ایک عام سا جملہ ہے مگر ہے بہت قیمتی اور بہت خاص
صرف خا ص لو گوں کے لیئے ا نسان ا پنے لباس سے نہیں کردار سے پہچا نا جا تا
ہے بد کر دار انسان کی د نیا کے کسی بھی معا شرے میں کبھی عزت نہیں ہو تی
خوا ہ معا شرہ کتنا ہی پست حال ہو جا ئے ایک بد کردار انسان اس میں ایسے وا
ضح ہو جا تا ہے جیسے دودھ میں مکھی اور نہ ہی ایسے انسان کے لیئے جنت میں
در جے بلند ہو تے ہیں ایک آ چھے کردار کا ا نسان کبھی کسی دوسے کے کردار پر
ا نگلی نہیں اٹھا تا کیو نکہ وہ جا نتا ہے ا گر میں ایک انگلی دوسروں کی جا
نب بڑھا وں گا تو با قی کی چار انگلیاں اس کے گر یبان کی طرف اشا رہ کر یں
گیں ا چھے کردار کا انسان کبھی ا پنی تعر یف نہیں کر تا یعنی کہ اپنے منہ
آپ میاں مٹھو نہیں بنتا بلکہ جب لوگ اس کے اسیر ہو جا تے ہیں تو تب وہ کہتا
ہے کہ لو گو میں بھی تمہا ری طرح کا انسان ہوں میر ے نقش قدم پر چلو سیدھی
راہ پاو گے ان صاحب کردار میں سے سب سے اعلیٰ و او لیٰ ا اول آپﷺ کی ذات
اقدس ہے پھر دوسرے پیغمبروں کی پھر صحا بہؓ کی پھر تا بعین کی پھر تبع تا
بعین کی اور پھر ان صو فیا اکرام اور بز ر گوں کی جو ہمیں ہمیشہ آ چھا ئی
کا درس دیتے ر ہے اور برا ئی سے رو کتے ر ہے پہلے زما نے میں لوگ ا علیٰ
کردار اور علماء حق کو اس طر ح تلاش کر تے تھے جس طر ح آجکل لوگ بد کردار
فحش اور بد سیرت لوگوں کے پیچے پا گل ہیں ا یسا لگتا ہے کر دار کی قدر ہی
کم ہو گئی ہے ا چھے کردار کے لوگ نا یاب ہو تے جا رہے ہیں جیسے ہیرے جوا
ہرات نا یاب ہو گئے ہیں اسی طرح ایسے لو گوں میں بھی کمی ٓگئی ہے اسی وجہ
سے ہما رے ارد گرد برا ئی زیا دہ دیکھنے میں ٓتی ہے گفتار کے غا زی تو اس
دور میں بے شمار مل جا ئیں گے مگر کردار کے غازی بہت نا یاب ہو چکے ہیں
ضرورت اس امر کی ہے ٓج ہی سے ہم ان با کردار عفتو عصمت کے پیکر شرم و حیا
کے مجسموں کو تلاش کع نا چا ہیئے جو اس میڈ یا اور سو شل میڈ یا کی دھول
میں دب کر رہ چکے ہیں جنکی با تیں اب ہمیں فر سودہ لگنے لگی ہیں یہ ہی
ہمارا اصل ہے اور ایک حد یث کا مفہوم ہے کہ انسان اپنے اصل کی ترف لوٹ ہی
آتا ہے اے خدا ہمیں بھی ہما رے اصل کی جا نب لو ٹا دے ہمیں با کردار لوگوں
کی صف میں شا مل کر لے کیو نکہ
گفتار کے ہم غا زی تو بنے کردار کے غا زی بن نہ سکے |