اڑانا۔ البتہ جو بات برجستہ اور آپ کے
منہ پر نہیں کہی جا سکتی اسے منظوم لہجے میں بزبان قلم آپ تک پہنچانے کا
ایک ذریعہ ڈھونڈ لیا۔ کچھ دن ناز لکھنوی صاحب سے درس تلمیذ اسی باب میں
لیا۔ اس کے بعد ارم سلطان پوری سے مکمل وابستگی رہی مگر ناگفتہ حالات کے
تحت پاکستان آنے کی وجہ سے ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اب جو کچھ ہے خانہ
ذاد ہےاور آپ کی نذر ہے۔
صفت سہارن پوری کی اس ذاتی تحریر سے‘ ناصرف ان کا تعارف اور ان کے حالات
زندگی سے آگاہی ہوتی ہے‘ بلکہ سماجی و سیاسی حالات سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔
یہ ان کی ذاتی ڈائری ہے‘ جو ان پر گزرا‘ کا نوحہ ہے۔ اس سے ان کا نثری
اسلوب بھی سامنے آتا ہے۔ انہوں نے مخصوص محاورات کا استعمال کیا ہے۔ مثلا
یہاں آ کر بڑے بڑے پاتڑ بیلے مگر وہی ڈھاک کے تین پات نتیجہ سامنے ہے نہ
رہنے کو گھر ہے نہ پہننے کے لیے کپڑے۔ ہاتھ خالی منہ سوالی اس پر ضد یہ ہے
کہ میں اس معاشرے کے لیے سوچوں۔
ان کا اسلوب تکلم افسانوی ہے۔ اردو زبان وادب کی یہ امانت‘ الله نے ردی
چڑھنے سے بچا لی۔ اس ڈائری کے حوالہ سے‘ ناز لکھنوی اور ارم سلطان پوری کے
نام بھی سامنے آئے۔ بعض غزلوں کے آغاز میں بھی کچھ اسماء آئے ہیں۔
محشر بریلوی لیاقت آباد‘ ١٨ جون سن موجود نہیں‘ کو پڑھی جانے والی غزل کا
مطلع یہ تھا
بدل گئے سب تقاضے دل کے نظر بھی اب وہ نظر نہیں ہے
خلوص دل میں رہا نہ باقی دعا میں اب وہ اثر نہیں ہے
احمد فاخر سکندر آباد کے ہاں پڑھی جانے والی غزل کا مطلع ملاحظہ ہو
روتے روتے ہی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
اس طرح عمر بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
موج بھرتیوری کے ہاں ٦ اگست ١٩٨١ کو پڑھی جانے والی غزل کا ایک شعر ملاحظہ
ہو
کچھ ایسے زخم بھی کھاتا ہے انسان دور ہستی میں
نگاہ ناز کا بھی کارگر مرہم نہیں ہوتا
موج صاحب کے ہاں ایک دوسرے وقت میں پڑھی جانے والی غزل کا مطلع دیکھیے
وقت خزاں ہے دل مرا قصہءگلستاں نہ پوچھ
کیسے لٹا ہے آشیاں ہائے وہ داستاں نہ پوچھ
پاکستان آتے وقت ریل گاڑی میں ہونے والا کلام ملاحظہ ہو۔۔۔۔۔۔١٩٦٦
اے سہارن پور اے میرے وطن رشک چمن
ذرہ ذرہ ہے ترا میرے لیے لعل یمن
سہارن پور بھارت میں اس طرحی مصرعے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے
قابل مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر کہی گئی غزل کا مقطع دیکھیے:
کیا بتاوں اے صفت یہ بھی عجب ہے اتفاق
ڈھنونڈتا پھرتا ہوں میں منزل کو اور منزل مجھے
٣ مارچ ١٩٧٠ یعنی چوالیس سال پہلے‘ لکھی گئی ایک غزل کا مقطع ملاحظہ ہو:
بے رخی ان کی اے صفت توبہ
جیسے مجھ پر عذاب کا عالم
صفت سہارن پوری‘ مہاجرت کے بعد‘ قصور اقامت پذیر نہیں ہوئے ہوں گے۔ یہاں
ککے زئی فیملی موجود ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے‘ کسی کام سے آئے ہوئے ہوں۔ محشر
بریلوی‘ موج بھرتیوری اور احمد فاخر‘ کراچی سے متعلق لوگ ہیں۔ وہاں مشاعرعے
پڑھنے جاتے ہوں گے۔ قصور آئے ہوں گے‘ اور یہاں یہ ڈائری بھول گیے یا گرا
گیے ہوں گے۔ اس گمشدگی کے بعد‘ ان کی قلبی کیفیت کیا رہی ہو گی‘ وہ جانتے
ہوں گے‘ یا الله جانتا ہے۔ ادپ سے غیر متعلق لوگوں کے لیے‘ یہ چیزیں ردی
ہوتی ہیں‘ اور ان سے‘ خواہ مخواہ ایک کمرہ‘ تصرف سے نکل جاتا ہے‘ تاہم بابے
کی موت کے بعد‘ کمرے زندگی کے درست مقاصد کے لیے‘ استعمال ہونے لگتا ہے۔ یہ
ہی ہوتا ہے‘ یہ ہوتا آ رہا ہے۔ یہ پرزے‘ اپنے دامن میں‘ عہد رفتہ کے حقائق
اور چشم دید شہادتیں لیے ہوتے ہیں۔ یہ بےکار پرزے‘ ہی تو ماضی کا اصل اثاثہ
ہوتے ہیں۔ سونا‘ چاندی‘ عمارتیں‘ چھنیاں کولیاں‘ بہترین لباس اور کھانے سب
مٹی ہو جاتے ہیں۔ شخص اپنے ماضی سے محبت کرتا ہے‘ لیکن ماضی کے‘ اصل سرمائے
کی حفاظت کے لیے‘ کسی قسم کا تردد نہیں کرتا۔
اس ڈائری میں‘ صفت سہارن پوری کا کلام نہ بھی ہوتا‘ تو بھی‘ حرف خاص کے
حوالہ سے‘ اس کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آج کی نسل کے پاس‘
تو محض مورکھ کا لکھا موجود ہے‘ اور وہ اس پر یقین کرنے پر مجبور ہے۔ ایک
بیس پچس سال کے جوان کو‘ کیا علم کہ تیس چالیس سال پہلے‘ یہاں کیا تھا‘ اور
معاملات کس طرح کے ہوتے تھے‘ یا معاملات کی نوعیت کیا تھی۔ ایسے میں اس قسم
کے پرزے‘ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لیے‘ میری نسل سے استدعا ہے‘ کہ وہ ان
پرزوں کو ردی میں نہ بیچیں۔ انہیں سلیقہ سے‘ کسی شاپر ڈبے یا بوری میں رکھ
دیں‘ یا کسی علمی ادبی شخص کے حوالے کر دیں۔ قومی سطح پر ادارہ بھی قائم
کیا جا سکتا ہے‘ جہاں یہ پرزے جمع کرا دیے جائیں۔ کوئی اپنے نام سے چھاپتا
ہے‘ تو چھاپ لے‘ کوئی نئی بات نہیں‘ چلو آج‘ اپنی اصل کے ساتھ‘ مستقبل کو
تو منتقل ہو جائے گا۔
١٠ اکتوبر ٢٠١٤ |