میرے کان یہ سن سن کرپک گئے ہیں کہ پاکستان بنانے میں کسی
مخصوص گروہ کا کردار تھا ،ہمارے آبا و اجداد نے قربانیاں دیں ، لاکھوں
انسان قتل ہوئے گھر بار چھوڑا وغیرہ ۔ مغربی پاکستان کو گھر بیٹھے بیٹھے مل
گیا تھا ،پاکستان بنایا تھا پاکستان بچائیں گے ۔ کہ نعرے سن سن کر ایسا
لگتا ہے کہ برصغیر کی آزادی میں کسی دوسری قومیت کا ہاتھ ہی نہیں تھا ، وہ
تو نرے جاہل اور دیہاتوں میں رہنے والے لوگ تھے ، صبح اٹھے تو قائد اعظم نے
پاکستان کے قیام کا اعلان کردیا ۔برصغیر کی تحریک آزادی میں جبپختونوں کے
کردار کو مکمل نظر انداز کردیا جاتا ہے لیکن اس حوالے سے تاریخ کامطالعہ
کرتے ہیں تو ہمیں سب سے زیادہ واضح کردار پختون قو م کا نظر آتا ہے ،
برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی روشنی پھیلانے کا سہر ابے شک محمد بن قاسم
ہے لیکن ان کے ادھورے مشن کو مکمل کرنے کا مکمل کریڈٹ صرف پختونوں کو جاتا
ہے محمد بن قاسم کی جلائی گئی اسلام کی شمع مشہورشہاب الدین غوری نے سارے
ہندوستان میں پرتھوی راج کو شکست دے کر رکھی ہی نہیں بلکہ باقاعدہ طور
پرپہلی اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی ، اس سے پہلے محمود بنغزنوی نے بھی
ہندوستان فتح کیا تھا مگر تخت دہلی ان کے قدم جم نہ سکے ، یہ پختون ہی تھے
جن کی بدولت دہلی پر مسلمانوں نے سات سو صدیوں پر محیط حکومت کی اس میں
ساڑے تین سو سال پختونوں کی حکمرانی کے شامل ہیں۔ مسلمانوں کی اتفاقی کی
وجہ سے مغل حکمران دہلی تک محدود ہوئے۔جنرل بخت خان ایک حریت پسند پختون
تھا ان نے پوری قوت سے1857کی جنگ آزادی میں روح پھونکنے کی کوشش کی لیکن
کمزورر قیادت کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا ۔جنرل بخت خان نے مغل بادشاہ کی
بہت منت سماجت کی لیکن بوڑھا لاغر بادشاہ میں خوئے مردانگی ختم ہوچکی
تھی۔1857 سے 1947تک کے نوے سال کے عرصے میں مسلمانانِ پاک و ہند کو یہ
احساس ہوا کہ انگریزوں نے انھیں ہندوؤں کی طرح غلام بنایا ہوا ہے۔دل چسپ
بات یہ ہے کہ ہندوؤں کی چالاکیوں کے سبب جب مسلم لیگ 1906ء میں بنی تو اس
میں علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم جیسے رہنماتو تھے ہی لیکن انھیں سرکردہ
پختون رہنماؤں سردار عبدالرب نشتر ، مولانا محمد علی جوہر ، مولانا ظفر علی
خان وغیرہ کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی۔باچا خان بابا کی تحریک کو نظر انداز
نہیں کیا جاسکتا جہاں انھوں نے پختونوں سیاسی شعور دیا اور حریت پسند رہنما
پیدا کئے جس کے نتیجے میں انگریزوں کو برصغیر پاک و ہند سے جانا پڑا تو اسی
تحریک نے پشتو زبان اور پشتو ادب میں ایک نئی جہت بھی دی ، ہفتہ وار’
ؔپختون‘ رساے میں شعر او ادبا کی حوصلہ افزائی کی اور ا نکی تحریروں کو
