متولیِ اعلیٰ: ہمدرد (وقف)پاکستان، چیرپرسن: ہمدرد
لیبارٹریز (وقف) پاکستان
صدر : ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان، مدینتہ الحکمہ، ہمدرد شوریٰ، ہمدرد نونہال
اسمبلی
( یہ مکالمہ ر اقم الحروف نے اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے کیا جو موضوع کی
تحقیقی ضرورت تھا۔ انٹر ویو مقالے میں شامل ہے۔ مقالے کا عنوان ہے ’’
پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم
محمد سعید کا کردار ‘‘ ۔ اس تحقیق پر راقم الحروف کو ۲۰۰۹ء میں جامعہ ہمدرد
سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی۔ سعدیہ راشد کا یہ انٹر ویو ۱۴ دسمبر۲۰۰۴ء
کو لیا گیا)
تعارف :
سعدیہ راشدصاحبہ شہید پاکستان حکیم محمد سعید کی بیٹی ہیں۔ شہادت کے بعد
اپنے والد محترم کی جانشین ہوئیں۔ آپ نے ۱۹۸۰ء میں ہمدرد میں شمولیت اختیار
کی ۔ انتظامی امور کی تر بیت آپ کو حکیم صاحب نے اپنے زندگی ہی میں دینا
شروع کر دی تھی۔ اس وقت ہمدرد وقف کی متولیہ اعلیٰ، چیر پر سن ہمدرد
لیباریٹر یز (وقف) پاکستان، صدر ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان، صدر مدینتہ
الحکمہ، صدر ہمدرد شوریٰ، صدر ہمدرد نونہال اسمبلی ہیں۔سعدیہ راشد صاحبہ نے
ازراہ عنایت راقم الحروف کوپاکستان میں کتب خانو ں کی تحریک اور تر قی کے
حوالے سے شہید پاکستان پر کی جا نے والی اس تحقیق کے لیے وقت دیا۔ آپ سے یہ
گفتگو آپ کے دفتر واقع ہمدرد سینٹر، المجید، ناظم آباد میں ۱۴ دسمبر ۲۰۰۴ء
کو ہوئی۔
۱۔ آپ نے جب ادارہ ہمدردمیں شمولیت اختیار کی تو سب سے پہلے آپ کو حکیم
محمد سعید کی کتاب Medicine in Chinaکی ترتیب و تدوین کا کام سونپا گیا ،
اس وقت آپ کے کیا تاثرات تھے؟
ج : بالکل ابتدائی تاثرات توفکرمندی کے تھے کہ یہ کام تو اس سے پہلے کیا ہی
نہیں تھا، لیکن تجربے نے بتایا کہ کام خود استاد ہوتا ہے۔ آدمی دل سے جو
کام کرے اس میں لطف بھی آنے لگتا ہے۔ چنا نچہ میں نے جب کام شروع کیا تو
مجھے لطف بھی آنے لگا، لیکن محنت بہت کرنی پڑی ۔خانم ڈی سلوا اس کام کا
تجربہ رکھتی ہیں ،ان کے مشورے اور تعاون شامل تھا۔ اس لیے میری فکر یا
گھبراہٹ دورہوگئی۔
۲۔ آپ نے سب سے پہلے اپنی زندگی میں قرآن مجید کے بعد کونسی کتاب کا مطالعہ
کیا۔
ج : مجھے جہاں تک یا د ہے میں نے ڈپٹی نذیر احمد کے ناول تو بتہ النصوح ،
مراۃ العروس بالکل ابتدائی عمر میں پڑھے ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا محمد حسین
آزاد کی کتابوں کا مطالعہ بھی یا د آتا ہے۔ شاعری میں غالب اورا قبال کا
کلام ذہن میں آتا ہے ۔ ویسے میں نے شاعری کا مطالعہ باقاعدہ نہیں کیا۔
۳ : آپ نے اپنے والد محترم کے پیشہ حکمت کو نہیں اپنایا اس کے برعکس
سوشیالوجی میں ایم ۔ اے کیا۔ اس کی کیا وجہ تھی۔
ج : مجھے ا س کی کوئی خاص وجہ سمجھ نہیں آتی۔ اصل میں طب کی تعلیم ہو یا
کسی اور فن کی ، اس سے پہلے عام تعلیم ضروری ہوتی ہے، اس لیے میں نے ایم ۔
اے کیا۔ اس کے بعد مجھے طب کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے تھی، جس طرح میر ے
ماموں زاد بھائی حکیم محمد یٰسین صاحب نے جامعہ طیبہ شرقیہ (موجودہ کالج آف
ایسٹرن میڈیسن) سے حاصل کی، لیکن شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ مجھے حکیم صاحب نے
ہمدرد کے مختلف عمومی، تحریری، اور انتظامی کاموں کے لیے تیار کیا۔ میری
بڑی بیٹی ڈاکٹر ماہم منیر احمد نے جدید طب کی تعلیم حاصل کی ہے اور اس طرح
علاج معالجے کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
۴ : حکیم محمد سعید کو کتاب سے شدید محبت تھی، کیاآپ اس کی وجہ بتاسکتی
ہیں؟
ج : بچپن کے علم دوست ماحول، بڑے بھائی اور ان کے اہل علم احباب کی صحبت
ملی۔ حکیم صاحب کے برادر بزرگ محترم حکیم عبدالحمید صاحب کے حلقہ ٔ احباب
