زندگی اور انسان ہمیشہ نا معلوم رہے ہیں اور ہمیشہ نا
معلوم ہی رہیں گے۔ان میں سے کسی ایک کی کھوج دراصل دوسرے کی کھوج ہے۔اسی
کھوج میں نا معلوم زمانوں سے لے کر آج تلک بے شمار تصانیف معرضِ وجود میں
آئی ہیں اور نا معلوم کہ مذید کیا کچھ لکھا جانا باقی ہے۔ لیکن ایک بات
حتمی محسوس ہوتی ہے کہ زندگی اور انسان کبھی بھی معلوم دنیا کا مکمل طور پر
حصہ نہیں بنیں گے۔ انسان اور زندگی ایسے سمندر ہیں جن سے ہمیشہ نئی نئی
دریافتیں ہوتی ہی رہیں گی۔ہم انسان اور زندگی کے بے شمارپہلوؤں میں سے ایک
پہلو جسے احساس کا نام دیا جاتا ہے پر بات کرنے کی جسارت کریں گے۔
اگرغور کیا جائے تو زندگی احساس کا دوسرا نام لگتی ہے۔ زندگی وہی کچھ تو ہے
جیسے ہم سمجھ لیں۔ دوسرے الفاظ میں جیسا ہمارا احساس ہو گا ویسی ہماری
زندگی ہو جائے گی۔تمام بیرون اندرون میں احساس کی کیفیت اختیار کر لیتا
ہے۔جیسے ہماری آنکھیں بے شمار چیزیں دیکھتی ہیں:بڑی بڑی عمارتیں، پہاڑ،
دریا، صحرا،سونا چاندی، جواہرات،محلات، الغرض بھانت بھانت کی اشیا نظر سے
گذرتی ہیں۔ یہ سب چیزیں ہمیں کیا دیتی ہیں ؟ جواب واضح طور پر احساس ہی ہو
گا۔
اب جو چیزیں ہماری ہیں یا کسی بھی اور انسان کی ہیں تو کیا ہم یا وہ انسان
ہر وقت ان چیزوں کو اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے۔ بالکل نہیں۔ہمارے یا اس انسان
کے پاس کیا چیز ہر وقت رہتی ہے یا رہ سکتی ہے؟ وہ چیز ہے احساس۔ہم اگر کسی
چیز کے مالک ہیں یا ہوتے ہیں تو وہ دراصل احساس ہی ہوتا ہے۔ باقی ہم کسی
چیز کے مالک نہیں ہوتے۔ چیزیں تو دنیا کی ہیں اور دنیا میں ہی رہ جاتی ہیں،
اگر وہ ہماری ہوں تو پھر ہمارے ساتھ ہی جائیں،جبکہ ہوتا یہ ہے کہ ہم چلے
جاتے ہیں اور چیزیں کوئی اور لے جاتا ہے، یا چیزیں اس کے پاس چلی جاتی ہیں۔
ہم جیسے کسی اسباب کے بغیر آئے تھے ویسے ہی چلے جاتے ہیں، تو ہمارا کیا
ہوا۔ صرف اور صرف احساس۔
ایک بادشاہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ ایک بہت بڑی ریاست اس کی اور بس اسی کی
ہے۔ جبکہ وہی ریاست پہلے بھی کسی اور کی رہی ہوتی ہے اور اس کے بعد بھی اس
نے کسی اور کا ہونا ہوتا ہے۔اس کے پاس صرف اور صرف احساس ہوتا ہے کہ یہ چیز
میری ہے، جبکہ اس کا ہوتا کچھ بھی نہیں۔انسان کی سب سے زیادہ اپنی دولت اگر
کچھ ہے تو وہ اس کی یادیں ہیں جن کو وہ اپنے ذہن کی تجوری میں محفوظ رکھتا
ہے ان کے علاوہ ہر دولت اس کو اس وہم میں مبتلا کرتی ہے کہ وہ اس کی ہے یا
نہیں ہے۔ایک محل میں سکون ہو ضروری نہیں اور اکثر ہوتا بھی نہیں، ایک
جھونپڑی میں محبت نہ ہو ضروری نہیں اور اکثر ہوتی بھی ہے۔اب جھونپڑی والے
کا احساس یہ ہے کہ اس کے پاس جھونپڑی ہے جبکہ محل والے کا احساس یہ ہے کہ
اس کے پاس محل ہے۔ اصل میں جھونپڑی والا، اور محل والا اپنے اپنے احساس کے
مالک ہیں نہ کوئی جھونپڑی کا اور نہ ہی کوئی محل کا مالک ہے۔کیونکہ یہ
دونوں چیزیں بیرونی ہیں اور ہم ان کے مالک ہونے کا احساس اندرونی طور پر
رکھتے ہیں۔اور اندرونی طورپر تو صرف اور صرف احساس ہی رکھا جا سکتا ہے۔
پھر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اپنی ذہنی تخلیقات کے مالک ہیں کیونکہ وہ ہم نے ہی
کی ہیں۔دراصل یہ بھی سوائے احساس کے اور کچھ نہیں۔ ہم اپنے الفاظ کے بھی
مالک نہیں ہوتے، اور اپنے اظہار کے بھی نہیں۔الفاظ ہمیں معاشرہ دیتا ہے اور
اظہار قدرت کی طرف سے ہمارے ذہن کے ذریعے ہو جاتا ہے۔ہم نہ الفاظ کے خالق
ہوتے ہیں اور نہ ہی اظہار کے۔ ہم صرف اور صرف ایک واسطہ یا ذریعہ ہوتے ہیں
اور قدرت ہمیں اپنے مقصد کے لئے منتخب کر لیتی ہے۔اس صورت میں بھی ہم صرف
اور صرف احساس کے مالک ہوتے ہیں کہ یہ شعر یا تحریر ہماری ہے۔جبکہ ہم اسے
