ملا لہ ۔ ملا ل آ خر کس کا؟
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
جب ملالہ پر قاتلانہ حملہ کیا
گیا اس حملے میں اس کی دو اور ساتھی طالبات بھی شدید زخمی ہوئیں۔ اللہ کا
شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ملالہ کو فوری طور پر علاج کی بہترین
سہولیات فراہم کی گئیں۔ یہاں تک کہ برطانیہ کے ایک ہسپتال میں اس کا علاج
کیا گیا۔ یہ سوال بار بار اٹھایا گیا کہ جب ملالہ علاج کے لئے برطانیہ جا
سکتی ہے تو باقی دو کو بھی کیوں نہیں لے جایا گیا۔ انصاف کا تو تقاضہ یہ ہی
تھا۔ مگر چونکہ ملالہ ایک شخصیت کے روپ میں خاص مقام حاصل کر چکی تھی اس
لئے اس کو یہ سہولت فرہم کی گئی۔ جب بھی کسی اہم شخصیت پر حملہ ہوتا ہے تو
دنیا کا یہ ہی دستور ہے کہ اسے اہمیت دی جاتی ہے ۔جبکہ باقی سب کے ساتھ ایک
عام انسان والا برتائو کیا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ عمل قابل تحسین نہیں ہے مگر
حقیقت یہ ہی ہے۔
اس قاتلانہ حملہ کے بعد ملالہ کو بین الاقوامی شہرت کی وہ بلندی حاصل ہوئی
جو آج تک کسی بھی کم عمر پاکستانی کو حاصل نہیں ہوئی ٹیلی ویژن اخبارات اور
عام لوگوں کی گفتگو کا موضوع سخن ملالہ ہی ٹہری۔ اگر طالبان ملالہ پر اس
طرح سے حملہ نہ کرتے تو کیا ملا لہ اتنی جلدی شہرت کی ان بلندیوں کو چھو
سکتی تھی۔ گویا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ طالبان نے ہی ملالہ کو بین
الاقوامی شہرت دلوانے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے اس لئے کہ طالبان تو
پہلے سے ہی بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ ملالہ پر ہونے والے قاتلانہ
حملے پر امریکہ کے صدر، وزیر خارجہ، میڈونا، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل،
کے علاوہ بہت سی دیگر شخصیات مذمت کرتے اور اس کے لئے خیر سگالی کا پیغام
دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بہت سے لکھنے والے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا دنیا میں ہزارں لاکھوں بچے
نہیں مرتے۔ کیا پاکستان میں ڈرون حملوں میں معصوم بچے اپنی جانوں سے ہاتھ
نہیں دھوتے۔ کیا فلسطین ،کشمیر اور دیگر ممالک کے بچے ان کی نظروں سے اوجھل
ہیں۔ کیا اسرئیل کے مظالم جو وہ معصوم لوگوں پر کرتے ہیں ان سب کو نظر نہیں
آتے۔
یہ آپ بیتی ہے پا کستا ن سے ا مر یکاپہنچنے والی نبیلہ کی۔ جو اس نے ا مر
یکی نگر یس ر ہنما و ں کو سنائی۔ جس کو سن کر کا نگرسی رہنما بھی اپنے آ
نسو و ں پر قا بو نہ ر کھ سکے ۔
24ا کتو بر 2012کا خو شگو ا ر د ن تھا ۔میر ی د ا د ی گھر کے صحن میں سبز ی
بنا ر ھی تھی۔
میر ی بہن ہم سب میں مٹھا ٰئی تقسیم کر ر ی تھی۔مو سم بہت خشگو ا ر تھا ۔آ
سما ن با لکل صا ف تھا ۔ کہ ا چا نک آ سما ن پر ا یک کھلو نا سا نظر آ یا ۔
ا و ر کچھ ہی د یر میں ہما ر ے گھر پر مز ا یل گر ا د یا گیا ۔ہما ر ے سا ر
ے گھر میں تبا ہی کے آ ثا ر نظر آ نے لگے ۔مجھے او ر میرے گھر کے بہت سے لو
گو ں کو ا نتھا ئی ز خمی حا لت میں ہسپتا ل پہنچا دیاگیا ۔ا و ر صحن میں
