یہ واقعہ آج سے تقریبا ایک ہزار چارسو بتیس سال پہلے ،
۵۸۲ء میں رونما ہوا،جب ہمارے پیارے نبی ﷺ کی عمر ۱۲ سال تھی۔ آپ کے چچا
حضرت ابو طالب تجارت کے سلسلے میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سرزمینِ شام جاتے
ہوئے آپ ﷺ کو بھی ساتھ لے گئے تھے۔ بصریٰ میں جب اس قافلے نے اس درخت کے
سائے میں قیام کیا، تو اس درخت نے آپﷺ کوتپتی دھوپ سے محفوظ رکھنے کے لئے
اپنی شاخیں پھیلا کرآپﷺ پر سایہ کردیا تھا۔ اس درخت کی نبی کریم ﷺ سے محبت
و عقیدت کی بدولت اﷲ تعالیٰ نے اس درخت کو اتنی لمبی عمر عطا فرمائی کہ،
موسموں کے تغیر و تبدل، آب و ہوا کی شدت کے باوجود ،ایک ہزار چارسو بتیس)
(1432سال گزرنے کے بعد،آج بھی یہ درخت عرب کے سینکڑوں مربع میل پر پھیلے لق
ودق صحرا میں سر سبز شاداب موجود ہے۔(موجودہ جغرافیائی حدود کے مطابق یہ
خطہ مشرقی اردن میں واقع ہے) ۔
آپ ﷺ کے دادا عبد المطلب نے اپنی وفات سے پہلے اپنے پیارے پوتے محمدﷺ کا
سرپرست اپنے بیٹے ابو طالب کو بنادیاتھا اور وصیت کرگئے تھے کہ محمدﷺ کا
خیال رکھنا ، اور انکی خیر خواہی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھنا۔ ابو طالب آپ
ﷺ کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے۔ سوتے تو ساتھ لے کر سوتے، کہیں جاتے تو ساتھ
لے جاتے ۔ آپ ﷺ کے آگے نہ ان کو اپنی جان کی فکر ہوتی، نہ اپنے بچوں کی۔ ان
کو آپ ﷺ سے اسقدر محبت کیوں تھی؟آپﷺ دن رات ان کی نگاہوں کے سامنے رہتے ۔
وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ ﷺ بچپن ہی سے ایمانداری، سچائی ، شرافت ،قابلیت اور
شعوری استعداد میں دوسرے بچوں سے منفرد اور ممتاز ہیں۔ بات بات سے ذہانت
جھلکتی ہے۔ ایک ایک چیز سعادت مندی اور خوشبختی کا پتہ دیتی ہے ۔ چچا کی سر
پرستی میں چار سال گزر گئے ۔ آپ پروان چڑھتے رہے۔ عقل کا دائرہ وسیع ہوتا
رہا اور فطری صلاحیتیں ابھرتی رہیں۔
آپ ﷺ جب بارہ سال کے ہوئے ، ابھی عمر ہی کیا تھی ، بالغ بھی نہ ہوئے تھے
لیکن پیشانی پر اقبال مندی کا ستارہ چمک رہا تھا۔ آپﷺ میں غیر معمولی
صلاحیتیں جھلک رہی تھیں اور عجیب و غریب کمالات ظاہر ہورہے تھے ۔ ابو طالب
دیکھ دیکھ کر سخت حیران ہورہے تھے اور حیرت سے انگشت بدنداں تھے۔ابو طالب
کے نزدیک آپﷺ کا شمار نا سمجھ بچوں میں نہ تھا بلکہ سوجھ بوجھ رکھنے والے
بڑے بوڑھوں میں تھا۔ وہ ہر طرح کے مسائل پر آپ ﷺ سے تبادلۂ خیال کرتے جیسے
کوئی شخص اپنے کسی برابر کے ساتھی سے کرتا ہے۔
۵۸۲ عیسوی میں جب آپﷺ کی عمر تقریبا بارہ سال تھی۔آپ کے چچا ابو طالب نے
اپنے ساتھیوں کے ہمرا ہ ملک شام کے تجارتی سفر پر جانے کا ارادہ کیا۔ سفر
