تبدیلی مگر آہستہ آہستہ
(Prof Jamil Chohdury, Lahore)
دھرنے تو عیدالاضحی کے بعدبھی
جاری ہیں۔شریفوں پر حملہ پرزرور آواز سے مسلسل کیاجارہا ہے۔جو اب میں نواز
شریف صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ لوگ میرے خلاف احتجاج
کیوں کر رہے ہیں۔مجھے تیسری دفعہ بھی اقتدار عوام نے دیا ہے۔یہ عوام کی
امانت ہے ۔اگر میں اقتدار سے استعفیٰ دیتا ہوں تو یہ امانت میں خیانت
ہوگی۔ان کی بات میں منطق تو ہے کیا PTIفوری تبدیلی لانے میں کامیاب ہوجائے
گی؟کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہPTIعوام میں کوئی بڑی حرکت پیدا نہیں کرسکی۔بات
ابھی صرف شہری لوگوں تک محدود ہے۔دور دراز قصبات اور گاؤں میں سکون نظر آتا
ہے۔لیکن اگر دیکھاجائے تو ہر تحریک پہلے شہروں سے شروع ہوتی ہے۔بھٹو کی
ایوب خان کے خلاف تحریک ہویا بھٹو کے خلاف نوستارے والوں کی تحریک،ابتدا تو
شہری لوگوں نے ہی کی تھی۔شہری لوگوں کی چلائی ہوئی تحریکوں کی حدت آہستہ
آہستہ قصبات اور گاؤں تک چلی جاتی ہے۔اور پھر عوام کا سیل رواں بن جاتی
ہے۔اقتدار کا ٹھہرنا پھر مشکل ہوجاتا ہے۔ایوب کو بھی جانا پڑا تھااور بھٹو
کو بھی اقتدار سے علیحدہ کردیاگیا تھا۔اور پھر پاکستانی لوگوں کی قسمت کو
دونوں دفعہ آمروں کے سپرد کردیاگیا۔طاقت کے ذریعے تبدیلی کے نتائج پاکستان
میں کبھی بھی اچھے نہیں نکلے۔موجودہ تبدیلی لانے والے دونوں لیڈرباربار
فوجی تبدیلی کے خلاف بات کرتے نظر آتے ہیں۔یہ بات ظاہری طورپر کہی جارہی ہے
لیکن انگلی اٹھنے کا اشارہ تو ہرکوئی سمجھ رہا ہے۔عمران خان کے جلسے اب تک
کافی کامیاب نظر آتے ہیں۔اگر یہ جلسے پاکستان کے طول وعرض میں کئی ماہ مزید
جاری رہے تو اس سے عوام کے سیل رواں بن کر اٹھنے کا امکان ہے۔سیل رواں کا
مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ پاکستان کی 50فیصد سے بھی زیادہ آبادی اٹھ کر
سٹرکوں پر آجائے گی۔تبدیلی لانے والے سرگرم لوگ تعداد میں کم ہی ہوتے ہیں
ان کے اپنے پروگرام سےCommitmentاہم ہوتی ہے۔اور انکے لیڈر کی آواز میں
گونج ہونا بھی ضروری ہوتی ہے۔PTIکے پاس دونوں خصوصیات موجود ہیں۔تحریک
انصاف کے جیالوں نے ایک لمبے عرصے تک عمران خان کا ساتھ دیکر اپنا لگاؤ
ثابت کردیا ہے۔اور کپتان کی گونج پہلے صرف دھرنوں سے پاکستانی عوام تک
پہنچتی تھی۔اب بڑے شہروں کے جلسے بھی اس اٹھنے والی گونج کا Venueبنتا
جارہا ہے۔یہ گونج اگرمزید کئی ماہ تک لگاتار اٹھتی رہی تو اس کا پاکستانی
شہری اور دیہی عوام پر اثر تو ہوگا۔اس بات کا امکان ہے کہ بڑے بڑے شہروں
میں جلسے کرنے کے بعد دونوں لیڈر تمام شہروں سے ریلیوں کی Callدے دیں اور
یہ ریلیاںPNAکی تحریک کی شکل اختیار کرلیں ۔ریلیوں سے شہری زندگی میں رکاوٹ