سبز ی بنا تی میر ی د ا د ی مو قع پر ہی د م تو ڑ گئی۔
قا رئین ! ا گر نبیلہ کا ملا لہ سے مو ا ز نہ کر یں تو کیا یہ ملا لہ سے کم
ظلم کا شکا ر ہوئی ۔ملا لہ کے سر پر گو لی لگتی ہے تو ا س کو پو ر ی د نیا
میں ہیروئین بنا کر د کھا یا جا تا ہے ۔ا س کو پا کستا ن د شمن ا مر یکا
پنا ہ بھی د یتا ہے۔ ا و ر ملا لہ ڈے بھی منا یا جا تا ہے۔ا و ر ملا لہ کو
مختلف بین ا لااقوامی ا یو ا ر ڈ ز سے بھی نو ا ز ا جا تا ہے ۔
یہ تما م ڈ ر ا مہ کر کے بھی جب غیر ملکی ا یجنسیا ں پا کستا ن میں بسنے وا
لو ں کے تا ثر ا ت تبد یل نہیں کر سکیں تو ملا لہ کی طر ف سے ( میں ہو ں
ملا لہ) لکھو ا کر ا یک نیا ڈرامہ ر چا یا جا تا ہے ۔یقینا جس کتا ب کے
پیچھے سو چ کسی ا و ر کی تھی ا و ر ا س کتا ب کا لکھا ر ی بھی کو ئی ا و ر
تھا ۔ملا لہ کو یہ تما م پر و ٹو کو ل صر ف ا س لیے کہ وہ ا مر یکا د شمن
طا لبا ن کے خلا ف بولتی ہے ۔ وہ د ا ڑھی وا لو ں سے نفر ت کر تی ہے وہ پا
کستا ن کو عو ر تو ں کے لیے جیل قر ا ر د یتی ہے
وہ سلما ن ر شد ی کو ( شا تم ر سو ل ﷺ )ما ننے سے ا نکا ر کر تی ہے ۔
یا شا ید ا سلیے بھی کہ ا س کا با پ ا مر یکن CIAکے لیے کا م کر تا ہے ۔
یقیناملا لہ تم بھی ا ن سب چیز و ں سے مکمل طو ر پر و اقف ہو گی جو تم سے
کر ا وئی جا رہی ہیں ۔
قا ر ئین شا ید آ پ میں سے بہت سے لو گ ملا لہ کو پا کستا ن کے لیے آ ئیڈ
یل سمجھتے ہو ں گے ۔لیکن ا گر ملا لہ اور ا س کا با پ پا کستا ن کے ساتھ ا
تنے ہی مخلص تھے تو ملا لہ کا نا م نو بل ا نعا م میں منتخب ہوتے ہی نوبل ا
نعا م لینے سے ا نکا ر کر د یتے ۔کیا ملا لہ تمہیں پا کستا ن میں نبیلہ
جیسے معصو م بچیو ں کے گھر و ں پر ہوتے ڈرون حملے د کھا ئی نہیں د یتے ۔کیا
تم ا پنی کتا ب میں ڈ ر و ن حملوں کا ذ کر کر نا منا سب نہیں سمجھتی تھی
۔نہیں ملا لہ واقعہ ا یسا کیو ں ہو گا ۔ تمہا ری تو پر و ر ش ہی د شمنا نِ
اسلام اورپا کستا ن کے سا تھ میں ہو ئی ہے۔لیکن ا صل با ت تو نبیلہ کی آپ
بیتی سے شروع ہو ئی تھی د نیا کے وہ تما م مما لک جنہو ں نے ملا لہ کوبطو ر
آئیڈیل پیش کیا وہ تما م کیو ں سو گئے ہیں۔ان کو نبیلہ کے خا ند ا ن پر ہو
نے والے ظلم کی آ و ا ز کیو ں سنا ی نہیں د ے رہی ۔وہ سب کیو ں نبیلہ کی بے
گنا ہ د ا د ی کے قا تلو ں کے خلا ف بو لنے کی ہمت نہیں ر کھتے ۔
ا قوا م متحد ہ کو آخر کیو ں ا س بچی کی ا ٓ و ا ز نہیں ا ٓ رہی ۔ آ خر کیو
ں سلا متی کونسل کو سا نپ سو نگھ گیا ہے ۔آ خر کیو ں ! ا قو ا م متحد ہ کو
ا و ر د نیا کے تما م بڑے مما لک کو ٹر ا نسپیر نسی ا نٹر نیشنل کی ڈ ر ون
حملو ں پر حیر ا ن کن ر پو ر ٹ نظر نہیں آ ر ہی۔یقینا یہ سب لو گ صر ف ا س
و جہ سے خاموش ہیں کہ مرنے وا لو ں کا سب سا بڑ ا قصو ر مسلما ن ہو نا ا و
ر ا س کے سا تھ سا تھ پا کستا نی ہو نا تھا۔
کیا ظا لم ا قوا م متحد ہ نبیلہ ا لر ّ حمن کوا قوا م متحد ہ میں خطا ب کی
ا جا ز ت دے گا ۔تا کہ نبیلہ بھی ا مر یکی ڈ ر و ن حملو ں کے ذ ر یعے ہو نے
