لوح محفوظ سے لوح فقیر تک

قرآن مجید کی پہلی سورت الفاتحہ مبارکہ ہے اور اس کی یہ شان ہے کہ دو مرتبہ نازل ہوئی اس کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ نفل ہوں، سنتیں ہوں یا فرض ہوں ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت واجب ہے۔اسے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ سارا قرآن پاک اس سورت کا خلاصہ ہے۔اس سورت کی سات آیات میں خالق کائنات نے اپنی عظمت و کبریائی کے ساتھ ساتھ توحید کا درس دیا ہے۔اس رحیم و کریم ذات حق نے ان آیات میں اپنی واحدانیت ، جاہ و جلال، مراتب و کمالات اور انوارو
تجلیات کے ایسے چشمے رواں کیے ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔اسی سورت کی آیت نمبر5 میں ہے کہ
’’ دکھا ہمیں سیدھا راستہ۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا۔‘‘
سورۃ الانبیا کی آیت نمبر 105میں ارشاد باری تعالی ہے ۔
ترجمہ: ’’بلا شبہ اس زمین کے وارث میرے نیک بند ے ہیں‘‘
اور پھر قرآن مجید فرقان حمید کے متعلق ارشاد ربانی ہے :
ان فی ذ لک لایتہ لقوم یتفکرون
ترجمہ: بے شک اس میں نشانیاں ہیں سوچنے والوں کے لیے۔

گویااگر تفکر کیا جائے کہ سیدھا راستہ کون سا ہے ؟ انعام یافتہ بندے کون ہیں؟تواس کتاب سے رہنمائی ملے گی۔ اﷲ تعالی نے قرآن مجید کے اسلوب میں بڑی نفاست اور وسعت رکھی ہے۔سورۃ فاتحہ میں فرمایا ہے کہ ان لوگوں کا راستہ دکھا جو تیرے انعام یافتہ ہیں جو تیری بارگاہ میں کامیاب لوگ ہیں۔یہاں قرآن کا راستہ دکھا ، انبیا کا راستہ دکھا یا حدیث کا راستہ دکھاکہہ کر سیدھے راستے کو محدود نہیں کیاگیا۔پھر آگے خود ہی بتا دیا کہ انعام یافتہ لوگ کون ہیں ۔ سورۃ النساء آیت نمبر 69میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
ترجمہ: جو اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم مانے گا اسے ان کا ساتھ ملے گا جو انبیا ہیں، صدیقین ہیں، شہدا ہیں، اور صالحین ہیں
اسی آیت کے اختتام پراﷲ تعالیٰ نے تصدیق بھی کر دی اور فرمایا :
وحسن اولئِک رفیقا
ترجمہ :اور کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔

اس آیت میں صدیقین اور شہدا کا ذکر کر کے وقت اور زمانے کی قید ختم کر دی گئی کیونکہ نبوت حضورﷺ پر ختم ہوگئی مگر صدیقین اور صالحین قیامت تک آتے رہیں گے۔چناچہ اس دور میں بھی صالحین موجود ہیں جس سے ہم گزر رہے ہیں۔جو اس کے دین کی سر بلندی اور مخلوق کوراہ حق سے روشناس کرانے کے لیے شب و روز کام کر رہے ہیں۔ ان ہی کے متعلق قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

ترجمہ: بے شک اولیا ء اﷲ کو نہ کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوں گے۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور عمر بھر پرہیزگاری کرتے رہے ان ہی کے لیے بشارت ہے دینوی زندگی میں اور آخرت میں ۔ (سورۃ یونس 63)

بخاری شریف میں حدیث مبارکہ ہے کہ :
اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں جب بندہ نفلی عبادت سے میرے قریب ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں ہی اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں ہی اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے۔

امام مسلم نے مسلم شریف میں لکھا ہے :
جب اﷲ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے اے جبرائیل میں اپنے فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔پس جبرائیل بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔پھر وہ آسمان میں منادی کروا دیتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس بندے سے محبت کرو۔پھر سب اہل آسمان اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔تب زمین پر اس کی مقبولیت کا چرچہ ہونے لگتا ہے۔

