جذبہ قربانی ۔۔دنیا و آخرت میں کامرانی ۔۔!!!

عید قربان بظاہر سنتِ ابراہیمی کی یادمیں ‘ اﷲ بحانہ و تعالیٰ کے حضور‘ جانوروں کی قربانی دے کر منائی جاتی ہے مگریہ تاریخِ اسلام کا وہ درخشاں باب ہے‘ جس پر امت مسلمہ کے لیے زیست کاملہ کا کلیہ رقم ہے‘در حقیقت اس کا مقصد تخلیق آدم کے مقصد سے براہ راست جڑا ہوا ہے ‘جہاں یہ محبت الہٰی کی بے لوث یاد آوری کا دن ہے ‘وہاں یہ تجدید ہے اس بات کی کہ ہماری جان و مال کا اصل مالک وہ ہے جس نے ہمیں دنیا میں صرف اس لیے بیجھا ہے کہ ہم اپنی زیست کو اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق گزاریں اور اس حقیقت کو فراموش مت کریں کہ یہ دنیا عارضی ٹھکانہ اور مکافات عمل ہے‘ ہم اپنے عرصۂ حیات میں جو جو افعال سرانجام دیں گے ان کا حساب روز محشر دینا پڑے گا ۔اگر عمیق نظری سے ’’قربانی ‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ ایک ایسا لفظ ہے جو اپنے اندر وسیع تر مفاہیم سمیٹے ہوئے ہے ۔اور اگر اسے ایک اصطلاح کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس کائینات اور انسانوں کو فتنہ و فساد اور تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے روز اول سے یہی ایک واحد جزبہ‘ ایک لفظ ’’قربانی‘‘ چھایا ہوا ہے کہ ہم نے دوسروں کی جان و مال اور عزت پر بری نگاہ رکھنے کی بجائے قربانی کرتے ہوئے ایثار کا مظاہرہ کرنا ہے ۔اسلامی تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھ لیں ‘دین اسلام رضائے خداوندی کے لیے انمٹ اور نا قابل فراموش قربانیوں سے بھرا پڑا ہے جو کہ آج بھی روز روشن کی طرح عیاں ہیں ۔اور جیسے جیسے وقت کا پہیہ گھوم رہا ہے ان میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اسلام زندگی کے ہر معاملے میں ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے اور اس کی لازوال حقیقی مثال اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تب دکھائی جب حضرت ابراہیم ؑ خواب دیکھ کر اپنی سب سے پیاری چیز‘ اپنے لخت جگر‘ حضرت اسماعیل ؑ کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے جاتے ہیں تو جنت سے دنبہ ذبح کرنے کے لیے پیش کر دیاجاتا ہے ۔اسی لیے مسلمان ہر سال عید قرباں مناتے ہیں ‘اورجن کے پاس استطاعت ہوتی ہے وہ خانہ کعبہ کا طواف کر کے حج بھی ادا کرتے ہیں ‘ جس میں دنیا کے ہر خطے سے تمام مسلمان اپنا قومی لباس اتار کر یک رنگ سفید لباس(احرام ) پہن کر اپنی قوم ،رنگ ونسل اور ذات پات سب کچھ بھلا ایک میدان ’’میدان عرفات ‘‘ میں جمع ہوتے ہیں اور یہ وفاداری کا اعلان کرتے ہیں کہ ان کا جینا اور مرنا صرف اس ذات باری تعالیٰ کے لیے ہے جسں نے انھیں اس زمین پر بیجھا اور پھر قربانی ہوتی ہے ‘اور فضا اور زمین اﷲ اکبر کے صداؤں سے گونج اٹھتی ہے۔ یہ مہینہ روئے زمیں پر دعوت اسلام اور توحید کی بازگشت ہے کہ اﷲ ایک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں اورا سلام کی جیت کا اعلان ہے ‘ ایک طرف حج کے موقع پر لبیک سے فضائیں گونجتی ہیں تو دوسری طرف جانوروں کی گردن پر چھری چلا کر یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اے خدا ہر چیز کو زوال ہے تیرے سوا ‘ مگر یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیئے کہ خدا کو ہماری قربانی اور صرف اعلان نہیں چاہیئے کیونکہ عربوں میں ایک رواج عام تھا کہ جب وہ قربانی کرتے تھے تو گوشت اور خون کعبہ کی دیواروں پر لٹکا دیتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ گوشت اور خون اﷲ کو پہنچے گا اسی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’لَن ینا ل اﷲ لحومھاولا دماؤھاولٰکن ینا لہ التقوی منکم ط(الحج ۳۸:۲۲) اﷲ کو نہ ان جانوروں کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون ،اسے تو صرف تمہارا تقوی پہنچتا ہے ‘‘۔ اسلام کا مطلب ہے کامل اطاعت ،مکمل سپردگی اور سچی وفاداری اور منافقت سے پاک تعلقات اور کینہ و نفرت سے پاک گفتگو ‘قربانی کا بے نظیر عمل‘ وہی انسان سرانجام دے سکتا ہے جو ان سب پر پورا اترتا ہے۔ اگر آپ کی زندگی ان تمام اعمال سے مبرا ہے تو چند جانوروں کا خون بہا کر آپ سنت ابراہیمی کو تازہ نہیں کر سکتے اور نہ اس عہد پر پورا اتر سکتے ہیں جو آپ قربانی کرتے وقت اﷲ تعالیٰ سے کرتے ہیں ۔