آزادی یا بربادی مارچ
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
اسوقت پاکستان کی بد امنی اس امر کا شدید تقاضا کر رہی ہے کہ قوم متحد
ہوکر چیلنجز کا مقابلہ کرے ملک کو مضبوط سے مضبوط تربنایا جائے ایسے حالات
میں اپنے ماننے والے عقیدت مندوں،کارکنوں سے تعمیری خدمات لینی چاہیں اسلام
اور ملک دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے ہر لیڈر ،ہرجماعت کے ہر
کارکن،ہر نیوٹل پاکستانی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے مگر اسوقت ملک میں
چند سیاسی لیڈرز اور ایک متنازعہ مذہبی لیڈر ملک میں سونامی اور انقلاب کے
نعرے لگا کر اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر لا کر اپنے لئے اقتدار کی راہ ہموار
کرنا چاہتا ہے جبکہ دعوی ملک سنوارنے کاہے صوبہ کے پی کے میں انکی قائم
کردہ حکومت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے لوگ انکی اس حکومت سے مطمئن
نہیں اہل بصیرت یہ سوچ رہے ہیں کہ جو جماعت ایک صوبے کی حکومت کامیابی سے
نہیں چلا سکی وہ ملک کیسے چلائے گی ؟اسکے لیڈر نے اپنے ذمہ داران کو خصوصی
خطوط بھی جاری کر دئیے ہیں جبکہ کینیڈہ کی شہریت رکھنے والا متنازعہ مذہبی
رہنماء کا فرمان جاری ہوا ہے کہ حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے تک اسلام آباد
میں رہیں گے سونامی اور انقلابی کا کہنا ہے کہ اب ڈیل نہیں ہوگی یعنی ان کے
نزدیک اگر حکومت گر جائے اور مڈٹرم الیکشن کا اعلان ہوجائے تو سب کچھ ملتوی
ہو سکتا ہے لیکن واقفان حال جانتے ہیں کہ الیکشن کے کیا اثرات قوم کو سہنے
پڑتے ہیں سب سے پہلی آفت جو الیکشن کے بعد عوام پر آتی ہے وہ مہنگائی کا
طوفان ہوتا ہے آپ گزشتہ الیکشن سے پہلے پیٹرولیم سمیت تمام اشیاء کر ریٹس
چیک کر لیں اور اب کے ریٹس سے موازنہ لر لیں الیکشن کی آفت کا آپکو بخوبی
اندازہ ہو جائے گا اسی صورتحال کا عوام کو ہر الیکشن کے بعد سامنا کرنا
پڑتا ہے کیونکہ ہر آنیولی نئی حکومت اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے مہنگائی
کرتی ہے اور اسکا بوجھ صرف عام شہریوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے اب تو قوم
نئے الیکشن نہیں بلکہ پر امن اسلامی نظام خلافت کے قیام کی پیاسی نظر آتی
ہے کیونکہ موجودہ نظام مکمل طور پر فلاپ ہو گیا ہے جمہوریت کے نام پر
مفادات کی جنگ سے اب تقریبا ہر اکستانی واقف ہو چکا ہے ہر کسی کا کسی نہ
کسی درجے میں لیڈران جمہوریت اور اس نظام سے اعتماد اٹھ گیا ہے ایسے حالات
میں ایک حکومت ختم کر کے دوسری حکومت لانے سے عوام کو کوئی سروکار نہیں
عوام تو اب اسی حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد ملک میں نیا نظام دیکھنا
چاہتے ہیں آپ کہیں گے کہ مولانا انقلابی نیا نظام لانا چاہتے ہیں انکا ساتھ
دیا جائے بھائی کون کہتا ہے کہ خودساختہ شیخ الاسلام نیا نظام لانا چاہتے
ہیں؟ یہی تو دھوکا ہے جو ہمیں ہر ایک لیڈر نے دیا اور ہم انکے دھوکے میں
آگے خودساختہ شیخ الاسلام صاحب بھی اسی ظالمانہ نظام میں ایک آدھی تبدیلی
کے بعد اسی پر اکتفا کرکے اسی کے سامنے سجدہ ریز ہیں جس نے عوام کو ذلت کے
سوا کچھ نہیں دیا ،خیر بات طویل ہوگئی الیکشن کے بعد دوسرا ظلم ہوتا ہے وہ
نتائج میں ڈرامائی من پسند تبدیلی ہے جو اس نظام کے کرتا دہرتا عالمی
اثرورسوخ استعمال کرکے کرواتے ہیں جس سے کامیاب ہونے والوں کوانکے حق سے
محروم کردیا جاتاہے یہی کھیل دنیا میں جاری وساری ہے انہی عالمی ساہوکاروں
کے اشاروں پر حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں ایسے لگتا ہے کہ عالمی ساہوکار
نواز حکومت سے تنگ آچکے ہیں یا اس سے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے اسی لئے
جمہوریت کی دیواروں کو مضبوط کرنے کے دعویدار اب اسی کو ڈی ریل کرکے فوجی
انقلاب یا انہی قوتوں کی منشا کے مطابق حکومت قائم کروانے کے لئے استعمال
ہو رہے ہیں اور پاکستان ہی نہیں دنیا بھرکو انہی لوگوں نے کھلواڑ بنا رکھا
ہے اب ان حالات میں احتجاجی قیادت کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے پروگرام سے
دستبردار ہو جائیں اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ خدا نخواستہ آزادی مارچ بربادی
بن سکتا ہے کیونکہ ملک میں دہشت گردی عام ہے اگر انکے پروگرامز میں کسی ملک
دشمن قوت نے حملہ کردیا تو جو جانی ومالی نقصان ہو گا کیا یہ لیڈران قوم اس
نقصان کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟یا اپنی غلط پالیسیوں کا نزلہ
حکومت پر گرایں گے حکومت اور ادارے تو اسوقت اپنی حفاظت کرلیں تو غنیمت ہے
عوام کی حفاظت تو اب ناممکن ہو گئی ہے اگر سونامی خان اور مولانا انقلابی
کی حکومتیں بھی آگئیں تو سیکیورٹی حالات ایسے ہی ہوں گے جیسے آج ہیں ان
احتجاجی لیڈران کو چاہیے کہ آپریشن ،آئی ڈی پیز،فلسطین کے مظلوم مسلمانوں
کے لئے اپنا کردار ادا کریں جو سرمایہ ان فضول جلسوں اور جلوسوں میں لگانا
چاہتے ہیں اسے آئی ڈی پیز اور فلسطینیوں کے لئے وقف کریں ملک میں احتجاج کے
نام پر صرف اپنے اقتدار کے لئے بد امنی پھیلانا اور ماؤں کے بچوں کو صرف
اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے لئے استعمال کرنا اور ان نوجوانوں کو
اقتدار اپنے کے لئے مروانا،ملک کا من تباہ کرنا،جس نظام کو قبول کیا ہے اس
کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہمہ تن گوش ہو جانا ملی یا دینی ،ملکی خدمت ہر گز
نہیں ہے۔ |
|