سرشار صدیقی بھی ہماری بزمِ وفا سے کوچ کر کے عدم کی بے
کراں وادیوں کو سدھار گئے۔ علم و ادب کا وہ آفتاب ِ جہاں تاب جو پچیس دسمبر
انیس سو چھبیس کے دن کان پور (بھارت) سے طلوع ہواسات ستمبر دو ہزار چودہ کی
شام کراچی میں غروب ہو گیا۔ سرشار صدیقی کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دِل
دہل گیا اور آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ آٹھ شعر ی مجموعوں اور چار نثری تصانیف
سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے والے اس لافانی ا دیب کی ر حلت ایک بہت
بڑا قومی سانحہ ہے جس کی تلافی ممکن ہی نہیں ۔ ان سے مل کر زندگی کی حقیقی
معنویت کا احساس ہو تا تھا اور زندگی سے محبت کے جذبات کو نمو ملتی تھی ۔
اردو زبان کااب ایسا کوئی ادیب دکھائی نہیں دیتا جسے سر شار صدیقی جیسا کہا
جا سکے۔مسجد دار الخیر گلستانِ جوہر کراچی میں اردو زبان کے اس نابغہء
روزگار تخلیق کار اور عظیم شاعر کی نماز جنازہ میں شامل ہزاروں افراد زار و
قطار رو رہے تھے۔ اس روشن دماغ کی دائمی مفارقت کے سانحے پر شہر کا شہر ہی
سوگو ار تھا۔کراچی کے نواح میں واقع دالمیا شہرِ خموشاں کی زمین نے عالمی
ادبیات کے نبض آشنا، اُردو زبان کے عظیم شاعر ،انسانیت کے وقار اور سر
بلندی کے لیے جد جہد کرنے والے دانش ور ، انسانی ہمدری کے پیکر ،اخلاق اور
اخلاص کی مجسم صورت اور حکمت ،دانش اور فقر و روحانیت کے آسمان کو ہمیشہ کے
لیے اپنے دامن میں نہاں کر لیا ۔ اُردو زبان کی تخلیقی نثر اور شاعری کے
ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی فرشتہء اجل کے بے رحم ہاتھوں سے زمین بوس ہو
گئی ۔ارد وصحافت حریت ِ فکر کے ایک ایسے مجاہد سے محروم ہو گئی جس نے زہرِ
ہلاہل کو کبھی قند نہ کہا اورجس کی زندگی رمزِ لا تخف کی عملی صورت تھی ۔جب
ان کی میت لحد میں اتاری گئی تووہاں موجود ان کے ہزاروں مداح اس جان لیوا
صدمے اور فرطِ غم سے نڈھا ل تھے۔سرشار صدیقی گزشتہ کچھ عرصے سے پھیپھڑوں کے
سرطان میں مبتلا تھے۔ ان کے پس ماندگان میں ایک بیوہ اور ایک بیٹا شامل ہیں۔
سرشار صدیقی کا اصل نام اسرار حسین محمد امان تھالیکن قارئینِ ادب نے انھیں
ان کے قلمی نام ہی سے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند منصب پر
فائز کیا ۔ان کا آبائی وطن معظم آباد ضلع اناؤ (بھارت )تھا۔ان کے والد
اولاد حسین اپنے عہد کے ممتاز طبیب تھے۔طب یو نانی میں ان کی علمی فضیلت ،بے
پناہ قابلیت اور مہارت کا ایک عالم معترف تھا ۔ان کی خداداد صلاحیتوں سے
متاثر ہو کر انھیں طبیہ کالج دہلی میں نوجوان اطبا کی تدریس پر مامور کیا
گیا ۔بر عظیم پاک و ہند کے متعد نا مور طبیبوں نے اس تاریخی ادارے سے طب کی
تعلیم حاصل کی اور حکیم اولاد حسین سے اکتساب فیض کیا ۔حکیم اجمل خان ان کی
قابلیت،خلوص ،دردمندی اورانسانی ہمدردی کو ہمیشہ بہ نظر تحسین دیکھتے تھے۔
حکیم اولاد حسین کے جن ممتاز اطبا کے ساتھ مراسم تھے ان میں حکیم محمد سعید
