قصہ ایک قلمی بیاض کی خریداری کا

تین دوست‘ پارک میں چہل قدمی کر رہے تھے۔ ہر عمر کی‘ خواتین بھی وہاں اسی شغل سے‘ آئی ہوئی تھیں۔ آپو اپنا ذوق ہوتا ہے‘ کچھ خواتین و حضرات‘ تاڑا تاڑی کے لیے‘ چہل قدمی کا کشٹ اٹھاتے ہیں۔ یہ تینوں‘ گھر سے تو چہل قدمی کے لیے آئے تھے‘ اور کر بھی رہے تھے۔ ساتھ میں‘ تاڑی تاڑی کا فریضہ‘ بطریق احسن انجام دے رہے تھے۔ دو جوان بیبیوں کو نظر میں رکھ رہے تھے‘ جب کہ تیسرا‘ ڈھلی عمر کی مائی صاحبان کے‘ قد کاٹھ اور حسن و جمال سے‘ لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ان میں سے ایک صاحب نے‘ اپنے جوان نواز ساتھی سے پوچھا‘ یار یہ پچھلے قدموں کیوں چل رہا ہے۔ اس نے حیرت سے سوالیے پر سوالیہ رکھا:
تمہیں معلوم نہیں
نہیں تو
یار یہ کباڑیا ہے‘ تب ہی تو‘ مائی نوازی میں مصروف ہے۔
اس سے تین چار چیزیں کھلتی ہیں:
بڑھاپا‘ عمومی سطح پر لایعنی اور بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔
بڑھاپا اپنے اندر کچھ ناکچھ تو ضرور رکھتا ہے۔
پرانے کو نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔
پرانے کے قدردان بھی موجود رہتے ہیں۔

لاہور انار کلی کی فٹ پاتھی‘ میرا محبوب رہا ہے۔ وہاں سے‘ کچھ ناکچھ مل ہی جاتا ہے۔ میں انار کلی فٹ پاتھ چھاننے سے پہلے‘ جی سی اورینٹیل کالج کے‘ دوستوں سے مل لیتا۔ یقین مانیے‘ مجھے اپنے کسی دوست کی‘ نیت پر شبہ نہیں رہا‘ بس احتیاطا ایسا کرتا تھا۔ کہنا تو صرف اتنا ہی ہوتا ہے‘ ذرا دکھانا۔ یہ ذرا‘ ہمیشہ کے لیے‘ محرومی کے مترادف ہوتا ہے۔ کیا یہ اچھا نہیں‘ کہ ذہنی فراغت کے بعد فٹ پاتھی شغل نبھایا جائے

یہ فٹ پاتھ سجانے والے‘ بلا کے حسن شناس ہوتے ہیں‘ ریگ دریا میں طلا تلاش لینا‘ ان کے دائیں اور بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ جھریوں بھرے بوسیدہ بڑھاپے میں‘ وہ کچھ ڈھونڈ لیتے ہیں‘ جو عمومی کیا‘ خصوصی آنکھ پر نہیں چڑھ پاتا۔ ہر ردی فروش‘ ان کی دعا سلام میں رہتا ہے۔ وہ اس امر سے آگاہ رہتے ہیں‘ کہ کون سا ادیب شاعر‘ دنیا سے پھر ہوا ہے اور اس کی ردی‘ جس نے گھر کا کمرہ یا گیلری پر ناجائز قبضہ کیا ہوتا ہے‘ کس ردی کی دکان پر گئی ہے۔ وہ خود بھی‘ اپنے ردی والے کو بھیج دیتے ہیں۔ لاکھوں کا بڑھاپا‘ چند ٹکوں میں ہاتھ لگ جاتا ہے۔