شائع کیا،تحریک آزادی میں جہاں جہاں سیاسی طور پر پختونوں کاکردار کا جائزہ
لیتے ہیں تو ان بڑے بڑے ناموں میں سیاسی ورکروں کیساتھ ساتھ منصفیں بھی تھے
مثلا خدائی خدمت گار کے سرگرم فرنگی سامراج کے مظالم کو ڈراموں کیذریعے
اجاگر کیا کرتے تھے جو پختونوں کے مختلف علاقوں میں سٹیج ہو اکرتے ، مشہور
و معروف ادیب ڈاکٹر میاں سہیل انشا ء نے اپنی کتاب Boughs & Boiquests میں
اس کا ذکر کیاہے۔پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے والے اور نئی نسل نہیں جانتی
کہ پاکستان کی تحریک آزادی میں امیر حمزہ شینواری بابائے پشتو غزل ، معروف
محقق و نقاد دوست محمد خان کامل مہمند ، علامہ عبدالعلی اخوانزادہ ، فجل
اکبر احمد غازی، خان میر بلالی ، سابق گورنر محمد اسلم خان خٹک ، عبدالحلیم
، فجل اکبر بے غم ،سابق گورنر ارباب سکندر خان خلیل ، ارباب خان ارباب ،
عبدالزاق حکمت ، میر احمد صوفی ، قمر زمان راہی اور پیر گوہر وپ پختون حریت
پسند ہیں جنھوں نیمسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ
لیا۔حاجی صاحب ترنگزئی ، عمرخان ایپ ، عبدالغفور کاکاجی اور ملا نج الدین
المعروف اڈے ملا صاحب ، میاں گل عبدالودود اور سرتور فقیر وغیرہ وہ حریت
پسند ہیں جنہوں نے انگریزوں کو ناکوں چنے چبوائے۔لیونے فلسفی’ غنی خان بابا
‘کی اس نظموں نے تو سارے پختونخوا میں ایک دھوم مچا دی تھی۔یہ صرف
بٹوارہندوستان کے ان چیدہ چیدہ رہنماؤں کا ذکرہے جنھوں نے چودہ اگست 1947کو
پاکستان حاصل کیا لیکن پختونوں کو ہمیشہ غدار سمجھا جاتا رہا اور نام نہاد
قوم پرست اور لسانی جماعتیں پروپیگنڈا کرتی رہیں کہ پاکستان کی آزادی میں
پختونوں کا کوئی کردار نہیں تھا جبکہ حقیقت یہی ہے کہ پختونوں کی حریت
پسندی کے سبب انگریز ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور ہوا ۔ 1947میں والئی سوات
میاں گل عبدالودود نے پاکستان سے الحاق کی درخواست کی لیکن اسے پاکستان میں
انتظامی طور پر شامل نہیں کیا گیا ، والی سوات نے پاکستان سے محبت
میں1947میں پاکستان کو جنگی جہاز تحفے میں دیا جس پر میاں گل جہانزیب کا
نام لکھا ہوا تھا اور پاکستان کا جھنڈا پرنٹ تھا۔بلا شبہ پاکستان کیلئے
لاکھوں انسانوں نے قربانیاں دیں ، لیکن صرف نعرے لگانے سے پاکستان آزاد
نہیں ہوا تھا بلکہ بر صغیر کی آزادی کیلئے مسلح جدوجہد بھی کی گئی تھی جس
کا سہرا پختونوں کے سر بھی جاتا ہے ، مسلم لیگ صرف چند افراد پر مشتمل نہیں
تھی بلکہ اس میں نامور اکابریں بھی شامل تھے ، جو پختون تھے ، پاکستان بننے
کے بعد بھی پختونوں نے جانثاری اور حب الوطنی عظیم الشان مثالیں قائم کیں
۔بعض سیاسی ، لسانی اور قوم پرست جماعتوں کے نزدیک پختونوں کا کردار تحریک
آزادی سے واجبی سا ہے ،لیکن وہ تاریخ سے نا بلد معلوم ہوتے ہیں یا پھر