دہلوی،حکیم آفتاب احمد قرشی،حکیم نیر واسطی،حکیم نذر محمد انصاری،حکیم
مولوی امیر الدین،حکیم حاجی غلام محمد،حکیم یار محمد ،حکیم محمد صدیق اور
حکیم احمد بخش نذیر کے نام قابلِ ذکر ہیں۔حکیم اولاد حسین اور ان کے خاندان
نے تحریکِ پاکستان میں فعال کردار ادا کیا اور بر صغیر سے برطانوی استعمار
کے خاتمے کے لیے کی جانے والی جدو جہد میں بھر پور حصہ لیا ۔
سرشار صدیقی نے میٹرک کا امتحان کلکتہ سے پاس کیا ۔حلیم مسلم کالج کان پور
سے انٹر میڈیٹ کاامتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔زمانہ طالب علمی ہی سے سر
شار صدیقی نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حریت ضمیر سے جینے کی راہ
اپنائی۔وہ مولاناحسرت موہانی کی استعمار دشمنی کے بہت بڑے مداح تھے۔اپنے
ترقی پسند خیالات کی وجہ سے وہ کمیو نسٹ پارٹی اور ترقی پسند تحریک کے
جلسوں میں بھی شرکت کرتے۔وہ ممتاز بھارتی ادیبوں نشور واحدی اور ثاقب کان
پوری کی حریت ِ فکر و عمل کی روش کو بہت پسند کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے
بعد وہ1949 میں پاکستان ہجرت کر کے کراچی میں مقیم ہو گئے۔1955میں وہ نیشنل
بنک آف پاکستان میں ملازم ہو گئے اور 1984میں اسی بنک کی ملازمت سے ریٹائر
ہوئے ۔پاکستان میں وہ مولانا اسماعیل ذبیح ،سید اشتیاق اظہر ،ڈاکٹر سید ابو
الخیر کشفی،ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،پروفیسر حسنین کاظمی،ڈاکٹر نثار احمد
قریشی،ڈاکٹر بشیر سیفی،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر محمد ریاض ، سجاد بخاری،
نظیر صدیقی ، رفعت سلطان ،ارشاد گرامی،محمد فیروز شاہ ،ڈاکٹر صابر
کلوروی،ڈاکٹر صابر آفاقی،محمد شیر افضل جعفری،کبیر انور جعفری،سید جعفر
طاہر اور غلام علی خان چین کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کو قدر کی نگاہ سے
دیکھتے تھے۔صحافت میں ان کی دلچسپی زندگی بھر بر قرار رہی اور باقاعدگی کے
ساتھ پاکستان کے ممتاز اردو اخبارات جنگ اورایکسپریس میں کالم لکھتے رہے۔ان
کے کالم بھی تخلیقی ادب کی چاشنی لیے ہوتے تھے جنھیں قارئین ادب بہت توجہ
اور دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ اپنے تخلیقی نوعیت کے کالموں میں انھوں نے ہجرت
کے باعث انسانیت کو درپیش مصائب وآلام کا احوال ،قومی زبان اور تہذیبی و
ثقافتی مسائل اور معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز پر کھل کر لکھا۔ زندگی کی
اقدار عالیہ کی نمو پر انھوں نے ہمیشہ زور دیا ۔انھیں اس بات کا قلق تھا کہ
ہوس نے نوع انساں کو خود غرضی اور انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ قحط الرجال
کے موجودہ دورمیں زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کو شدید خطرات کا سامنا
ہے۔سر شار صدیقی نے اس سلسلے میں عوام میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے
کی مقدور بھر سعی کی۔ان کی علمی ،ادبی ، قومی ،ملی اور لسانی خدمات کو پوری
دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور انھیں مختلف ادبی تنظیموں کی طرف سے
متعدد قومی اور بین الا قوامی ایوارڈزملے ۔حکومت پاکستان نے فروغ ِ اردو
زبان وادب اور اہم قومی خدمات کے اعتراف میں انھیں سال 2011میں صدارتی
ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔
اپنی عملی زندگی کا آغاز سر شار صدیقی نے صحافت سے کیا۔ علامہ نیاز فتح
پوری کی ادارت میں لکھنو سے شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’نگار ‘‘کی مجلس
ادارت میں وہ شامل تھے۔ان کی پہلی غزل 1944میں مجلہ نگار میں شائع ہوئی۔ان
کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
ارتقا(1947)،پتھر کی لکیر (1962)،ابجد (1983)،بے نام (1983)،خزاں کی ایک
شام (1988)
تخلیقِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اترنے کی صلاحیت سے متمتع
سرشار صدیقی کا اسلوب زندگی کے متعدد نئے حقائق کی گرہ کشائی کرتا ہے۔ان کے
اسلوب میں قومی تشخص کا عنصر قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔وطنِ عزیز
کی سماجی اور معاشرتی زندگی کے تمام نشیب و فراز اُن کے پیشِ نظر تھے۔اپنے
تجربات ،مشاہدات،جذبات اور احساسات کو اُنھوں نے پُوری دیانت سے کام لے کر
زیبِ قرطاس کیا ہے۔ ان کی لفظی مرقع نگاری کاجادو سر چڑھ کر بو لتا ہے ۔اُنھوں
نے لفظ اور قلم کی حرمت کو ہمیشہ ملحوظ رکھا اور انسانیت کی اعلا ترین
اقدارکے تحفظ کو ہمیشہ اپنا مطمحِ نظر بنایا ۔ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق
گردانی کرتے ہوئے وہ آئینہء ایام میں اپنی ہر ادا پر کڑی نظر رکھتے اور
اپنی تسبیح ِ روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت احتسابِ ذات پر توجہ
مرکوز رکھتے تھے۔ اُن کی زندگی کے معمولات میں جو توازن اور اعتدال پایا
جاتا تھا ،اس کا راز ان کے سائنسی اندازِ فکر پر مبنی حقیقت پسندی اور خود
احتسابی میں پو شیدہ تھااُن کا خیال تھا کہ ماضی کے تلخ تجربات سے دِل
برداشتہ ہونے کے بجائے انھیں مشعل راہ بنایا جائے اور نہ صرف حال بل کہ
مستقبل کے لیے بھی لائحہء عمل مرتب کرتے وقت ان کو خضرِ راہ سمجھا جائے۔ان
کی شاعری میں بے لوث محبت اور بے باک صداقت کے جذبات کی فراوانی ہے ۔ان کا
اسلوب قاری کے ذہن پر دور رس اثرات مرتب کرتا ہے۔اسی لیے ادب کے سنجیدہ
قارئین ان کی شاعری کے اصلاحی پہلو کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ان کی
شاعری قاری کے ذہن و ذکاوت کو اس انداز میں مہمیز کرتی ہے کہ قاری اپنے
اندر ایک ولولہء تازہ موجزن محسوس کرتا ہے اور تخلیق کا ر جن عوامل کو اپنے
فکر و فن کی اساس بناتا ہے وہ اس کے عام شعور کا ایک اہم حصہ بن جاتے
ہیں۔اس عمل کے معجز نما اثرسے جذبات و احساسات کی تہذیب و تزکیہ کے امکانات
روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کے سلسلے
میں اُنھوں نے جو طرزِ فغاں ایجا د کی وہ ان کی انفرادیت کا منہ بو لتا
ثبوت ہے۔
ویراں ہیں اور حسرتِ تعمیر بھی نہیں
لیکن یہ غم تو قابلِ تحریر بھی نہیں
