ڈاکٹرضیاء الحق چودھری پی․ایچ․ڈی․علیگ
سابق ریڈر شعبہ کیمسٹری لکھنؤ کریسچین ڈگری کالج لکھنؤ
عظیم شخصیت حاجی حافظ وارث علی شاہ دیویٰؒ (۱۹۰۵-۱۸۲۳ء) کا روحانی فیض
تاحال جاری وساری ہے اور آئندہ بھی رہے گا۔ آپ کی حیات مبارکہ پر آپ کی
زندگی میں ہی فیضانِ وارث سے سیراب منشی خدا بخش شائقؔ دریا آبادی نے ایک
کتاب ’’تحفۃ الاصفیاء‘‘ بزبانِ فارسی تحریر کی تھی جو انؤین کرانکل پریس
بانکی پور سے ۱۳۰۸ھ (۱۸۹۰ء) میں طبع ہوئی تھی اور حاجی صاحب کی سیرت سے
متعلق متسند ترین کتاب کہی جاسکتی ہے۔ حاجی صاحب کے وصال کے بعد آپ کی حیات
وتعلیمات پر کثیر تعداد میں تفصیلی واختیاری کتب ورسائل شائع ہوکر منظرِ
عام پر آئے اور نافع طالبانِ سلوک ومعرفت ہوئے۔ ایسی ہی ایک تالیف ’’ضیاء
الوارث من مشکوٰۃ الوارث‘‘ ہے جس کے مرتب اودھ کے مردم خیز قصبہ گوپا مؤ (ضلع
ہردوئی) کے معروف عالم دین ’’مورخ، محقق، معلم، منتظم، مترجم اور صوفی
الحاج مولانا محمد ابرار حسین فاروقی نقشبندی قادری ہیں۔ اُن کا یہ رسالہ
پہلی بار لکھنؤ سے ۱۹۶۵ء میں طبع ہوا تھا جس میں اجمال کے ساتھ حاجی صاحب
سے متعلق تمام اہم معلومات کو نہایت خوبی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ااس
رسالہ کی اشاعت ثانی موجودہ عاشقان حاجی صاحب کے لئے نہایت ضروری ہے ۔ یہ
امر قابل تحسین ہے کہ اس ضرورت کو جلد ہی پورا کیا جا رہا ہے۔
حاجی صاحب کے مریدین ومعتقدین میں ہندو حضرات بھی تھے جس میں ٹھاکر پنجم
سنگھ رئیس مین پوری، بابو کنھیا لال ودیگر حضرات بارگاہ وارثیہ میں بہت
مقبول تھے۔ ایک نانک شاہی سکھ بھی مرید خاص تھے، عیسائی میں اسپین کے رئیس
کاؤنٹ گلار وضع حاجی صاحب کے عاشق صادق تھے، دیگر حضرات جرمنی وبرطانیہ بھی
آپ کے مرید تھے، مدراس کے ایک پارسی بھی حلقۂ بگوشِ وارثِ پاک ہوئے۔ ایسے
غیر مسلم حضرات بہت ہیں جن کا شمار دشوار ہے، شعرائے کرام میں سید عاشق
حسین سیماب اکبر آبادی، سید ریاض احمد ریاض خیر آبادی، حاجی بدرالدین اوگھٹ
شاہ وارثی، غلام حسین بیدم شاہ وارثی، خواجہ محمد اکبر مؤلف مجموعۂ میلاد
الاکبر المعروف بہ اکبر وارثی اور دیگر مرید شعراء ہیں، جن کا شمار بھی
آسان نہیں۔ غرضیکہ جس کیلئے وارث پاک نے چاہا اس میں شعری صلاحیت اجاگر
ہوگئی اور اس کا کلام عارفانہ ہوگیا اور جس میں شعری صلاحیت تھی وہ اجاگر
ہوگئی۔
جسمانی نقطۂ نظر سے حضرت شاہ وارث علی شاہ صاحب کا وارثی سلسلہ آپ کے آگے
نہیں بڑھا لیکن روحانی فیض جاری ہے اور فیض اٹھانے والے دوسرے سلاسل کے
مریدین ومعتقدین بھی ہیں۔
فرید الدین یکتا نے اردو میں ایک دل کو چھولینے والے مصرعے سے حاجی صاحب کی
تاریخ نکالی ہے جسے الہامی کہاجائے تو بیجا نہ ہوگا:-
عاشق صادق ملا معشوق سے (۱۳۲۳ھ)
حاجی صاحب کے روضہ کی تعمیر میں علاقہ کی ذی حیثیت افراد کے علاوہ دیگر
بیرونی حضرات نے دل کھول کر حصہ لیا خاص طور پر ٹھاکر پنجم سنگھ رئیس مین
پوری اس میں پیش پیش رہے، اودھ میں حاجی صاحب کا روضہ اپنی خوشنمائی اور
دلکشی میں اپنی مثال آپ ہے جو ان کی روحانی عظمت اور ان کے مریدوں کے خلوص
کا مظہر ہے۔
حیاتِ وارثی کا مندرجہ ذیل شعر حاجی صاحب کی حیات مبارکہ کی سچی عکاسی کرتا
ہے:-
’’لفظ عشق ہے تنہا ترجمانِ وارث ہے
داستاں محبت کی داستان وارث ہے‘‘
(بسلسلہ عرس مبارک بتاریخ ۱۱ اکتوبر ۲۰۱۴) |