پیر کرم شاہ الازہریـؒضیا القرآن میں رقمطراز ہیں:
اولیاء اﷲ کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک وہ جو طالب اور مرید ہیں اور دوسرے وہ جو مطلوب اور مراد ہیں۔ایک وہ ہیں جنہیں محبوبیت کی خلعت فاخرہ سے سرفراز کیا گیا ہے ۔ اس قرب محبت کا سب سے اعلیٰ اور ارفع مقام وہ ہے جہاں محبوب رب العالمینﷺ فائز ہیں۔ پہلی قسم کے ولی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ ولی اس کو کہتے ہیں جس کا دل ذکر الٰہی میں مستغر ق رہے۔شب و روز تسبیح و تہلیل میں مصروف رہے۔جس کا دل محبت الٰہی سے لبریز ہواور کسی غیر کی گنجائش تک نہ ہو‘‘۔ اولیا اﷲ میں دو قسم کی قوتیں ہوتی ہیں۔ ایک قوت سے اثر قبول کرتے ہیں۔دوسری قوت سے دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔پہلی قسم قوت کی وجہ بارگاہ الٰہی سے فیض و تجلی قبول کرتی ہے۔

دوسری قوت کی وجہ سے ان ارواح و قلوب کو فیض پہنچاتی ہیں جن کا ان سے روحانی لگاؤاور قلبی مناسبت ہوتی ہے۔اگر کوئی شخص انکار اور تعصب سے پاک ہو کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے تو ان کے فیوض و برکات سے ضرور بہرہ مند ہوتا ہے۔ یہان یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ پندرہ سو سال میں جتنی بھی شخصیات کا شمار ہم انعام یافتہ بندوں میں کرتے ہیں۔ان کے کردار ، عقائد، کمالات، علمی درجات ، دینی و روحانی معاملات اور ان کی اعلیٰ سیرت سے کوئی بھی مکتبہ فکر انکار نہیں کر سکتا۔ان کی حقیقی کامیابی و کامرانی ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔

دور حاضر میں اس کے انعام یافتہ بندوں کی فہرست میں ایسی ہی ایک شخصیت معروف روحانی سکالر منبع جود و سخا، پیکر معرفت و عرفاں علم و دانش کی عملی تصویر سید سرفراز اے شاہ فہم و فراست اور اخلاص و محبت سے ما لا مال یہ ہستی 212 جہانزیب بلاک میں بیٹھ کر خلق خدا کو نہ صرف سیدھے کی جانب مائل و مانوس کررہی ہے۔ بلکہ عقیدت مندوں کے دلوں کو عشق رسول ﷺکے نور سے منور کر رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں آپ کی تصنیف ’’لوح فقیر ‘‘ مارکیٹ میں آئی اور روحانیت کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ہاتھوں ہاتھ بکنے والی یہ کتاب آپ کی چوتھی تصنیف ہے اور اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ چند دن میں ہی مارکیٹ میں نایاب ہو گئی۔’’ لوح فقیر‘‘ کے مطالعہ کے بعدقارئین کی متفقہ رائے ہے کہ یہ کتاب پہلی تینوں کتابوں پر بازی لے گئی ہے۔ اس میں مصنف بڑے خوبصورت انداز میں روحانیت کے اسرارو رموز کو منکشف کرتے ہوئے شاہراہ تصوف کے مسافروں کو کہے فقیر کے راستے فقیر رنگ میں رنگ لیتے ہیں پھر فقیر نگری میں لے جا کر لوح فقیر کے ذریعے لوح محفوظ پر لکھی حقیقتوں سے آگاہ کرتے ہیں۔

ایک صحت مند معاشرے میں انسان کوجس قدر جسمانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ اسے روحانی غذا کی ضرورت ہے۔ جلال خداوندی کے انوار و تجلیات اور علیم و خبیر خالق ارض و سماں کی شان کریمی اور بندہ نوازی کے جو پیمانے سید سرفراز شاہ نے ’’لوح فقیر‘‘ میں نقش کر دئیے ہیں ان کے اظہار و تکریم کی نظیر نہیں ملتی۔ صاحب تصنیف نے قدرت کی اعجاز آفرینیوں کو ایسے سادہ اور پر کشش انداز میں بیان کیا ہے کہ قاری بر ملا پکار اٹھتا ہے کہ بے شک خالق کائنات نے اپنے بندے کو شیطانی حملوں سے بچانے کے لئے اپنے مقرب بندوں کو مقرر کیاہے۔

بقول علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ:
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