اس فریضے کی فضیلت اور اﷲ کی نظر میں اہمیت تو یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ جانور زمین پر گرایا جائے اور اس کا خون بہایا جائے ‘اﷲ اس قربانی کو قبول کرلیتا ہے‘ مگر یہ تب ممکن ہے اگر آپ کے اعمال بھی اس کی گواہی دیں ورنہ یہی عبادات روز محشر آپ کے گلے کا طوق بن جائیں گی ۔لیکن آج یہ مقام افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں قبولیت اعمال کی برکتیں ناپید ہو چکی ہیں ،مسلمانوں کی ذاتی ،سیاسی ،معاشی اور معاشرتی زندگی میں فتنہ و فساد اور بگاڑ و اننتشار کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ،سب ذاتی مفادات اور ہوس میں سرگرداں ہیں ،وہ سکون ،اطمیناں اور رواداری و ایثار جو کہ مسلم معاشرے کی خصوصیت ہوا کرتا تھا اب کہیں کھو گیا ہے ،اور جب ہم نے احساس کو کھویا ہم نے سب کچھ ہی کھو دیا ہے۔پھر ایک ہی صف میں ہم کھڑے نہ ہوسکے اور دنیا نے ہمیں مٹانے کی سازشیں شروع کر دی ہیں ۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

آج ہم جب عید قرباں کا مبارک تہوار منا رہے ہیں تو ایسے میں بھی امت مسلمہ دردو غم میں گھری ہوئی ہے ،غزہ ،فلسطین اور کشمیر کے مسلمان جن کے لیے ہر لمحہ موت جیسا ہے ان کی چیخوں سے یہ زمین لرز رہی ہے اور دوسری طرف ہمارے ملک پاکستان میں آئی ڈی پیز اور متاثرین سیلاب کا غم نمایاں ہے ،یہ تو حقیقت ہے کہ زندگی نام ہی خوشی اور غم کے حسین امتزاج کا ہے مگر پیغامِ زندگی یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کریں جو کہ ان سے دور ہیں ،یہی ہمارے نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اور سنت ہے ۔عید قرباں ہمارے لیے یہ پیغام لیکر آتی ہے کہ ہم اپنے قرابت داروں ،پڑوسیوں اور ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو بھی اتنا ہی مقدم سمجھیں جتنا ہم اپنی ضرورتوں کو سمجھتے ہیں اور ایثار و قربانی کا جزبہ دل میں لیئے ہر شکوہ شکایت بھلا کر ان سے ملیں اور مشکل وقت میں اسلام کی راہ میں جان دینے میں بھی دریغ نہ کریں ۔اور اسی کا نام قربانی ہے اور یہی اس کا مقصد ہے ۔لہذا اس لیے ہم کو چاہیئے اس عید کو سادگی سے مناتے ہوئے اپنی خوشیوں میں وزیرستان (آئی ڈی پیز ) اورمتاثرین سیلاب کو شریک کریں ۔یہ عید آئی ڈی پیز کی قربانیوں سے بھری ہوئی ہے ہمیں انھیں یاد رکھنا ہوگا اور اپنی خوشیوں کو ان کے نام کرنا ہوگا ۔سیلاب نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ دل لرز اٹھتا ہے جانی و مالی نقصان کا اندازہ ابھی تک لگایا نہیں جا سکا ،مگر یہ ایک دردناک حقیقت ہے جوکبھی صاحب مال تھے ان میں سے اکثر آج کنگال ہو گئے ہیں ،جو زکوتہ دیتے تھے آج اکثر خودمستحق زکوتہ ہیں ، اہل ثروت اہل خیرات ہوگئے ہیں ،سیلاب اور آپریشن کی وجہ سے ہمارے لاکھوں بھائی‘ آج کھلے آسمان تلے عید گزارنے پر مجبور ہیں اور ہماری امداد کے منتظر ہیں ۔انہوں نے اپنے آج کو‘ ہماری آنے والی نسلوں کی خاطر قربان کر دیا ہے ۔اور پاک فوج اس ملک کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے ، ہماری یہی خواہش اور دعا ہے کہ اس عیدکے بعد تمام آئی ڈی پیز اپنے اپنے گھروں میں جا کر امن و سکون سے زندگی گزاریں اور سیلاب متاثرین بھی اپنی زندگیوں کو پہلے کی طرح گزار سکیں (اگر ان تک امداد اور مدد پہنچ گئی تو )اور پاک فوج کے جوان کامیاب و کامران اور صحیح سلامت اپنے پیاروں میں لوٹیں ۔قوم ان کی تمام قربانیوں اور جواں مردیوں اور پر خلوص خدمات پر ان کو سلام پیش کرتی ہے۔تمام امت مسلمہ پر جو ظلم کے بادل چھائے ہوئے ہیں وہ مٹ جائیں اور پیار ،امن وسلامتی اور کامیابی کی وہ برکھا برسے جسے پھر کبھی اندیشۂ زوال نہ ہو ۔
تمام سیاسی جماعتوں تو بھی ایک تنبیہ ہے کہ اپنے ذاتی مفادات اور خواہشِ اقتدار کو قربان کر کے خود کو ملک و قوم کی خدمت کے لیے وقف کریں تاکہ اب کے مؤرخ لکھے تو آپ کا نام ان حکمرانوں میں آئے جنھوں نے خود کو بھلا کر ،خود کو مٹا کر ملک و ملت کو سالمیت اور امن و سکون بخشا ۔
Ruqqaya Ghazal
About the Author: Ruqqaya Ghazal Read More Articles by Ruqqaya Ghazal: 50 Articles with 37737 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.