پیدا کی جاسکتی ہے۔حکومت مجبور ہوکر کچھ نہ کچھ نیاکرنے پر تیار ہو جائے
گی۔حکومت کو یہ تمام صورت حال سامنے دیکھ کر سوچنا چاہیئے۔یہ کہنا کہ جنرل
الیکشن مئی2018ء میں ہی ہونگے۔خوش فہمیوں میں رہنے والی بات ہے۔ اگر جلسوں
کے بعد ریلیوں کا تسلسل قائم ہوگیا۔تب حکومت کو کچھ نیا پلان بنانا پڑے
گا۔حکومت گرانے کے لئے لوگوں کی یا ووٹروں کی اکثریت کی ضرورت نہیں ہوتی۔بس
سرگرم کارکنوں کی ایک معقول تعداد ہی کافی ہوتی ہے۔انقلاب فرانس میں بھی
فرانس کی پوری آبادی شریک نہیں تھی۔کچھ سرگرم اور مرنے مارنے والے لوگ
بادشاہ کے خلاف اٹھے تھے۔رئیسوں کے آنے کے بعد آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ
ان کے بھی خلاف ہوگیا۔یوں انقلاب فرانس کی لہریں کئی سالوں تک فرانس اور اس
کے ارد گرد کے ممالک میں ارتعاش پیدا کرتی رہیں۔دھرنے کے دونوں لیڈروں نے
بھی اسلام آباد کے باہر جلسوں کا پروگرام شروع کردیا ہوا ہے۔بعدمیں یہ شہری
زندگی میں رکاوٹ پیداکرنے تک جاسکتا ہے۔عمران خان اور قادری اپنے طے شدہ
Scriptsمیں تبدیلیاں لاتے رہیں گے۔حکومت کے اعصاب کو شک کرنے تک ان کا
پروگرام آگے بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔امریکہ میں بھی سیاہ فام لوگوں کی تحریک
آہستہ روی سے شروع ہوئی تھی۔اور پھر مارٹن لوتھر کنگ نے آکر بڑے پیمانے پر
اسے پھیلادیا تھا۔تمام حقوق آہستہ آہستہ ملتے چلے گئے۔اوباما کا امریکی صدر
مملکت بننا مارٹن لوتھر کنگ کے وہم وگمان میں نہیں تھا۔تحریکوں کا لمبے
عرصے تک جاری رہنا حکومت وقت کو کمزور کرتا چلا جاتا ہے۔حالات انہیں کوئی
بڑا فیصلہ کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔بڑے فیصلے کا مطلب صرف استعفیٰ نہیں
بلکہ2018ء سے پہلے انتخابات بھی ہوسکتا ہے۔PTIاورPATکے نزدیک اب 2018ء سے
پہلے انتخاب زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔تحریک انصاف نے جلسے شروع کرکے
آئندہ جلد ہونے والے الیکشن کی تیاری شروع کردی ہے۔جبکہ عوامی تحریک نے بھی
اب اپنا رخ انتخاب کی طرف موڑ دیا ہے۔اب جلد انتخاب کے نتیجہ میں عمران خان
کو اپنی وزرات عظمیٰ نظر آنا شروع ہوگئی ہے۔استعفیٰ تو پارلیمنٹ کے اتحاد
سے ناممکن ہوگیا ہے۔PTIکے لوگ انتہائی جذباتی گھوڑے پر سوار ہیں۔یہ بات
شاید نواز شریف کو سمجھ نہ آئے۔اس لئے وہ اپنے آپ کو محفوظ خول میں موجود
سمجھتے ہیں۔یہ بات تو درست ہے کہPTIاورPATکے پاس ایسا قابل اعتماد منصوبہ
نہیں ہے جس سے معاشرے کو فوری طورپر تبدیل کرسکیں۔عوام کی مشکلات کا ان کے
پاس بھی کوئی فوری حل نہیں ہے۔مہنگائی کسی بھی جادوئی چھڑی سے کم نہیں کی
جاسکتی۔نہ ہی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات پانے کا کوئی فوری حل موجود ہے۔لیکن
