بھارتی ہٹ دھرمی برقرار....اقوام متحدہ بھی نظر انداز

پاکستان اور بھارت کے درمیان ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کی جانب سے وقفے وقفے کے ساتھ گولا باری کا سلسلہ جاری ہے۔ پیر کے روز بھی بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کی۔ جبکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کھل کر پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں۔ عوامی جلسے میں بھارتی افواج کو مخاطب کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نے حکم دیا کہ” پاکستان پر ایک ہزار گولے برساؤ، تا کہ وہ چلا اٹھے، پاکستان کو پتا چلنا چاہیے کہ وقت بدل گیا ہے، پرانی عادتوں کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہمارے جوانوں نے پاکستان کا منہ بند کر دیا ہے، بارڈر پر پاکستان کو منہ کی کھانی پڑی ہے، پاکستان کو بھاری نقصان پہنچایا جائے، جب گولے پاکستان پر بارش کی طرح برسیں گے تو وہ خود ہی چلائے گا“۔ اس بھارتی انتہا پسندی کے باوجود پاکستان کی جانب سے مسلسل معاملے کو امن و سلامتی اور مذاکرات کے ساتھ سلجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان نے سرحدی کشیدگی کی وجوہات کی جانب توجہ دلانے کے لیے دس اکتوبر کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو ایک خط بھی لکھا۔ پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی وخارجہ امور سرتاج عزیز کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی پر عالمی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا اور بھارت کو جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی اور سرحد پر بلااشتعال فائرنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ مراسلے میں یو این سیکرٹری جنرل کو اس امر سے آگاہ کیا گیا کہ ”لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر بھارت کی طرف سے جنگ بندی معاہدہ کی سوچی سمجھی خلاف ورزی کے باعث پیدا ہونے والی خطے کی سلامتی کی مخدوش صورتحال پر فوری طور پر توجہ دے کر اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر کے سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے بھارت نے پاکستان کے ساتھ روابط کے اعلانات کے برعکس پالیسی اختیار کی ہے۔ بھارت نے اب تک لائن آف کنٹرول پر 20، جبکہ ورکنگ باﺅنڈری پر 22 مرتبہ خلاف ورزی کی ہے، جس سے 12 شہری شہید اور 52 شہری اور 9 فوجی زخمی ہوئے ہیں، جبکہ بھارت اس سال جون سے اگست تک لائن آف کنٹرول پر 99 اور ورکنگ باﺅنڈری پر 32 دفعہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کر چکا ہے اور اس سال بھارت اب تک کنٹرول لائن پر 174 اور ورکنگ باﺅنڈری پر 60 مرتبہ سیزفائر کی خلاف ورزی کر چکا ہے۔ پاکستان اپنے دفاع کے حق کے تحت اس اشتعال انگیزی کا جواب دے رہا ہے، تاہم وہ صبر اور ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔“ اور اقوامِ متحدہ کے سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک یا پی فائیو کے سفیروں کو کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر موجودہ صورتِ حال پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے سیکورٹی کونسل کے مستقل رکن ممالک کے سفیروں سے بھی کہا کہ ”وہ بھارت پر جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کرنے اور پاکستان کے ساتھ بامعنی مذاکرات کرنے کے لیے زوردیں۔ “ لیکن معاملے کو سلجھانے کی اس پاکستانی کوشش کے جواب میں بھارت نے اقوام متحدہ سے تحقیقات کروانے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ” دونوں ممالک کے درمیان تنازعات شملہ معاہدے اور لاہور اعلامیے کے تحت ہی حل ہوں گے۔ تیسرے فریق کی مداخلت قبول نہیں۔“ جبکہ امریکی کانگریس کے ارکان سے ملاقات کے دوران وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھاکہ بھارت کی جانب سے خارجہ سیکرٹری مذاکرات کو منسوخ کرنا افسوسناک اور مایوس کن ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کی بنیاد اقوام متحدہ کی قراردادیں ہونی چاہئیں، مسئلہ کشمیر کے حل میں کشمیری عوام کی مرضی شامل ہونی چاہیے اور کشمیریوں کو بھی ضرور حصہ دار ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں کا خود احترام کرنا چاہیے اور اپنی قراردادوں پر عملدآرمد یقینی بنایا جائے، مسئلہ کشمیر کا وہی حل قابل قبول ہو گا جس پر پاکستان، بھارت اور کشمیری متفق ہوں۔ پاکستان اور بھارت صرف مذاکرات کے ذریعے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ سے تحقیقات کروانے کی تجویز کو مسترد کیے جانے سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور عسکری طاقت کے زعم میں کشمیر کو ہڑپ کرنے کا ہی نہیں، پاکستان کی سلامتی پر اوچھا وار کرنے کا بھی تہیہ کیے بیٹھا ہے۔ بھارت نے اس تاریخی حقیقت کو بھی نظر انداز کردیا کہ جموں وکشمیر کا مسئلہ وہ خود اقوام متحدہ میں لے کرگیا تھا اور سری نگر پر مجاہدین کی یلغار رکوانے کے لیے سلامتی کونسل سے سیز فائر کی قرار داد منظور کرائی تھی، جس میں واضح طور پر اس نے کشمیری عوام کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بعد میں وہ اس وعدے سے منحرف ہوگیا، مگر اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر آج بھی یہ مسئلہ موجود ہے۔ دونوں ملکوں میں دوطرفہ مذاکرات کی گنجائش افہام وتفہیم سے مسئلے کا حل نکالنے کا ایک راستہ ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اقوام متحدہ کا مسئلہ کشمیر سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ عالمی ادارہ اسے بات چیت کی میز پر لانے کا پابند ہے، لیکن بدقسمتی سے اقوام متحدہ چند بڑی طاقتوں کے آلہ کار بن کر رہ گئی ہے، جو اپنے مفاد میں اس سے جو فیصلہ چاہے کروالیتی ہیں اور اس پر عملدرآمد بھی ہوجاتا ہے اور 66 سال بعد بھی مسئلہ کشمیر کا حل نہ ہونا اقوام متحدہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دوسری جانب ذرائع کے مطابق پاکستان اور بھارت کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز (ڈی ایم اوز) کا منگل کے روز ہاٹ لائن پر رابطہ ہوا ہے، جس میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے بات چیت کی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے ڈائریکٹر ملٹری آپریشنز کے مابین ہاٹ لائن پر رابطے کے دوران پاکستان نے بھارت کو لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کے حوالے سے اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔ رابطے میں یکم اکتوبر سے لے کر اب تک لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کی صورتحال پر بات چیت ہوئی اور اس کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے اقدامات اور تجاویز پر غور کیا گیا۔ گزشتہ دو ماہ سے وقتاً فوقتاً جاری رہنے والی سرحدی کشیدگی کے بعد دونوں ممالک کی افواج کے مابین یہ پہلا رابطہ ہے۔ رواں ماہ ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر سرحدی کشیدگی کے دوران متعدد شہری مارے گئے ہیں، جبکہ مکانات، املاک اور مویشیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے اور ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ حالیہ چند ہفتوں کے دوران بھارت کی جانب سے پاکستانی سرحدی علاقے میں فائرنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور متعدد بار سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں پاکستان اور بھارت نے ایل او سی سیز فائر معاہدے 2003 کی پاسداری کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، لیکن اس کے باوجود اس قسم کے واقعات رک نہیں سکے۔ سرکاری ٹی وی پی ٹی وی نے ملک کے عسکری حکام کے حوالے سے بتایا کہ یہ ڈی جی ایم اوز کے درمیان یہ ہفتہ وار معمول کا رابطہ تھا۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی میں کمی کی توقع ہے۔ دونوں ملکوں کو معلوم ہے کہ ان کے پاس امن کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں، کیونکہ اب دونوں جوہری طاقتیں ہیں، تو بھارت کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ حالات بہتر بنانا پڑیں گے اور مسئلے حل کرنے پڑیں گے، تاکہ س خطے میں پر امن بقائے باہمی نظر آئے۔ آہستہ آہستہ حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔“ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اقتدار میں آتے ہی اپنی پارٹی بی جے پی کے منشور اور ایجنڈے کے عین مطابق نہ صرف سرحدی کشیدگی میں اضافہ کیا، بھارت میں جب سے انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والے وزیراعظم نریندر مودی برسراقتدار آئے ہیں، پاکستان اوربھارت کے درمیان امن کے عمل کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات بنانے کی کافی حد تک کوشش کی، لیکن بھارت اس کا مثبت جواب دینے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ پہلے بھارت نے دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹریوں کے طے شدہ مذاکرات منسوخ کیے۔ پھر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری پر یکطرفہ جارحیت، آگ اور خون کا کھیل شروع کردیا۔ اب جب کہ پاکستان نے معاملے کو سلجھانے کی خاطر یو این سیکرٹری جنرل کو مراسلہ لکھا، جو یقیناً حکومت کی درست پالیسی ہے، بھارتی انتہا پسند حکومت کو وہ بھی پسند نہ آیا۔ ان حالات میں پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ بھارت کے ساتھ دوستانہ رویے پر نظر ثانی کرے اور بھارتی جارحیت کو رکوانے کے لیے عالمی برادری پر مزید دباﺅ بڑھائے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701018 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.