میں حکما ء کے علاوہ خواجہ حسن نظامی صاحب ، مولانا احمد سعید صاحب مولانا
قاضی سجاد حسین کرتپوری صاحب جیسے لوگ شامل تھے۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں
شہید پاکستان کو مطالعے کی اہمیت معلوم ہوئی اور کتاب کی محبت پیدا ہوئ۔
۵ : شہر علم یعنی مدینہ الحکمہ کی شروعات شہید پاکستا ن نے لائبریری یعنی
بیت الحکمہ کی تعمیر سے کی۔آپ ان کے اس اقدام کو کس نظرسے دیکھتی ہیں؟
ج : اس اقدام کو تحسین اور مسرت کے علاوہ کس نظر سے دیکھا جاسکتا ہے۔ حکیم
صاحب کی علم اور کتاب سے محبت نے کتب خانے کو سب سے اولیت دی۔ وہ جانتے تھے
کتاب اور کتب خانہ علم کا خزانہ ہے۔ اس کے بغیر کوئی تعلیمی ، علمی اور
ثقافتی کام نہیں کیا جاسکتا۔
۶ : کیا حکیم صاحب آپ کو پڑھنے اورلکھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے؟
ج : حکیم صاحب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ زبان سے درس دینے یا نصیحت کرنے کے
بجائے نمونہ پیش کرکے اپنے چھوٹو ں کو سکھاتے تھے۔ میری تعلیم و تربیت میں
بھی ان کا یہی اصول اور طریقہ تھا۔
۷ : کیا حکیم صاحب نے کبھی آپ کو کتابوں یا لائبریری کے بارے میں کوئی خاص
ہدایت دی؟
ج : شہید ِ پاکستان ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ خوب پڑھو اور اچھی کتابیں
پڑھو۔
۸ : بیرون ممالک جب کبھی آپ ان کے ہمراہ ہوتیں اور حکیم صاحب اپنا زیادہ
وقت کتابوں کے انتخاب اور خریداری میں صرف کیا کرتے تو اس وقت آپ کے کیا
تاثرات ہوا کرتے تھے؟
ج : مجھے بھی اچھا لگتا تھا اور میں کتابوں کے انتخاب میں حکیم صاحب کو
مشورہ دیا کرتی تھی ، جس کو وہ زیادہ تر خوشی سے قبول فرمالیا کرتے تھے۔
۹ : حکیم صاحب دوران سفر ہوائی جہاز میں بھی عام طور پر لکھنے اورپڑھنے کا
کام کیا کرتے تھے۔ اِس دوران جب کبھی آپ ان کے ہمراہ ہوتیں تو کیا اس صورت
میں بھی وہ لکھنے کا عمل جاری رکھتے اِس وقت آپ کے تاثرات کیا ہوا کرتے
تھے۔
ج : جی ہاں، حکیم صاحب سفر کے دوران میں بھی لکھنے پڑھنے کا کام کیا کرتے
تھے اور کوئی نہ کوئی ایسا کام اپنے ساتھ رکھتے تھے جس کو مکمل کرنا ہوتا
تھا۔ کبھی وہ اپنا سفرنامہ بھی سفر کے دوران لکھا کرتے تھے،کبھی کسی رسالے
مثلاً ہمدرد ِ صحت کے مضامین کی اصلاح یا ایڈیٹنگ کا کام بھی کرلیا کرتے
تھے۔ اگر وہ مجھے کوئی کام دیتے تو میں وہ کام کردیاکرتی ورنہ میں کوئی دل
چسپ کتاب پڑھنے لگتی تھی۔
۱۰ : کتاب کے حوالہ سے حکیم صاحب کی ناراضگی یا غصہ ہونے کا کوئی واقعہ جو
آپ کے ذہن میں ہو۔
ج : کوئ متعین واقعہ تو اس وقت ذہن میں نہیں آرہا ہے۔ وجہ یہ بھی ہے کہ کتا
ب اور کاغذحکیم صاحب کو سب سے زیادہ عزیز تھے، اس لیے گھر کے سب لوگ حکیم
صاحب کی کتابوں کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔
۱۱ : آپ کے خیال میں حکیم صاحب کا سب سے بڑااور اہم کارنامہ کسے قرار دیا
جاسکتا ہے؟
ج : حکیم صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ تومیرے خیال میں پاکستان میں’’ہمدرد‘‘
کا قیام ، اس کا استحکام ، اس کی توسیع و ترقی ہی ہے۔ یہی وہ ادارہ ہے جس
نے پاکستان میں مشرقی دواسازی کا معیا ر قائم کیا، اس کو وسعت دی اور اس کی
وجہ سے ملک میں بہت سی جڑی بوٹیاں پیدا ہونے لگیں، کئی ادارے قائم ہوئے ان
اداروں نے اہم خدمات انجام دیں اور اﷲ کا شکر ہے اب بھی انجام دے رہے ہیں۔
۱۲ : آپ کو حکیم صاحب کی کس عادت نے سب سے زیادہ متاثر کیا؟
ج : میں کہہ سکتی ہوں کہ حکیم صاحب کی وقت کی قدر کرنے اور اس کی پابندی
کرنے کی عادت نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔
(انٹر ویو مو رخہ ۱۴ دسمبر۲۰۰۴ء کو سعدیہ صاحبہ کے دفتر واقع ہمدرد سینٹر،
المجید، ناظم آباد ، کراچی میں کیا گیا) |