فٹ پاتھ پر آنے والے بڑھاپے کو‘ میں خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ وہ دوبارہ سے‘ کسی غیر دنیا دار کے‘ ردی کے کمرے میں‘ ناجائز قابض ہو کر‘ اس کی مرگ ناگہانی کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ یہ سب‘ معاشی اصطلاح‘ تجارتی چکر کے مترادف ہوتا ہے۔ غیر معروف اور مغضوب اہل قلم کے لفظوں پر‘ کبھی آلو چھولے‘ تو کبھی‘ امرود بسیرا کرتے ہیں۔ گویا اس طرح‘ لفظ کا بڑھاپا خراب ہو جاتا ہے اور لفظ تراش‘ ناقدری کی لحد میں اتر جاتا ہے۔ کچھ مجھ سے بھی بےسرے‘ بڑھاپا خراش ہوتے ہیں‘ جو آلو چھولے کھانے کے بعد‘ کاغذ کا اگا پچھا ضرور ملاحظہ کر لیتے ہیں۔

ضروری نہیں ہر اگے پچھے کا شجرہ نسب کسی شاعر ادیب کی نشت گاہ تک جاتا ہو۔ یہ بھی امکان میں رہتا ہے کہ ٹکڑوں میں منقسم بڑھاپے پر کسی حسینہ کی نوشیلی آنکھ سے گرا مروارید ہاتھ لگ جائے-

کسی کٹیا میں‘ مقید سقراط کا اتا پتا بھی درج ہو سکتا ہے۔ سرمد کی موت پر اٹھنے والی‘ بےکس سسکی‘ اپنے تمثالی روپ میں موجود ہو سکتی ہے۔ چلو جو بھی سہی‘ انارکلی بازار کی فٹ پاتھ نصیب میں نہ سہی‘ یہ امرودی کاغذ بھی‘ کباڑی آنکھوں سے بچ کر‘ کوڑے کی ٹوکری میں نہیں جا سکتے۔

یہ ١٩٨٤ کے کسی مہینے کی بات ہے۔ میں انارکلی بازار کا فٹ پاتھی ہوا۔ میرے پاس سو سے چند روپے ہی زیادہ ہوں گے۔ وہاں بہت سے خلد نشینوں کے‘ نامہءاعمال‘ اپنے فٹ پاتھی سلیقے کے ساتھ‘ موجود تھے۔ میری جیب کا مال معقول ناسہی‘ اسے غیرمعقول بھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ میری نظر ایک قلمی بیاض پر پڑی۔ میں نے اسے دیکھنے میں‘ دس منٹ سے زیادہ صرف کر دیے۔ مال دل کو بھا گیا اور میں نے‘ اسے خریدنے کا ارادہ کر لیا۔ مالک تاڑ گیا‘ کہ گاہک پکا ہے‘ لے کر ہی جائے گا۔ میں نے دام پوچھے‘ اس نے ڈیڑھ سو روپے سنا دیے۔ میں غش کھا کر گرنے والا ہی تھا‘ کہ ارادے نے سمبھالا دیا۔ میں نے چاروں جیبیں اس کے سامنے ٹٹولیں۔ کل ایک سو ستائیس روپے نکلے۔ میں نے کہا‘ بھائی بیاض بھی لینی ہے‘ چائے سگریٹ کی طلب ہے‘ گھر بھی جانا ہے۔ اس کے لیے‘ قصور بس پر جاؤں گا۔ لاری اڈے پر سے‘ تانگہ لوں گا اب تم ہی کہو‘ کیا حکم لگاتے ہو۔ بھلا آدمی تھا‘ یا وہاں میرا عجز اور مسکینی کام آ گیے۔ اس نے کتاب میرے حوالے کر دی یہ ہی نہیں‘ ساتھ میں عین نوازش فرماتے ہوئے‘ مبلغ سترہ روپے میرے پاس رہنے دیے۔ میں نے شکریہ ادا کیا۔ ریڑھی سے‘ دوپہر کا ناشتہ فرمایا۔ چائے پی‘ سگریٹ لیے‘ بس پر بیٹھا۔ سارے رستے‘ بیاض کی ورق گردانی کی۔ تانگے پر بیٹھا اور گھر آ گیا۔ بھری جیب گیا تھا‘ خوب پھرا ٹرا‘ کھایا‘ پیا‘ بس اور تانگے کے ہوٹے بھی لیے‘ سب کچھ کرکے بھی‘ میری جیب ابھی خالی نہ تھی۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190969 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.