راہ تصوف میں فقیر کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ عشاق کے قلوب میں عشق رسولﷺاور محبت الٰہی کی شمع روشن کرے۔چنانچہ راہ حق کے اس غازی نے لوح فقیر میں طالبان تصوف کو اپنے چشمہ علم وعرفان سے ایسا سیراب کیا ہے کہ اس کا مقصود و محبوب محبت الٰہی ، ذکر الٰہی اور عشق رسولﷺ بن جاتا ہے۔ قبلہ شاہ صاحب نے اپنے فقیرانہ انداز میں قدرت کا ملہ کی حقیقتوں کو قاری قاری کے ذہن میں منتقل کیا ہے۔ تصوف کو روایتی دنیاوی انداز سے نکال کر حقیقت میں ڈھال دیا ہے۔ ’’لوح فقیر‘‘ میں مصنف نے تصوف کو ڈھول
باجوں بھنگڑوں سے چھٹکارا دلا کراس کا اصل روپ پیش کیا ہے۔

صحت مند معاشرے میں ایمانداری کی روش اپنانے کا نسخہ تحریر فرماتے ہوتے کہتے ہیں۔

’’ایک موم بتی سارے شہر میں روشنی نہیں پھیلا سکتی مگر ہو سکتا ہے اس موم بتی سے کوئی اور بھی اپنی شمع روشن کرے
اور اندھیرا دور کرنے میں معاون ہو۔‘‘
نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمعینہ کے رازوں سے پردہ اٹھاکر چندلفظوں میں وضاحت کر دی ہے۔ و ظایف کی کیمسٹری تحریر فرماتےہوئے لکھتے ہیں’’ وظیفے کی روح کے ساتھCompatiblityضروری ہے یہ نہ ہو تو نقصان ہونے لگتاہے۔مگرCompatiblity چیک کروانے کیلئے کسی صاحب علم، صاحب نظر سے اجازت ضروری ہے۔فقیر نگری کے اس باسی نے حصول معرفت الٰہی میں قلب کے کردار کا تصور بڑی فراخ دلی اور تفصیل سے بیان کیا ہے۔ شیطان سے بچنے کیلئے دل کو آئینہ بنانے کا ہنر اپنانے کیلئے انسان کو اپنی پہچان کی کسوٹی عطاکی ہے۔ قاری کو تعلیم سے تربیت اور مرید کو مرادتک پہنچنے کا جوراستہ لوح فقیر میں عطا فرمایاہے اس نے بیعت کی حقیقت اور خا نقا ہی نظام کی وسعتوں سے خوب روشناس کروایا ہے لکھتے ہیں مرید وہ ہوتا ہے جو اﷲ کی رضا طلب کرتا ہے اس کے تین پہلو ہیں۔

1۔ مرید، 2۔ مراد، 3۔ مقصود

لہٰذا مریدان امور کو طے کرے پھر منزل کی جانب بڑھتا چلا جاتا ہے، تب اس پر عنایات اور انوارو تجلیات کی بارش ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے رحیم ہونے کی بات کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
بحیثیت رحیم اس کی عطا مختلفFactorsپر مبنی ہوتی ہے۔ وہ مانگنے والوں کوعطا فرماتا ہے نہ مانگنے والوں سے ناراض ہو جاتا ہے۔ اگر آپ اﷲ تعالیٰ کی مہربانی چاہتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ مہربان ہو جائیں۔ آپ دوسروں کے لئے قربانی دینا شروع کر دیں یوں زندگی بھر آپ گھاٹے کا سودا نہیں کر پائیں گے اﷲ کے بندوں کے لئے اپنی خواہشات ضروریات اور آرام کی قربانی دے دیجئے۔ اس سے اﷲ تعالیٰ کا قرب اور دوستی آپ کو عطا ہوجائے گی۔ لوح فقیر میں محترم سرفراز اے شاہ نے مخلوق کی خدمت اور ایمان کی مضبوطی پر بہت زور دیا ہے۔ جادو کے متعلق فرماتے ہیں یہ سوچنا کہ کسی نے جادو کے ذریعے میرا رزق باندھ دیا ہے۔ یہ شرک ہے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمارا عقیدہ ہونا چاہئے کہ میرا رب سب سے طاقتور ہے۔ وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ وہ خود فرماتا ہے میں رازق ہوں میں نہ چاہوں تو کوئی فائدہ یانقصان نہیں پہنچا سکتا۔

خلق خدا پر مہربان ہونے کے متعلق لکھتے ہیں:
’’خلق خدا پر مہربان ہونے سے پہلے اپنے فرائض ضرور ادا کر لیں کیونکہ ان کے بارے میں پوچھ گوچھ پہلے ہو گی۔‘‘

آپ نے اپنی اس تصنیف میں روحانیت کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے روحانیت اور تصورات کو علم اور معرفت کی لڑی میں لفظوں کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے پرویا ہے۔