پختونوں کے برصغیر کی آزادی کیلئے قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے شرماتے ہیں۔
سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین ہندوستان میں مسلمانوں کی جدوجہد کا ایک
درخشندہ باب ہے بعد ہر تحریک سید احمد شہید سے متاثر ہوکر سارے ہندوستان
میں چلی۔سید احمد شہید کی شہادت کے بعد بھی انگریزوں کے خلاف بچ جانے والے
مجاہدین نے سرحدی قبائلی علاقوں میں مورچہ بند ہوکر پہلے سکھوں کے خلاف
جدوجہد کی اور پھر ۱۸۴۹ ء میں انگریزوں کیخلاف صوبہ سرحد پر چند غداروں کی
وجہ سے قابض ہونے کے باوجود گوریلا جنگ جاری رکھی صوابی کے سیر امیر
مشہوربہ کوٹھا بابابجی ،ستھانہ اور ملکا کے سادات خاندان بھی مجاہدین صوبہ
سرحد میں مجاہدین کے شانہ بہ شانہ لڑے۔ اگر صوبہ سرحد کے لوگ مجاہدین کا
ساتھ نہ دہتے تو کیا وہ اپنی تحریک 1947تک جاری رکھ سکتے تھے۔مولاناعبدا
لرحیم ، قاضی میاں جان ، میاں عبد الجعفر تھانسری ، شیخ محمد شفیع ، مولانا
یحی علی کو موت کی سزا دیکر جزائر انڈہمان جلا وطن کیا گیا ، 1868میں صوبہ
سرحد کیتاریخ میں پندرہ ہزار پر مشتمل انگریزی فوج نے کالاڈھاکہ (موجودہ
تورغر) مہم میں حصہ لیا ۔موضوع بہت طویل ہے اور برصغیر کی آزادی کیلئے حریت
پسند پختونوں کی قربانیوں کی کوئی مثال نہیں دے سکتا ، یہ صرف ان لوگوں
کیلئے مختصر جواب ہے جو پختونوں کو پاکستان کے کسی بھی حصے میں جانے سے
روکتے ہیں، دہشت گرد سمجھتے ہیں ْ ریاست سوات کو1929میں انگریز حکومت نے
میاں گل کی ولی عہدی کی حیثیت سے قبول نہیں کیا تھا۔پاکستان نے بھی 1947
میں سوات سے الحاق نہیں کیا 1969میں پاکستان کی دیگر ریاستوں کی طرح ریاست
سوات بھی پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت مدغم ہوگیا اور پہلی بار ڈپٹی کمشنر
اور ضلعی انتظامیہ پر مشتمل دیگر اہل کاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی گو
کہ سوات کی عوام کی اس نئے نظام سے شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے لیکن
پاکستان کی محبت میں سب کچھ قبول کیا۔انھیں ایسالگا کہ جیسے کسی نو آبادی
نظام سے واسطہ پڑ گیا ہو۔والئی سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب کی برسی
5اکتوبر کو منائی جاتی تھی لیکن عید کی وجہ سے 12اکتوبر کو منائی جا رہی ہے
تمام اظہارئے کا مقصد نو جوان کو اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ انگریزوں سے
آزادی کیلئے پختونوں کے کردار کو نظر کرنا بے انصافی ہے ، پختون محب الوطن
ہیں اور جانثار کرنیوالی قوم ہے۔ آج بھی جنگی مہلک آلات کے نام پختونوں کے
نام پر رکھے جاتے ہیں ،کیا ان حریت پسند رہنماؤں کے ناموں کالجز اور
یونیورسٹوں کے نام کیوں نہیں رکھے جا تے تاکہ قوم آگاہ ہ نہ ہو۔ پختون
اسلاف کے کارنامے نصاب میں شامل ہوں تاکہ وہ آگاہ ہوں کہ پختون بھی
پاکستانی محب الوطن ہے- |