عمران خان اور طاہر القادری جیسی تقریریں کر رہے ہیں۔اس سے عوام کو بے وقوف
ضرور بنایاجا سکتا ہے۔نئے لیڈروں سے عوام جلد بیوقوف بن جاتے ہیں۔لیکن
پرانی پارٹیوں کے وعدوں پر لوگ یقین نہیں کرتے۔سوال یہ ہے کہ جب عمران کے
آنے سے مسائل فوری طورپر حل نہیں ہوسکتے تو ان کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں؟۔اس
کا جواب صرف ایک ہی ہے کہ لوگ فوری آسودگی(Catharsis)چاہتے ہیں۔عام لوگوں
کوGo Nawaz Goکے نعرے میں بس صرف آسودگی محسوس ہورہی ہے۔ایک حکمران کے جانے
کے بعد لوگوں کی اونچی توقعات آنے والے سے وابستہ ہوجاتی ہیں۔جلسوں میں آنے
کی بس یہی ایک وجہ ہے۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نئے لیڈر کے پاس کوئی جادو کا
چراغ ہے۔جلے گا تو پاکستان میں ہر طرف روشنی ہوگی۔لوگ پاکستان کے حقیقی
معاشی مسائل سے واقف نہیں ہوئے۔پاکستان اب ایسا ملک بن چکا ہے کہ اس پر
حکمرانی آسان نہیں رہی۔یہاں سابقہ قرض کی ادائیگی کے لئے نیا قرض لینا اب
حقیقت بن چکا ہے۔جو بھی آئے گا اسے قرض لئے بغیر ملک کوچلانا ناممکن
ہوگا۔یا نوٹ چھاپے بغیر یہاں ایک سال گزارنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔لوگ تو بس
نئے لیڈروں سے اونچی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔عمران خان سے لوگوں کی اچھی
خاصی تعداد نے ایسی ہی امیدیں وابستہ کرلی ہیں۔آخر لوگوں نے کسی سے تو آس
لگانی ہے۔کوئی بھی انہیں اس کام سے روک نہیں سکتا۔بہت سے لوگوں کو پارلیمنٹ
اور وزیراعظم ہاؤس کے سامنے عوام کا اکٹھا ہونا جمہوریت کے لئے پسندیدہ نظر
نہیں لگتا۔لیکن اب تو عمران خان نے دوسرے شہروں میں جلسے کرکے ایسے لوگوں
کے لئے پسند کا سامان بھی کردیا ہے۔اور پھر کچھ لوگ ایسے ہونگے جو جلسے کے
بعد ریلیوں سے توقعات لگالیں گے۔لگتا یہ ہے کہ عمران خان اپنی آتش بیانی
اور نفرت انگیز تقریروں سے عوام کے جذبات بڑھکاتے رہیں گے۔ملڑی کی مداخلت
کا کوئی امکان نہیں ہے۔سپریم کورٹ کے ججز نے کوئی ایسا حکم نہیں سنانا جس
سے موجودہ حکومت پر کوئی اثر پڑے۔یہ بھی نظر آرہا ہے کہ نواز شریف صاحب نے
استعفیٰ نہیں دینا۔ایک لمبے عرصے تک بے چارے پاکستانی غریب عوام جنگلے میں
بند نظر آئے ہیں۔تبدیلی کب آتی ہے؟۔کیسے آتی ہے؟ کیا عوام کے لئے یہ مثبت
شمار ہوگی؟ملتان کے جلسے میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔عمران خان نے
سابقہ باتیں ہی دھرائیں۔نریندر مودی کو للکارنا اچھا لگا۔جلسے کئی ماہ جاری
رہتے نظر آتے ہیں۔پنجاب کے علاوہ ابھی پاکستان کا بڑا علاقہ عمران خان کا
انتظار کررہا ہے۔تبدیلی آرہی ہے۔لیکن آہستہ آہستہ۔دعا یہی ہے کہ جو بھی
تبدیلی آئے وہ انتخاب کے ذریعے آئے۔ |
|