’’لوح فقیر‘‘ میں قبلہ سرفراز اے شاہ نے تصورتوحید اور پر اسرار بندے، رب پر بھروسا بڑھانے کا فارمولا اور رب کی دوستی پانے کا اصول، تصوف کامقصد، حصول معرفت الٰہی میں قلب کا کردار، شیطان سے کیسے بچا جائے، علم الغیب اور صاحبان علم، اسرار تصوف، راہ تصوف کے مصائب، تقدیر اور تدبیر، رموزِ فقر، نماز اور حقیقت، تصوف کی دنیا، نور بصیرت عبادت، کے ظاہری اور باطنی اثرات سمیت بے شمار ایسے موضوعات احاطہ تحریر میں لائے ہیں جن کی نہ صرف فی زمانہ اشد ضرورت تھی بلکہ یہ نوجوان نسل اور متلاشیان راہ حق کے لئے مشعل راہ ثابت ہو گی۔مشاہدات کے اس دور میں قبلہ شاہ صاحب نے تصوف کو چمٹے چادروں منکوں ، چھوہاروں اور بھنگڑوں کے چنگل سے چھڑا کر حقیقی رنگ میں پیش کیا ہے۔ اگرمیں یہ کہوں کہ تصوف کوملنگوں درباروں اور دھمالیوں سے نکال کر پینٹ کوٹ میں ملبوس طالبان تصوف میں منتقل کیا ہے تو بے جانہ ہو گا وگرنہ نوجوان نسل اور پڑھا لکھا طبقہ تصوف سے نہ صرف دور ہو رہا تھا بلکہ اسے دین اسلام کے مقابل ایک علیحدہ نظام سمجھتا تھا۔ اس تبدیلی کی عملی شکل شاہ صاحب کے آستانہ212جہانزیب بلاک میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں نوجوان اورپڑھے لکھے حضرات کی اکثریت ٹوکن لئے شاہ صاحب سے ملاقات کے انتظار میں کھڑی ہوتی ہے۔ پڑھی لکھی خواتین اور بچیاں رہنمائی کے لئے آتی ہیں۔جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ تصوف کو اس طبقے میں سید سرفراز اے شاہ نے کامیابی سے روشناس کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔’’لوح فقیر‘‘ کے مطالعہ میں جہاں بے شمار موضوعات پردور حاضر کے ایک روحانی سکالر اور بلند مرتبہ ولی کے خیالات ارشادات اقوال سے مستعفیدہوتے ہیں وہاں بطور مسلمان اﷲ تعالیٰ پر یقین، اس کے قرب کے حصول کا راستہ اور ایمان کی پختگی بھی ملتی ہے ۔بزرگان دین کے ہاں حاضری، ان کی خدمت میں بیٹھنے کے آداب اور ان کے وسیلے سے مانگنے کا ڈھنگ سیکھنے کاموقعہ ملتا ہے۔

ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’ہم زبان سے کہتے ہیں اﷲ تعالیٰ شہ رگ سے بھی قریب ہے…… وہ عالم الغیب ہے…… دلوں کے بھید سے آگاہ ہے…… ازل سے ابد تک تمام معاملات جانتا ہے…… ظاہر و پوشیدہ سب اﷲ کے علم میں ہے…… رب تعالیٰ ہماری والدہ سے ستر گناہ زیادہ مہربان ہے…… وہ بن مانگے ہماری ضرورت سے زیادہ ہمیں عطا فرماتا ہے…… وہ انہیں بھی عطا فرماتا ہے جو اسے برا بھلا کہتے ہیں…… جو اسے مانتے ہی نہیں…… وہ انہیں بھی رزق عطا فرماتا ہے جو شرک کرتے ہیں…… وہ ان کا بھی رازق ہے جومسلمان ہیں…… ہم ان سب باتوں پر یقین رکھتے ہیں، لیکن اس کے باوجود رزق کی فراوانی کے لئے دعا کرنے والے کے پاس میں بھاگے چلے جاتے ہیں…… ذرا سوچئے وہ کس سے دعا کرے گا۔‘‘
زندگی کو فطری انداز میں گزارئیے اور فطری انداز یہ ہے کہ زندگی میں خوش حالی بھی ہے، تنگدستی بھی ہے کامیابیاں بھی ہیں ناکامیاں بھی ہیں تندرستی بھی ہے اور بیماری بھی۔ صبر کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’ جہاں رحمت اور زحمت کے درمیان فرق کا احساس مٹ جائے وہ مقام صبر ہے‘‘