دور دراز کا تھا اور راستہ بے حد دشوار ، اس لئے ان کے دل میں آپ ﷺ کو ساتھ
لے جانے کا خیال بھی نہ آیا ، لیکن جب روانگی کا وقت آیا ،تو آپ ﷺ ان سے
لپٹ گئے اور ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی ، ابو طالب نے سوچا ،یہ سفر تو
انتہائی دشوار ہے ، مگر بھتیجے کی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنا پر شام کے
تجاری سفر پر ساتھ لے جانے کا فیصلہ کرلیا اورتجارتی قافلے کے ہمراہ آپ ﷺ
کو لے کر ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے۔
قافلہ مختلف علاقوں سے گزرا۔ بہت سے شہروں میں ٹھرا۔جب یہ قافلہ سرزمین ِ
شام میں دمشق کے قریب بصریٰ میں پہنچا تو وہاں ایک گھنے درخت کے قریب ابو
طالب اپنی سواری سے نیچے اترے اور اپنے قافلے کے ہمراہ یہاں پڑاؤ ڈال دیا ۔
قریشی تاجر جب بھی بصریٰ پہنچتے یہیں پر ٹھہراکرتے تھے ۔ ٹھہرکر کچھ دیر
آرام کرتے اور پھر یہاں کے بیوپاریوں اور آڑھتیوں سے ملتے۔ لہٰذا ابو طالب
اور ان کا قافلہ بھی اسی جگہ ٹھہرا ، اور ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
کوئی زیادہ تھکا ہوا تھا تو بیٹھ کر دم لینے لگا، کوئی بھوک سے بے تاب تھا
تو دستر خوان پھیلا کر بیٹھ گیا ،، کوئی اپنا تجارتی سامان ٹھیک کرنے لگا
کہ جلد سے جلد اس کو ٹھکانے لگائے۔
اس درخت کے قریب ہی ایک گرجا گھر تھا ، جہاں ایک خانقاہ میں بحیرانامی
انجیل کا بہت بڑا عالم مقیم تھا۔یہ اس علاقے میں بڑی قدر و منزلت سے دیکھا
جاتا تھا۔بحیرا ایک گوشہ نشین شخص تھا ،اپنی خانقاہ سے باہر نہیں نکلتا تھا
اور شہر کے لوگوں سے اس کے روابط بالکل نہیں تھے۔اس کی تحقیق تھی کہ ادھر
سے نبی آخر الزمانﷺ کا گزر ہوگا، چنانچہ وہ یہاں آنے جانے والے ہر قافلے کو
کھڑکی سے بغور دیکھا کرتا تھا۔ مگر اسے وہ ہستی نظر نہ آتی جس کی اسے تلاش
تھی۔
اس قافلے کو یہاں پہنچے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ بحیرا نے اپنی
خانقاہ کی کھڑکی سے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا ۔ اس نے دیکھا کہ سامنے درخت
کے نیچے ایک بارہ سالہ لڑکا بیٹھا ہے ۔ درخت کی شاخیں اسے دھوپ سے بچانے کے
لئے اس پر جھکی جارہی ہیں اورجب وہ لڑکا اٹھ کر دھوپ میں گیا تو بادل کا
ایک ٹکڑا اس پر سایہ فگن ہوگیا۔ سالہا سال کی تحقیق اور اس کے علم مطابق
اسے اسی دن اور اسی ہستی کا انتظار تھا۔ وہ بڑی تیزی سے اپنی خانقاہ سے
باہر نکلا اور قافلے میں گھس گیا۔
قافلے کے تمام لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ بحیرا،ان لوگوں سے مخاطب