و ا لے مظا لم کو پو ر ی د نیا کے سا منے بتلا سکے ۔ا و ر پو ر ی د نیا کے
سا منے ا پنے جذ با ت کا ا ظہا ر کر سکے ۔
نہیں ا یسے ہر گز نہیں ہو گا۔کیو نکہ ا قو ا م متحد ہ تو پا کستا نیو ں کے
حقو ق کے لیے با ت کر نا تو کیا با ت کر نے والو ں کو بھی پسند نہیں کر تے
۔یہ سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے ا قوا م متحد ہ مسلما نو ں کے حقو ق کا تحفظ
بھی کرے گا ۔سلا متی کو نسل میں بھی ہما ر ی سنو ا ی ہو گی ۔اور ا مر یکا
بھی اپنے سر کو جھکا لے گا ۔لیکن ا س سب کے لیے ہمیں ا یک ہو نا ہو گا۔تمام
ر ہنما و ں کو ا یک ہو نا ہو گا ۔تما م مسلم مما لک کو ایک ہو نا ہو گا ۔
ہما ر ے تما م حکمرا نو ں کو امر یکن کا نگر س کے ر ہنما و ں سے سبق
سیکھناھو گا ۔جس کے مطا بق پا کستا نی فو ج کے پا س ا تنی ٹیکنا لو جی ہے
کہ ڈرون کو پا کستا نی حدو د میں د ا خل ہو نے سے ر و ک سکے ۔ہما ر ے حکمر
ا نو ں کو ا یر ا ن کی مثا ل لیتے ہو ئے فو ج کو ڈ ر و ن ما ر گر ا نے کی
اجازت د ینی ہو گی ۔ ا و ر ا س سب کے سا تھ سا تھ عمر ا ن خا ن کو بھی میر
ا ن شا ہ میں ڈ ر و ن حملے کے بعد نیٹو سپلائی بند کر نے کا د عو ی پو ر ا
کر نا ہو گا ۔ ا و ر میا ں نوا ز شر یف کو عمر ا ن خا ن کے فیصلے کا خیر
مقد م کر تے ہو ئے و فا قی سطح پر بھی ا ن کا سا تھ د ینے کی حامی بھر نا
ہو گی ۔
آ ج بھی حو ا برہیم سا ا یما ں پید ا
آگ کر سکتی ہے ا ند ا ز گلستا ن پید ا
تا کہ ہم د نیا کہ بتلا سکیں ہم وا قعی ہی ا یٹمی طا قت ہیں ۔ہم کسی کے
غلام نہیں ۔ ہم نبیلہ کے خا ند ا ن جیسے تما م معصو م لو گو ں کا بد لہ
لینے کی ہمت رکھتے ہیں ۔ تو یقینا وہ دن دورنہیں جب نبیلہ جیسے کسی گھر ا
نے کو اپنے سا تھ ہو نے و الے ظلم کا ا نصا ف لینے کے لیے ا مر یکی کا
نگرسی رہنما و ن کے سا منے پیش نہیں ہو نا پڑے گا ۔
پا نی آ نکھ میں بھر کے لا یا جا سکتا ہے
ا ب بھی جلتا شہر بچا یا جا سکتا ہے
ہمارے کتنے ہی سیاست دان ایسے ہیں اور سیاست دان ہی کیا پاکستانی ایسے ہیں
جو کسی نہ کسی حوالے سے پاکستان کا نام بدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا
طالبان نے پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔۔؟ کیا وہ اسلام کو ایک امن پسند
مذہب کے طور پر روشناس کروا رہے ہیں۔؟ ملالہ نے تو کوئی سوئس اکائنٹ نہیں
کھولے۔ ملک میں کرپشن کون کرتا ہے، بجلی کا بحران کس نے پیدا کیا ہے؟؟
پاکستان کو دنیا کے کرپشن زدہ ملک کی فہرست میں ملالہ نے تو شامل نہیں کیا۔
پاکستان کے چند سادہ لوح عوام اور کچھ لکھاریوں کے پاس ایک الزام بہت آسانی
سے لگانے کے لئے ہوتا ہے۔ کہ یہ سب امریکہ کروا رہا ہے۔ یا اس کے پیچھے
یہودی ہاتھ ملوث ہے۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے اس بارے میں تو کچھ نہیں
کہا جا سکتا، مگر ایسا کہنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے اور سمجھتے کہ آخر آپ
اپنے ملک میں ایسے حالات کیوں پیدا کرتے ہیں
انصاف کے تقاضے کیوں پورے نہیں کئے جاتے۔ |
|