قبل از تاریخ انسان کا وجود دریاؤں اور آبی ذخائر کے
کنارے ہی ہوتا تھا۔ اس حوالے سے قدیم ترین آبادیوں کے آثار جہاں مصر اور
عراق میں ملتے ہیں وہیں انسانی آبادی کا وجود اُسی دور میں پنجاب میں بھی
نظر آتا ہے۔ بہاولپور کے علاقے میں ایک دریا ہے جو صدیوں پہلے رواں دواں
تھا مگر اب وقت کے ساتھ خشک ہو چکا ہے۔ دریائے ہیکرہ کے نام سے جانا جاتا
ہے۔ یہ دریا اپنے سنگم کے قریب ہمالہ کے علاقے اور بھارت کے بالائی حصوں
میں دریائے گھاگھرہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی مقدس
کتابوں میں جس دریائے سرسوتی کا ذکر ہے وہ حقیقت میں یہی دریا ہے۔ حال ہی
میں بہاولپور کے علاقے میں دریائے ہیکرہ کے آس پاس کھدائی کے دوران بتیس
(۳۲) مقامات پر ایسے شواہد ملے ہیں کہ جن سے آج سے لاکھوں سال قبل وہاں
انسان کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے۔
پنجاب کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ ویدک دور میں اسے سپت سندھو کہا جاتا تھا۔
یونانیوں نے اس علاقے کو Pentapotamia کے نام سے موسوم کیا۔ مسلمانوں نے
اسے سندھ کے پانچ معاون دریاؤں جہلم، چناب، راوی، ستلج اور بیاس کے حوالے
سے پہلی دفعہ پنجاب کا نام دیا۔ پنجاب کے نام سے اس کا ذکر آئینِ اکبری میں
بھی آتا ہے۔ انگریزوں سے پہلے ۱۸۰۱ء سے ۱۸۴۹ء تک پنجاب میں سکھوں کی حکومت
رہی۔ سکھوں کے دور میں پنجاب میں ۷۰ فیصد مسلمان، ۱۷ فیصد سکھ اور ۱۳ فیصد
ہندو اور دیگر لوگ آباد تھے۔ ۱۹۴۷ء تک تھوڑے بہت فرق کے باوجود تینوں قوموں
کی آبادی کی نسبت تقریباً یہی رہی۔ مگر تقسیم کے وقت مسلمانوں کے حصے پنجاب
کا ۵۶ فیصد رقبہ جبکہ ہندوؤں اور سکھوں کے حصے پنجاب کا ۴۴ فیصد رقبہ آیا۔
پنجابی لکھنے کے دو انداز ہیں۔ مسلمان فارسی سے ملتا جلتا انداز استعمال
کرتے ہیں جس میں دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے۔ فارسی چونکہ مغل بادشاہوں کی
زبان تھی اس لئے اسے شاہ مکھی انداز کہا جاتا ہے۔ سکھوں کے لکھنے کا انداز
سنسکرت سے ملتا جلتا ہے جو بائیں سے دائیں لکھی جاتی ہے۔ سکھ گورو چونکہ
اسی انداز میں لکھتے تھے اس لئے ان کے رسم الخط کو گور مکھی کہا جاتا ہے۔
تقسیم کے حوالے سے پاکستانی پنجاب کو بعض لوگ شاہ مکھی پنجاب اور بھارتی
پنجاب کو گورمکھی پنجاب بھی کہتے ہیں۔
۱۹۴۷ء میں تقسیم کے وقت پنجاب کے پانچ ڈویژن تھے۔ دہلی، جالندھر، لاہور،
ملتان اور راولپنڈی۔ اور ان کا کل رقبہ ۹۷۲۰۹ مربع میل تھا۔ اس کے علاوہ
پنجاب میں بہت سی آزاد ریاستیں پٹیالہ، جنڈ، نابھہ، بہاولپور، سرمور،
رجانہ، پٹودی، کالسیہ، شملہ، کپورتھلہ، مانڈی، ملیر کوٹلہ، سکھت، فرید کوٹ،
چمبہ وغیرہ بھی تھیں جنکا کل رقبہ ۳۶۵۳۲ مربع میل تھا۔ اس طرح پنجاب کا
مجموعہ رقبہ ۱۳۳۷۳۱ مربع میل تھا۔ تقسیم کے نتیجے میں دہلی ڈویژن کے سات
(۷) اضلاع اور جالندھر کے پانچ (۵) اضلاع بھارت کو مل گئے۔ ملتان اور
راولپنڈی کے پانچ پانچ اضلاع پاکستان کے حصے میں آئے۔ لاہور ڈویژن کو تقسیم