ہوا ۔ آپ لوگ خانقاہ تشریف لے چلیں ۔میری طرف سے آپ تمام لوگوں کی دعوت ہے
اور کھانے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ قافلے کے تمام لوگ ایک دوسرے کا منہ
دیکھنے لگے ،گویا نگاہیں ایک دوسرے سے پوچھ رہی تھیں کہ ۔ ’’ہم لوگ کئی
باریہاں آئے ، ٹھہرے اور چلے گئے، لیکن بحیرا نے کبھی نہیں پوچھا ۔آج وہ
کیوں اتنا مہربان ہورہا ہے۔ بہرحال کیا کرتے ، تمام لوگوں نے اس کی دعوت
قبول کی اوربحیرا کی رہنمائی میں اس کی خانقاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔
بحیرا نے سب کا پر تپاک خیر مقدم کیا ۔ بولا ’’ بھائیو! میں چاہتا ہوں کہ
آج تم سب میرے ساتھ کھانا کھاؤ اور تم میں سے کوئی بھی رہ نہ جائے‘‘ ۔ اہل
قافلہ بولے، ہم سب توآگئے ہیں ۔ ہاں ایک چھوٹا لڑکا بھی ہمارے ساتھ تھاجسے
ہم وہیں درخت کے نیچے چھوڑ آئے ہیں۔بحیرا نے کہا ،نہیں نہیں لڑکا ہے تو کیا
ہوا، اس کو بھی بلاؤ ، وہ بھی یہیں ہمارے ساتھ کھانا کھائے گا۔ اس سے سب کی
حیرانی اور بڑھ گئی، کہ ایک تو یہ خلاف معمول دعوت اور اس پر یہ بھی اصرار
کہ کوئی رہ نہ جائے۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا ’’بحیرا کیا بات ہے کہ آج آپ نے
ہماری دعوت کی ہے ۔ اس سے پہلے تو کبھی نہیں کرتے تھے۔ بحیرا نے کہا ’’آپ
لوگ مہمان ہیں، ہمارے پڑوس میں آکر ٹھہرے ہیں ۔ ہم پر آپ کا حق ہے ۔ ہمیں
اس کا خیال کرنا ہی چاہیے ۔میں نے چاہا کہ آپ لوگوں کی کچھ خاطر تواضع
ہوجائے اور کیا بات ہوسکتی ہے۔ لوگوں نے کہا بخدا ضرور کوئی بات ہے۔
چنانچہ بحیرا نے ایک شخص کو حضرت ابو طالب کے ڈیرے پربھیجا۔ جو وہاں جاکر
محمد ﷺ کو ساتھ لے کر آیا۔ بحیرا اور تمام مہمان بیٹھے آپﷺ کا انتظار کر
رہے تھے۔ بحیرا کی نظریں محمد ﷺ پر پڑیں تو جم کر رہ گئیں اور وہ ٹکٹکی
لگائے آپ ﷺ کو دیکھتا ہی رہا۔ سب نے کھانا کھایا اور ادھر اُدھر پھیل گئے۔
کوئی چہل قدمی کررہا تھا ، تو کوئی گھوم گھوم کر بحیرا کا گرجا گھر دیکھ
رہا تھا۔ اس وقت بحیرا آپ ﷺ کے پاس آیا اور بولا بیٹا، تمہیں لات و عزیٰ کی
قسم جو کچھ پوچھوں بتلا دینا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’لات و عزیٰ کی قسم نہ
دیجئے۔ بحیرا نے کیا ’’اچھا خدا کی قسم ! جو کچھ پوچھوں سب بتلادینا۔ آپ ﷺ
نے فرمایا۔ پوچھئے کیا پوچھتے ہیں۔ اب بحیراا ٓپﷺ سے آپ ہی کے بارے میں
مختلف سوال کرنے لگا۔ کچھ مزاج اور طبیعت کا حال پوچھا۔ کچھ عادات و اخلاق
کے بارے میں دریافت کیا ۔ اور آپ ﷺ اس کے ہر سوال کا جواب دیتے رہے ۔ اتنے
میں آپ کے چچا ابو طالب آپ ﷺکو لینے آگئے ۔ بحیرا نے پوچھا، یہ لڑکا تمہارا
