مرسوں مرسوں اقتدار نہ چھڈسوں

پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے سیلاب سے متاثرہ چند علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے اپنی باقاعدہ سیاسی زندگی کا آغاز کر دیا ہے۔بلاول کے والد آصف زرداری بھی اپنے فرزند کی سیاسی زندگی کے سفر کو شاندار طریقے سے شروع کرنے میں متحرک ہیں۔آصف زرداری کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی پہلے سے زیادہ ووٹ لے گی اور وہ جب چاہیں حکومت کو ختم کرا سکتے ہیں۔گزشتہ الیکشن میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو ہمدردی کا ووٹ ملا تھا تاہم آئندہ الیکشن میں گزشتہ الیکشن سے زیادہ ووٹ لینے کے دعوے میں زیادہ وزن نہیں ہے۔گزشتہ چند سال کے دوران پیپلز پارٹی کے کئی دیرینہ کارکن پیپلز پارٹی سے مایوس ہر کر عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔پیپلز پارٹی کی کمان عملی طور پر اب بھی آصف زرداری کے ہاتھوں میں ہے اور اسی حوالے سے پارٹی کے کئی امور کی نگرانی ان کی بہن فریال تالپور کر رہی ہیں۔بلاول بھٹو زرداری اپنی باقاعدہ سیاسی زندگی کے آغاز سے پہلے ہی اپنے نام کے ساتھ اپنے نانا کی ذات بھٹو اور اپنے والد کی ذات زرداری بیک وقت استعمال کر رہے ہیں۔یہ روائیتی طور پر نہیں بلکہ سیاسی ضرورت کے طور پر کیا گیا ہے تا کہ پیپلز پارٹی سے تیزی سے متنفر ہوتے ہوئے لوگوں کو دو خاندانوں کے اشتراک پر مبنی قیادت پر یقین دلانے کی کوشش کی جاسکے۔بلاول اور عمران خان میں ایک قدر تو یہ مشترک ہے کہ دونوں تقریر کرتے ہوئے کئی مرتبہ اپنی بات پر خود ہی ہنس پڑتے ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کے لئے18اکتوبر کو کراچی میں ایک بڑے جلسے کا اہتمام کرتے ہوئے پیپلز پارٹی اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کے کراچی جلسے کے لئے آزاد کشمیر کے وزرا سے بھی ’’چندہ‘‘وصول کیا جا رہا ہے،آزاد کشمیر کے کئی وزیروں نے اپنے اپنے محکموں کے سرکاری افسران کو لاکھوں روپے جمع کرنے کے ’’ٹارگٹ‘‘ دیئے ہیں۔ذرائع کے مطابق بلاول کے کراچی جلسے کے اخراجات کے نام پر پیپلز پارٹی کی مرکزی تنظیم نے آزاد کشمیر کی پیپلز پارٹی حکومت کے وزرا ،لیڈروں سے جلسے کے اخراجات کے نام پر بڑی رقوم طلب کی ہیں اور آزاد کشمیر کے کئی وزرا نے آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژنز کے سرکاری افسران سے فوری طور پر لاکھوں روپے طلب کئے ہیں۔ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے جلسے کے نام پر آزاد کشمیر کے کئی لیڈر پارٹی کے لئے بڑی رقوم اکٹھی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے بھی پیسے اکٹھے کر رہے ہیں۔آزاد کشمیر کی پیپلز پارٹی حکومت ’’ تن ،من،دھن‘‘ سے کراچی جلسے کے لئے کام کر رہی ہے اور آزاد کشمیر کے کئی عہدیدار پہلے ہی کراچی پہنچ چکے ہیں۔پیپلز پارٹی کے کراچی جلسے کی تیاریوں میں آزاد کشمیر حکومت کے کام ٹھپ پڑے ہیں،کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کے لئے سب سے ضروری کام پیپلز پارٹی کے فائدے کے لئے استعمال ہونا ہے۔پیپلز پارٹی کا کراچی جلسہ کیا آیا کہ آزاد کشمیر حکومت بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ہولناک سیلاب سے متاثرین کو بھی بھول گئی۔