کر دیا گیا۔ اس کے دو اضلاع امرتسر اور گرداسپور بھارت اور چار اضلاع
لاہور، منٹگمری (ساہیوال)، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ پاکستان کے حصے آئے۔
ابتدائی طور پر لاہور کا ضلع گرداسپور اور جالندھر کا ضلع فیروزپور بھی
پاکستان کا حصہ قرار پائے تھے مگر آخری وقت کچھ مصلحتوں اور کچھ سازشوں کے
نتیجے میں انہیں پاکستان سے الگ کر دیا گیا۔ اس ساری تقسیم کے نتیجے میں ۱۴
لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ہجرت کرنی پڑی۔ فسادات پھوٹ پڑے جن میں تین لاکھ سے
زیادہ لوگ مارے گئے۔
بھارتی یا گورمکھی پنجاب رقبے کے لحاظ سے پورے پنجاب کا ۴۴ فیصد تھا جس میں
چودہ اضلاع اور بہاولپور کے علاوہ تمام ریاستیں شامل تھیں۔ عارضی طور پر
شملہ کو اس کا صدر مقام قرار دیا گیا۔ ۱۹۶۰ء میں ایک نیا شہر چندی گڑھ بسا
کر پنجاب کا صدر مقام اسے قرار دیا گیا۔ یکم نومبر ۱۹۶۶ء کو پنجاب کو
انتظامی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کر دیا گیا۔ پنجابی بولنے والی سکھ
آبادی کے علاقوں کو صوبہ پنجاب کا نام دیا گیا۔ ہندی بولنے والی اکثریت کے
علاقے کو ہریانہ صوبے کا نام دیا گیا۔ پہاڑی علاقوں کو ایک تیسرے صوبے
ہماچل پردیش کا نام دیا گیا۔ یوں بھارتی پنجاب بہت سے حصوں میں بٹ گیا۔ جن
میں تین صوبے اور دو علاقے دہلی اور چندی گڑھ انتظامی طور پر مرکز کے تحت
رہے۔ یہ تقسیم گو لسانی بنیادوں پر ہوئی مگر اس سے بہت سے انتظامی مسائل
بھی حل ہوئے۔ ہندی پنجابی کی تفریق کا نام و نشان بھی نہیں رہا اور لوگوں
میں ابھرتے ہوئے لسانی جھگڑے مکمل ختم ہو گئے۔
پاکستانی یا شاہ مکھی پنجاب میں لاہور ڈویژن کے چار، ملتان کے پانچ،
راولپنڈی کے پانچ، کل چودہ اضلاع کے علاوہ ریاست بہاولپور کو شامل کیا گیا۔
یہ برٹش پنجاب کا ۵۶ فیصد علاقہ ۷۹۲۸۴ مربع میل پر مشتمل ہے اور لاہور اس
کا صدر مقام ہے۔ تقسیم کے بعد پچھلے ۶۷ سالوں میں پنجاب میں کچھ ڈویژنز اور
بہت سے اضلاع کا اضافہ تو ہوا ہے مگر لسانی یا انتظامی بنیادوں پر پنجاب کو
تقسیم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔ سرائیکی صوبے کی آوازیں ایک
عرصہ سے آ رہی ہیں۔ بہت سے سیاستدان اس ایشو پر اپنی سیاسی دکان بھی چمکاتے
رہے ہیں مگر عملی تدبیر نہ انہوں نے کی اور نہ ہی ان کے بس میں تھی۔
پاکستان کے چاروں صوبوں میں لوگ انتظامی معاملات اور انصاف کے حصول کے لئے
دور دراز کے علاقوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ آج جب دنیا لوگوں کے لئے
آسانیاں پیدا کرنے کے لئے سرگرم ہے تو پنجاب کیا، پورے پاکستان کے چاروں
صوبوں کو چھوٹے چھوٹے صوبوں میں تبدیل کرنے میں کوئی حرج نہیں تاکہ ہر چیز
لوگوں کی پہنچ میں ہو۔ موجودہ مہنگائی کے دور میں چھوٹے چھوٹے مسائل کے لئے
بڑے شہروں میں آنا، سفر کے اخراجات، قیام اور طعام کے اخراجات یقینا لوگوں
پر بوجھ ہیں۔ مگر کیا کیا جائے۔ نئے صوبے وقت کی ضرورت ہیں مگر موجودہ
پارلیمان میں یہ فہم رکھنے والے ہی نہیں اس لئے عوام کو ابھی وقت کا انتظار
کرنا ہو گا۔ |