کون ہوتا ہے۔ ابوطالب نے کہا ، یہ میرا بیٹا ہے ۔ بحیرا بولا یہ کیسے
ہوسکتا ہے؟ میرے علم کے مطابق یہ تمہارا بیٹا نہیں ہوسکتا ۔ اس لڑکے کا باپ
زندہ ہو ، یہ ہوہی نہیں سکتا۔
حضرت ابو طالب نے آپ ﷺ کے بارے میں بحیرا کی معلومات دیکھیں تو دنگ رہ گئے
، بولے ہاں یہ میرا بھتیجا ہے۔ بحیرا نے کہا اور اس کا باپ۔ ابوطالب بولے
’’ابھی یہ ماں کے پیٹ ہی میں تھا کہ باپ کا انتقال ہوگیا‘‘۔ بحیرا بولا، تم
نے سچ کہا ۔تمہارا یہ بھتیجا ایک عظیم انسان ہوگا۔اور آ پ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر
باآواز بلند کہنے لگا۔ یہ سرکار دوعالم ہیں۔ یہ رب العالمین کے رسول ہیں۔
اﷲ نے انہیں رحمت للعالمین بناکر مبعوث فرمایا ہے ۔ اہل قافلہ بحیراکی یہ
باتیں سن کر حیرت وتعجب میں ڈوب گئے۔ قافلے میں سے ایک قریشی رئیس نے پوچھا
۔ اے محترم بزرگ آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی۔ بحیرا نے جواب دیا ’’جب آپ
لوگ آرہے تھے تو میں دیکھ رہا تھا کہ تمام درخت اور پتھر ان کے سامنے سجدہ
کررہے تھے اور ایک بدلی ان کے سر پر سایہ کئے ہوئی تھی اور جب قافلہ اس
درخت کے نیچے براجمان ہوا تو محمد ﷺ اس جگہ تھے جہاں اس درخت کا سایہ ختم
ہوجاتا ہے تو اس درخت نے فوراََ جھک کر آپﷺ کے سر اقدس پر سایہ کردیا۔ یہ
خصوصیت صرف انبیائے اکرام کو حاصل ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں میں انہیں مہر نبوت
سے بھی پہچان سکتا ہوں جو انکے دونوں کندھوں کے درمیان ہوگی‘‘۔
ضیافت سے فارغ ہوکر ، بحیرا نے ابوطالب سے درخوست کی کہ تم اپنے بھتیجے کو
واپس لے جاؤ۔خدا کی قسم ! جس حد تک میں نے انھیں پہچان لیا ہے اگر
رومی(یہودی) انھیں دیکھیں گے تو علاماتِ نبوت اور معجزات کی مدد سے انھیں
پہچان کران کی جان کے پیچھے پڑ جائیں گے۔یوں ابو طالب حضور ﷺ کو لے کر
قافلہ کے ہمراہ مکہ مکرمہ واپس آگئے۔ (ماخوذ) (ترمذی ۔مدارج النبوہ۔
البدایہ والنہایہ۔ سیرت ابن ہشام)
جدید سائنس کے تجربات اور تحقیقات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ شجر اور حجر بھی
شعور رکھتے ہیں۔ موجودہ جغرافیائی حدود کے مطابق یہ درخت اردن میں موجود ہے
۔ حکومت اردن نے اس کے قریب حجاز سے شام کو جانے والی اس تجارتی شاہراہ کے
آثار بھی تلاش کرلیئے ہیں اور اس درخت کی ڈاکو منٹری بھی بنائی جو قارئین
انٹر نیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ اس کی اہم نشانی یہ ہے کہ سینکڑوں میل تک لق و
دق تپتے صحرا میں اُگا ہوا یہ تنہا درخت موجود ہے۔ اﷲ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں
اس درخت کی زیارت کا موقع عطافرمائے۔ آمین۔
|