کچھوے مت بنو…!
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کچھوئوں کے
ایک خاندان نے پکنک منانے کا فیصلہ کیا۔ کچھوے بنیادی اور قدرتی طور پر
انتہائی سست واقع ہوئے ہیں لہٰذا اُنہوں نے سات سال کا پروگرام بنایا کہ وہ
سات سال کے عرصے میں پکنک منا کر واپس گھر آجائیں گے۔ خاندان نے کسی اچھی
جگہ کی تلاش میں اپنا سفر شروع کیا اور گھومتے گھومتے دو سال بعد اُن کو
اپنے لیے مناسب و موزوں جگہ مل ہی گئی۔ چھ ماہ کے عرصے میں اُنہوں نے اُس
جگہ کو صاف سُتھرا کیا اور اپنی پکنک کا سامان نکال کر وہاں سیٹ کیا۔ سب
تیاریاں مکمل کرنے کے بعد اُنہیں پتہ چلا کہ نمک تو وہ گھر ہی بھول آئے ہیں
اور اُن سب کا کہنا تھا کہ نمک کے بغیر پکنک کا سارا مزہ کر کرا ہو جائے
گا۔ ایک لمبی بحث کے بعد ایک نوجوان کچھوا گھر سے جا کر نمک لانے پر تیار
ہو گیا۔ یہ نوجون کچھوا باقی ماندہ کچھوئوں سے قدرے تیز بھی تھا لیکن وہ
ایک شرط پر جانے کیلئے تیار ہو ا کہ جب تک وہ واپس نہیں آئے گا کوئی خوراک
کو ہاتھ تک نہیں لگائے گا اور کچھ نہیں کھائے گا۔ خاندان والے اُس کی شرط
مان گئے اور وہ نوجوان کچھوا چلا گیا۔ تین سال بیت گئے لیکن وہ کچھوا واپس
نہیں آیا۔۔۔ پانچ سال۔۔۔۔۔ چھ سال۔۔۔۔۔ بالآخر سات سال گزر گئے لیکن اُس
نوجون کچھوے کا کچھ پتا نہیں تھا۔ تھک ہار کر خاندان کے سب سے بوڑھے کچھوے
نے فیصلہ کیا کہ ہم مزید بھوکے نہیں رہ سکتے اور یہ فیصلہ ہوتے ہی اُنہوں
نے کھانا کھولنا شروع کیا کہ اچانک ایک پیڑ کے پیچھے سے وہی نوجوان کچھوا
نمودار ہوا اور بولا:’’دیکھا! مجھے علم تھا کہ تم لوگ میرا انتظار نہیں کرو
گے۔ اب میں نمک لینے نہیں جاؤںگا۔ ‘ ‘ بالکل اسی طرح ہم میں سے کچھ لوگ اس
انتظار میں اپنا وقت برباد کرتے رہتے ہیں کہ کوئی دوسرا غلطی کرے اور ہم
اُس کو پکڑیں۔ ہمارا دھیان خود اپنی ذات اور اپنے اعمال پرہونے کی بجائے
دوسروں پر رہتا ہے۔ اس طرح نہ صرف ہم اپنا وقت، طاقت اور ذہانت برباد کرتے
ہیں بلکہ اپنی زندگی میں منفی عوامل کو بھی داخل کر لیتے ہیں۔ |
|