جو بے وطن ہوئے ان کا وطن زمانہ ہوا
جو بے زمیں ہوئے ان کا کہاں ٹھکانہ ہوا
نہ بام و در ہیں سلامت ،نہ سائبان ،نہ ہم
ہمارے شہر میں ہے سنگ و خشت کا موسم
نہ خواب میں نہ طلسمِ شکستِ خواب میں ہوں
میں اپنی روشنیء طبع کے عذاب میں ہوں
کبھی تو کوئی لکھے گا حکایتِ غمِ جاں
میں ایک سادہ ورق ہوں مگر کتاب میں ہوں
یہ میرے چاند سے بچے جواں ہوئے جب سے
میں ایک مرتبہ پھر عالمِ شباب میں ہوں
قیام پاکستان کے بعد یہاں حالات نے جو رخ اختیا رکیا،اس کے معاشرتی زندگی
پر دور رس اثرات مرتب ہوئے۔تخلیقِ ادب ہی کو لے لیں فکر و خیال اور تخلیقی
فعالیت کا متعدد نئی جہات سے واسطہ پڑا۔اردو شاعری میں قیام پاکستان کے وقت
رونما ہونے والے واقعات کا واضح پر تو دکھائی دیتا ہے۔سر شار صدیقی کی
شاعری میں ہجرت کے بعد تہذیبی ،ثقافتی ،سماجی اور معاشرتی مسائل کے بارے
میں ایک حقیقت پسندانہ اندازِ فکر سامنے آتا ہے۔انھوں نے قومی کلچر کے
حوالے سے نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ اپنے تاثرات کو پیرایہء اظہار عطا
کیا۔معاشرتی زندگی کے اضطراب ،بے یقینی اور خوف و دہشت کی فضا پراُ ن کا دل
خون کے آنسو روتا تھا ۔گزشتہ سات عشروں میں جن ادیبوں نے پاکستانی ادبیات
میں اپنی تہذیبی ،ثقافتی اور تمدنی اقدار و روایات کے فروغ پر اپنی توجہ
مرکوز رکھی ہے ان میں سر شار صدیقی کا نام ممتا ز مقام رکھتا ہے۔وطن اور
اہلِ وطن کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کا سب سے بڑا
اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ارض ِ وطن سے وہ ٹوٹ کر محبت کرتے تھے اور
اسے اپنے لیے ایک جائے اماں قرار دیتے تھے۔اُنھیں یقین تھا کہ فروغِ گلشن و
صوت ہزار کا موسم ضرور آئے گا اورو طن کی خاک سے امن و آشتی ،راحت و
شادمانی،خوش حالی اور فارغ البالی کے ایسے چشمے پُھوٹیں گے جو اِس چمن کے
گوشے گوشے کو سیراب کر دیں گے۔حریتِ فکر و عمل کے ایک مجاہد کی حیثیت سر
شارصدیقی نے معاشرتی زندگی کی قباحتوں اور تضادات کے خلاف کھل کر لکھا اور
کبھی کسی مصلحت کی پروا نہ کی۔ ہوائے جور و ستم میں بھی انھوں نے حق و
صداقت کا علم بلند رکھنے پر اصرار کیا۔ایک فلاحی معاشرے میں عدل و انصاف کی
فراہمی کو وہ وقت کا اہم ترین تقاضا سمجھتے تھے۔کہیں بھی نا انصافی ہوتی ،کسی
کی حق تلفی ہوتی یا کسی کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑتا ،وہ تڑپ
اُٹھتے اور جبر کے خلاف سینہ سپر ہو جاتے۔نا انصافی کی اذیت اور کرب کو سہہ
کر اس کے خلاف حرفِ شکایت لب پر نہ لانے کو وہ منافقت اور اعصاب شکن بُز
دلی سے تعبیر کرتے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس نوعیت کا اندازِ فکر جس سے ظلم
کو تقویت ملے ظلم و استبدادسے کہیں بڑھ کر اہانت آمیز ہے۔اپنے تخلیقی عمل
کے ذریعے معاشرے میں بے لوث محبت ،خلوص ،ایثار اور دردمندی کے فروغ کو ان
کی اولین ترجیح کی حیثیت حاصل رہی۔
صحرا ہی غنیمت ہے جو گھر جاؤ گے لوگو
وہ عالمِ وحشت ہے کہ مر جاؤ گے لوگو