خود ہی سپردِ قلم اور پھر سپردِ دنیا کر چکے ہوتے ہیں۔جو چیز ہم کسی کو دے
چکے ہوں وہ ہماری تو نہیں رہتی اگر کچھ رہتا ہے تو بس احساس رہتا ہے کہ یہ
چیز ہماری تھی۔
اب اگر ہم اس حقیقت کو کچھ وقت کے لئے قبول کر لیں کہ زندگی اور دنیا در
اصل احساس کے دوسرے نام ہیں تو ہم بہت سی باتیں بڑے آرام سے سمجھ جائیں گے۔
قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اگر میرا شکر کرو گے تو میں اپنی
نعمتوں میں اضافہ کر دوں گا۔ اب شکر بالکل ایک احساس کا نام ہے۔ایک شخص کے
پاس دنیا کی ہر نعمت بھی ہو اور وہ پھر بھی کچھ نہ ہونے کا رونا روئے تو یہ
بات اس کے احساس کی ہے کہ اس کا احساس بیمار ہے اور وہ اپنے احساس میں بہت
غریب ہے اور ایک دوسرا شخص بھی ہو سکتا ہے کہ دنیاوی لحاظ سے کچھ بھی پاس
نہ ہونے کہ باوجود اﷲ کا شکر گذار ہو، قناعت بھی تو ایک احساس کا نام ہے کہ
جو کچھ ہے کافی ہے، نا شکری بھی ایک احساس ہے۔شیخ سعدی فرماتے ہیں:
تونگری بہ دل است نہ بہ مال
سیادت بہ عقل است نہ بہ سال
دل اور عقل اندرونی چیزیں ہیں جبکہ مال اور سال بیرونی چیزیں ہیں۔اصل بات
اندر کی ہے باہر تو اندر کی تسلی یا احساس کے لئے ہوتا ہے۔
اگر ہم اپنے احساس امیر کر لیں یعنی جو کچھ ہو اس پر قناعت اختیار کر لیں
تو کتنی فکریں اور پریشانیاں ہمارے دروازے سے اٹھ کے جا سکتی ہیں۔اس کے
برعکس اگر ہم اپنے احساس کو غریب کر لیں تو کتنی فکریں اور پریشانیاں
دوسروں کے حصے سے ہمارا مقدر بن سکتی ہیں۔
باہر کی دنیا کا اپنا کوئی رنگ نہیں اس کو جو بھی رنگ دینا ہے ہمارے احساس
نے دینا ہے۔ اگر ہم اپنا احساس مضبوط بنیادوں پر استوار کریں گے تو زندگی
صحت مند اور خوبصورت نظر آئے گی۔ اور اگر ہم اپنا احساس ذہنی کمزوریوں کی
نذر کر دیں گے تو زندگی اجیرن ہو جائے گی۔غالبؔاور مومنؔ نے اپنے احساس کو
کس خوبصورتی سے محرومی سے بچائے رکھا ہے:
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے (غالبؔ)
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا (مومنؔ)
تمام تصوف نے بھی اسی احساس یا انسان کے اندر کی صفائی کرنے کی سعی فرمائی
ہے۔ صوفیائے عظام کا کلام اس سلسلے میں مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ تمام تصوف
انسان کے ناطن یعنی احساس کا پاکیزگی، مضبوطی، اور صفائی پر مرکوز ہے۔ اگر
اندر سے انسان انسان نہیں بنا تو باہر سے کھوکھلے دعوے کرنے کی کیا
ضرورت۔انسان دراصل وہی ہے جو وہ سوچتا ہے، انسان اپنے عمل میں نہیں اپنی
سوچ میں ہے، عمل تو اکثر و بیشتر سوچ کے متضاد ہوتے ہیں، جس کو عرفِ عام
میں منافقت اور سیاست کا نام دیا جاتا ہے۔ جبکہ اصل انسان تا اپنے ذہن کے
بند خانوں میں درجنوں نقاب پہنے چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ اصل میں احساس اس
انسان نے تخلیق کرنا ہے جو باہر سے نظر نہیں آتا لیکن اندر اسی کی حکومت
اور حکمت چلتی ہے۔اس اندر کے انسان کے احساس کو ٹھیک کرنا اصل مسئلہ ہے،
باہر سے تو سبھی مومن ہی لگتے ہیں۔
جب تک دل درست نہیں ہوتے دنیا درست نہیں ہو سکتی۔مغرب نے کئی ایک تجربات کر
کے دیکھ لئے ہیں مسائل جوں کے توں ہیں۔باہر کی تبدیلی بہت آچکی لیکن اندر
کا انسان ابھی انسان نہیں بن پایا:
اندر سے خستگی ہے وہی اپنی روح کی
باہر سے خوب رنگ کیا ہے مکان کا
ہماری ناقص رائے کی سوئی گھوم کے جلد ہی اسی نکتے پے آجاتی ہے کہ انسان
اپنے اندر کی اصلاح اور فلاح کے لئے کوشش کرے۔ باہر کی دنیا وقت کے ساتھ
ساتھ بدلتی چلی جاتی ہے۔ اور ہمیشہ نا مکمل ہی رہتی ہے لیکن ہمیں اپنے
احساس کو مطمئن، اور ثابت اور مستحکم رکھنے کی جدوجہد کرنی چاہئے۔ |