بلاول بھٹو زرداری نے جنوبی پنجاب میں سیلاب سے متاثرین کے ایک جلسے سے خطاب میں ’’گھنسو گھنسو کشمیر گھنسو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سب کو چونکا دیا۔ ’’گھنسو گھنسو کشمیر گھنسو‘‘ کی آواز بھارت تک سنی گئی جہاں ان کے اس نعرے کو سنجیدگی سے دیکھا گیا جبکہ پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ ’’گھنسو گھنسو کشمیر گھنسو‘‘ کا نعرہ عوام کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے ایک حربے کے سوا کچھ نہیں ہے’۔کشمیر لینے اور دینے‘ کا اختیار اب تک ہماری سیاسی قیادت کو حاصل نہیں ہو سکاہے۔بلاول بھٹو زرداری جس طرح جوش و خروش سے اپنی خاندانی حاکمانہ سیاستبلاول بھٹو زرداری نے جنوبی پنجاب میں سیلاب سے متاثرین کے ایک جلسے سے خطاب میں ’’گھنسو گھنسو کشمیر گھنسو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سب کو چونکا دیا۔ ’’گھنسو گھنسو کشمیر گھنسو‘‘ کی آواز بھارت تک سنی گئی جہاں ان کے اس نعرے کو سنجیدگی سے دیکھا گیا جبکہ پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ ’’گھنسو گھنسو کشمیر گھنسو‘‘ کا نعرہ عوام کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے ایک حربے کے سوا کچھ نہیں ہے’۔کشمیر لینے اور دینے‘ کا اختیار اب تک ہماری سیاسی قیادت کو حاصل نہیں ہو سکاہے۔بلاول بھٹو زرداری جس طرح جوش و خروش سے اپنی خاندانی حاکمانہ سیاست کا آغاز کر رہے ہیں ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کی آئندہ قیادت بننے کے لئے کتنے بے تاب ہیں۔مرتضی بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو چاہے بلاول کی طرح سیاست میں اس طرح متحرک نہ ہوئی ہوں لیکن فاطمہ بھٹو کی اہلیت،قابلیت اور سنجیدگی اس بات کا اظہار کر رہی ہیں کہ وہ کا آغاز کر رہے ہیں ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کی آئندہ قیادت بننے کے لئے کتنے بے تاب ہیں۔مرتضی بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو چاہے بلاول کی طرح سیاست میں اس طرح متحرک نہ ہوئی ہوں لیکن فاطمہ بھٹو کی اہلیت،قابلیت اور سنجیدگی اس بات کا اظہار کر رہی ہیں کہ وہ ناصرف بلاول سے بہت زیادہ اہل اور قابل ہیں بلکہ حقیقت میں پیپلز پارٹی کی نئی کامیاب قیادت بھی ثابت ہو سکتی ہیں ۔عمران خان اور طاہر القادری کی طرف سے اکثر وراثت کی سیاست پر تنقید کی جاتی ہے اور پیپلز پارٹی نے بلاول کے ذریعے وراثت کی سیاست کو آئندہ بھی قائم ناصرف بلاول سے بہت زیادہ اہل اور قابل ہیں بلکہ حقیقت میں پیپلز پارٹی کی نئی کامیاب قیادت بھی ثابت ہو سکتی ہیں ۔عمران خان اور طاہر القادری کی طرف سے اکثر وراثت کی سیاست پر تنقید کی جاتی ہے اور پیپلز پارٹی نے بلاول کے ذریعے وراثت کی سیاست کو آئندہ بھی قائم رکھنے کی کوشش کا آغاز کر دیا ہے۔شاید وراثت کی سیاست کی بنیاد پر پاکستان کے غلامانہ ذہنیت کے عوام پر حاکمیت کرنے کے دعوے دار اپنی جلد بازی میں جلد ہی یہ نعرہ لگانے پر دل کے ہاتھوں مجبور ہوں گے کہ ’’ مرسوں مرسوں اقتدار نہ چھڈسوں‘‘۔

اطہر مسعود وانی
0333رکھنے کی کوشش کا آغاز کر دیا ہے۔شاید وراثت کی سیاست کی بنیاد پر پاکستان کے غلامانہ ذہنیت کے عوام پر حاکمیت کرنے کے دعوے دار اپنی جلد بازی میں جلد ہی یہ نعرہ لگانے پر دل کے ہاتھوں مجبور ہوں گے کہ ’’ مرسوں مرسوں اقتدار نہ چھڈسوں‘‘۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699469 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More