حضورﷺ سے محبت و عقیدت کی ترجمانی لوح فقیر میں کچھ یوں کی ہے ۔ لکھتے ہیں:
’’رب تعالیٰ خود کوئی کام نہیں کرتا وہ کام کرنے کاسوچتا ہے اور وہ کام ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی صرف ایک ہی مصروفیت ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنے محبوبﷺ پر درود بھیجتا ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ ہم (لوگ) اکثر معصومیت میں ایک غلطی کرتے ہیں ہم جب نفل پڑھتے ہیں تو معصومیت میں کہتے ہیں کہ یا اﷲ ان نوافل کا ثواب ہم نے حضورﷺ کی روح کو بخشا یاد رکھئے آقاﷺ کا مقام اتنا بلند ہے کہ ہماری تو یہ حیثیت ہی نہیں کہ ہم حضورﷺ کو کوئی چیز یا ثواب بخش سکیں، ہم یہ کر سکتے ہیں کہ آپﷺ کی خدمت میں کوئی چیز بطور نذرانہ پیش کر سکیں۔ وہ بھی اگر اجازت ہو تو۔‘‘

اس سے پہلے مجھے تینوں تصانیف کا مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل ہے، لیکن ’’لوح فقیر‘‘ میں منصب ارفع پر فائز اس درویش صفت انسان نے مراتب و کمالات کے ساتھ قدرت کاملہ کے مشاہدات کے جونگینے جڑے ہیں وہ بہت منفرد ہیں، تصوف و روحانیت کے پیمانے بھی لوح فقیر میں لبریز ہیں، زبان خلق کی متفقہ رائے ہے کہ لوح فقیر نے سمندر کو قطرے میں سمو دیا ہے۔ تصنیف کا ہر سوال پہلے سے بڑھ کر اور ہر صفحہ پچھلے سے زیادہ پر تجسس اور ایمان افروز ہے۔ قاری ایسا منہمک ہوتا ہے کہ اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ ساری کتاب کا مطالعہ ایک ہی نشست میں کرڈا لوں، لوح فقیر کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ قبلہ شاہ صاحب کی شخصیت نے میدان تصوف میں ہر سمت سے قاری کومطمئن کیا ہے۔ سوال تصوف سے متعلقہ ہے یا فقہ سے، عشق کا اظہار ہے یا عقیدت کا اولیا، اﷲ کی بات چلی یا انبیا اکرام کی، علم و دانش کے اس پیکر نے حکمت اور روحانیت سے بھر پور روشنی ڈالی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لوح فقیر کی تحریر لوح محفوظ سے لی گئی لگتی ہے اور
علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ کا مصرعہ۔؂
’’یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں‘‘

قبلہ سید سرفراز اے شاہ دامت برکاتہم پر پورا اترتا ہے۔ پیر کرم شاہ الازہری ؒضیا القرآن میں لکھتے ہیں:
اﷲ تعالیٰ کو لوح محفوظ پر لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟

(نعوذ باﷲ) اسے بھولنے کا خدشہ نہیں تھا۔اس لیے لکھا کے میرے محبوب بندے مطلع رہیں جن کی نظر لوح محفوظ پر ہے ۔

ؔآخر میں انتہائی عقیدت سے عرض کروں گا کہ سید سرفراز اے شاہ نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے تصوف کو درباروں ، میلوں ٹھیلوں، شعبدہ بازوں، بھنگیوں، عاملوں کے چنگل سے نکال کر عام آدمی کے قلب میں اتارنے کی کوشش کی ہے۔جس میں وہ بہت کامیاب رہے ہیں۔’’لوح فقیر ‘‘ میں تصوف کا حقیقی رنگ بھر کر پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے کو روحانیت کی جانب مبذول کرنے میں اس فقیر رنگ ہستی نے بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے۔لوح فقیر کے بارے میں لکھے گئے میرے یہ چند الفاظ اس کی وسعتوں کا احاطہ تو نہیں کر سکتے تاہم نذر انہ عقیدت کے پیش نظر اپنے قلبی تاثرات کو الفاظ کی شکل دیکر پیش کیا ہے۔ ’’گر قبول افتد‘‘
’’حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا‘‘

Muhammad Ismail Shaherwardi
About the Author: Muhammad Ismail Shaherwardi Read More Articles by Muhammad Ismail Shaherwardi: 2 Articles with 2728 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.