سوشل میڈیا اور ہماری ذمہ داری
(Hidayatullah Akhtar, Gilgit)
کسی بھی کام کو سر انجام دینے کے
لئے ضروری ہے کہ اس کام کو انجام تک پہنچانے کےلئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی
ہے اس کو سمجھا جائے اور پھر اس کام کو اس کے انجام تک پہنچانے کےلئے جو
عوامل درکار ہوتے ہیں ان سے پوری طرح سے استفادہ حاصل کر کے ذمہ داری کے
ساتھ اس کام کی تکمیل کی جائے اور جب ہم سوشل میڈیا کے حوالے سے بات کرتے
ہیں تو آج کے اس دور میں جہاں ہر کویئ شخص اس میڈیا کا دلدادہ اور اس کی
محبت میں گرفتار ہے اور اس سلسلے میں ہمیں جو نمایاں چیز نظر آتی ہے وہ فیس
بک اور اس فیس بک میں بہت سارے دوست ہوتے ہیں جسے ایف بی فرینڈز کہا جاتا
ہے ان میں سے کچھ بہت ہی قریبی رشتہ دار یعنی بیٹا بیٹی بیوی بہن پھوپھی
تایا تایئ غرض جو بھی رشتہ ہے وہ آپکا ایف بی فرینڈز ہی کہلاتا ہے جن کو آپ
بعد میں درجہ بندی کرتے ہیں اس سوشل میڈیا کے مطابق آپکے ساتھ شامل ہر بندہ
چاہئے وہ آپکا جاننے والا ہو یا نہ جاننے والا وہ آپکا دوست ہے ۔۔ممکن ہے
کہ آنے والے وقتوں میں گوگل اس کا کوئی حل نکالے تاکہ رابطہ کرنے والوں کو
چاٹ یا مکالمے میں کوئی آسانی پیدا ہو سکے۔۔۔۔ایک دوسری بات جو اس سوشل
میڈیا میں بہت ہی زیادہ عام ہے وہ یہ کہ جعلی ناموں سے آئی ڈیز جس کی وجہ
سے کئی سادہ لوح ان کے دام محبت یا دام چالاکی میں آکر سب کچھ ہار جاتے ہیں
۔۔سوشل میڈیا کے کمالات تو بہت ساری ہیں جن کو اگر چھیڑا جائے تو ایک سے
بڑھ کر ایک دلچسپ اور چٹخارے والی ہیں اور کچھ چیزیں ایسی نظر سے گزر جاتی
ہیں کہ بے چاری نظریں بھی شرما کر جھکنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اس بات کا
بھی شکر ہے کہ اب بھی کچھ نظروں میں شرم و حیا باقی ہے لیکن یہاں چٹخارے
والی بات سے پرہیز کرتے ہوئے ایک اور بات کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے وہ
یہ کہ نوجوان نسل جو اس کو انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہی سمجھنے لگی ہے اس کے
علاوہ ان کا ذہن ابھی تک اس سوشل میڈیا کے بہت سارے مثبت پہلوں کی طرف مڑا
ہی نہیں ان کے نزدیک بس اس میڈیا سے اپنی اور یار دوستوں اور گھریلو تصاویر
پوسٹ کرنا ہی ہوتا ہے اور کچھ نہیں اور جب تک ہماری نوجوان نسل کا یہ رویہ
برقرار رہیگا اس وقت تک اس میڈیا سے چٹخاروں کے سوا ہمیں کچھ ہاتھ نہیں
آئیگا ۔۔۔اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر ادمی کا مزاج مختلف
ہوتا ہے اور یہ بھی ممکن نہین کہ کہ کسی کے ایک لفظ سے دوسر ا ایک دم فرشتہ
بن جائےاور معاشرے میں دودھ کی نہریں بہہ جائیں ہمارے اس میڈیا میں بڑے
میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ نظر آتے ہیں اس میڈیا میں
خبروں کی ترسیل سے لیکر تحقیق کر کے عوام تک معلومات اور اصلاح کے لئےاپنی
محنت کو بروےء کار لاتے والے لوگوں کو صحافی، دانشور اور ادیب کہا جاتا ہے
لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ یہ لوگ اجتماعی سوچ سے زیادہ انفرادی سوچ کو
لیکر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ کویئ ان پر
تنقید نہ کرے اور نہ کوئی اختلاف کرے بس وہ جو کہتے ہیں وہ ٹھیک ہے اور ان
کے کہے ہوے الفاظ یا نظریہ کو سچ ہی مان لیا جائے ایسے لوگ اپنے اوپر
تعمیری تنقید برداشت نہیں کرتے ۔۔کچھ حضرات ایسے ہیں کہ ایک طرف تو لوگوں
کو امن بھایئ چارے اور دوسرے اچھے کاموں کا لیکچر دیتے دیتے نہیں تھکتے
لیکن دوسری طرف سے ان لوگوں نے اپنے ایسے ایسے پیج بنا رکھے ہیں کہ توبہ ہی
بھلی اپنے فرقے کا پرچار اور ایسا زہر اللہ اللہ۔۔غرض اس میڈیا میں بھانت
بھانت کے لوگ اور بھانت بھانت کے جعلی دوست اور بھانت بھانت کے نغمے گانے
والے بلبلوں کی انگنت اقسام آپ کو ملینگے ۔۔۔ اس سوشل میڈیا میں کسی کی
خفگی کا برا بھی نہیں منانا چاہے بس ان حضرات سے جو اپنے آپ کو انٹلیکچوئل
،ادیب اور دانشور،اورصحافت کے علمبردار سمجھتے ہیں ان سے اتنی گزارش ہے کہ
وہ اپنی صحافت، دانشوری کو فرقہ بندی،مذہبی مدرسوں اور علاقائی والی
دانشوری نہ بنائیں بلکہ اس کی حدود کو وسعتوں کی اس بلندی معراج تک پہنچانے
کی کوشش کرنی چاہئے جس کی یہ متقاضی ہے یہی وقت کی ضرورت بھی ہے اور معاشرے
کے سدھار کے لے نہایت ضروری بھی اور اگر ہمارے دانشور طبقے نے بھی اپنی روش
نہ بدلی تو اس قوم کی نائو جو پہلے ہی چٹخاروں اور غیر اخلاقی طوفانوں سے
ہچکولے کھا رہی ہے بجائے سنبھلنے کے کہیں ڈوب ہی نہ جائے- |
|