یادوں کے تعاقب میں اگر جاؤ گے لوگو
میری ہی طرح تم بھی بِکھر جاؤ گے لوگو
وہ موجِ صبا بھی ہو تو ہُشیار ہی رہنا
سُو کھے ہوئے پتے ہو ،بکھر جاؤ گے لوگو
اُجڑے ہیں کئی شہر تو یہ شہر بسا ہے
یہ شہر بھی چھوڑا تو کدھر جاؤ گے لوگو
حالات نے چہروں پہ بہت ظلم کیے ہیں
آئینہ اگر دیکھا تو ڈر جاؤ گے لوگو
اس پر نہ قدم رکھنا کہ یہ راہِ وفا ہے
سر شار نہیں ہو کہ گزر جاؤ گے لوگو
سر شار صدیقی نے سال 1984میں عمرہ کی سعادت حاصل کی اور حضور ختم المرسلینﷺکے
روضہ ء اقدس پر بھی حاضر دی۔حرم پاک کی زیارت ،عمرہ کی ادائیگی اور رحمت ِ
عالم ﷺکے روضہء اقدس پر حاضری ان کی دلی تمنا تھی۔اس مبارک سفر کے بعد جب
وہ واپس آئے توان کی دنیا ہی بد ل گئی۔ان کی زندگی میں ایک روحانی انقلاب آ
گیا اور فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔عشقِ رسولﷺکے مقدس جذبات ان کے قلب و
روح میں سما گئے اور ان پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اس عشق کے اعجاز سے پست
کو بالا کیا جاسکتا ہے اور اسی عشق کے فیض سے پوری دنیا سے سفاک ظلمتوں کو
کافورکیا جا سکتا ہے۔ دنیا نے یہ روح پرور منظر دیکھا کہ عشقِ رسولﷺ کے
فیضان سے حضرت بلال حبشی ؓ جیسے سچے عاشق کو دوام نصیب ہوا مگرسکندر رومی
کا سب جا ہ و جلال سیلِ زماں کے تھپیڑوں میں خس و خاشاک کے مانند بہہ گیا ۔
ارضِ مقدس کے مبارک سفر کے بعد سر شار صدیقی کے اسلوب میں بھی تبدیلی رونما
ہوئی۔ عشقِ حقیقی کے سانچے میں ڈھل کر سرشار صدیقی کی شاعری رنگ ،خوشبو اور
حسن و خوبی کے تما م استعاروں سے مزین ہو گئی اور اس کے آہنگ سے دلوں کو
مرکزِ مہر و وفا کرنے اور حریمِ کبریا سے آ شنا کرنے میں مدد ملی۔اپنے فنی
تجربوں میں انھوں نے تخلیقی سطح پر حمدیہ اور نعتیہ شاعری پر اپنی توجہ مر
کوز کر دی۔ان کی یہ شاعری عشق حقیقی کا ارفع ترین معیار پیش کرتی ہے۔اپنے
متنوع فنی تجربوں سے انھوں نے افکارِ تازہ کے وسیلے سے جہانِ تازہ تک رسائی
کی جو سعی کی اسے بے حد پذیرائی نصیب ہوئی۔ان کی بہت سی نعتیں آزاد نظم کی
ہیئت میں منصہء شہود پر آئیں انھوں نے نعتیہ ہائیکو بھی لکھے۔ان کی یہ
شاعری قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر کر قاری پر وجدانی کیفیت طاری
کر دیتی ہے۔ان کا یہ نیا انداز جہاں ان کے لیے دین اور دنیا میں سر فرازی
کا وسیلہ رہا وہاں ان کا یہ عشق آخرت میں بھی زاد راہ ثابت ہو گا ۔عشق
حقیقی کی اس کیفیت کو وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا اثاثہ اور اپنی پہچان
قرار دیتے اور اپنی نعتیہ شاعری کو صفِ حسان ؓ میں شامل ہونے کا ایک وسیلہ
قرار دیتے تھے اور اسے اپنے لیے توشہء آخرت سمجھتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ
ہر مسلمان کو یہ جان لینا چاہیے کہ دین تو مکمل طور پر عشق رسولﷺ میں سر
شار ہونے کا نام ہے ۔
سلطانیء جمہور کے وہ بہت بڑے حامی تھے۔ اُنھوں نے تحریکِ پاکستان میں بھر
پور حصہ لیا اور پاکستان بنتے دیکھا۔تقسیمِ ہند کے موقع پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن
نے اپنی شقاوت آمیز نا انصافیوں سے مسلمانوں کو جو ناقابلِ تلافی نقصان
پہنچایاوہ اس پر بہت دل گرفتہ رہتے اور اکثر کہا کرتے کہ ظالم و سفاک ،موذی
و مکار استعمار ی طاقتوں کی سازش سے مسلمانوں پر کوہِ ستم ٹوٹا۔ان کے چشم
دید واقعات کے اثرات زندگی بھر ان کے مزاج پر حاوی رہے اور وہ قوم کو عالمی
سامراج کے مکروہ عزائم سے متنبہ کرتے ر ہتے۔
اردو نثر میں غالب کی نثر کو وہ پسند کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1857کی
ناکام جنگ ِ آزادی کے بعد سر سید احمد خان اور ان کے رفقائے کار نے اصلاح
اور مقصدیت کے لیے جس سلیس اور عام فہم اردو نثر کو اپنایا اس کے سوتے غالب
کی نثر ہی سے پُھوٹتے ہیں۔سر شار صدیقی کی نثر میں بھی یہی رنگ اور آ ہنگ
جلوہ گر ہے۔ان کی تخلیقی نثر میں سادگی ،سلاست ،قطعیت اور مضمون آفرینی کا
کر شمہ دامن ِدِل کھینچتا ہے۔ان کی نثر میں سنجیدگی،مقصدیت ،اصلاح اور
تعمیر ِ نو قاری کو فکر و خیال کی ایک ایسی وادی میں پہنچا دیتی ہے جہاں
فطرت خو بہ خود لالے کی حنا بندی کے عمل میں پیہم مصروف دکھائی دیتی ہے۔سچے
جذبات کی مسحور کُن عطر بیزی سے قاری کا قریہء جاں معطر ہو جاتا ہے اور
ہجومِ یاس میں بھی اس کے دِل کی کلی کِھل اُٹھتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
علی گڑھ تحریک سے انھوں نے جو اثرات قبول کیے وہ ان کے اسلوب میں شامل ہو
گئے۔ان کی نثر کو تخلیقی نثر اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی نثر
کو ایک نیا آ ہنگ عطا کیا اور اپنی نثر کو وہ نہج عطا کی کہ یہ نثراپنے
دامن میں جہاں علمی و ادبی شان لیے ہوئے ہے وہاں اس نے صحافتی رنگ سے بھی
مکمل قطع تعلق نہیں کیا بل کہ ان میں پائی جانے والی حدِ فاصل کو بر قرار
رکھتے ہوئے ایک شانِ دِل ربائی کے ساتھ منفرد انداز میں اپنے اشہبِ قلم کی
جو لانیا ں دکھائی ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ سر شار صدیقی کی نثر میں
کہیں سوز و سازِرومی کی کیفیت ہے تو کہیں پیچ و تابِ رازی کا اندازجو ہر
حال میں بہار کے اثبات کی نوید ہے۔
سرشار صدیقی نے اپنی بستی بہت دور بسا لی ہے جہاں اب تو یاد رفتگاں کی بھی
تاب نہیں ۔ہماری محفل کے کتنے بڑے آفتاب و ماہتاب دیکھتے ہی دیکھتے غروب ہو
گئے اور دنیا بے بسی کے عالم میں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ہم اپنے رفتگاں
کو یاد کر کے اپنے دلِ حزیں کو ان کی یاد سے آباد رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔اﷲ
کریم سر شار صدیقی کو جوار رحمت میں جگہ دے اوران کی لحد پر آسمان شبنم
افشانی کرتا رہے۔موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے ،تھوڑا سا دم لے کر سب کو اگلی
منزل کی جانب جانا ہو گا۔موت سے کسی کو رستگاری نہیں ۔موت ایک اٹل حقیقت ہے
جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
روز آوازہ لگاتی ہیں پُرانی قبریں
زندگی خاک بنا کر ہمیں کیا بُھول گئی |