ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔میرے مہرباں
(Dr Rais Samdani, Karachi)
وہ مجھ پہ تھے مہرباں ابھی کل کی
بات ہے۔ میرا یہ اعزاز بھی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی میں آخری دیباچہ
میری کتاب کا تحریرفرمایا
میرے مہربان، محبت کرنے والے استادلااساتذہ، معروف ادیب، دانش ور،محقق،
نقاد، ماہر تعلیم، ماہر لسانیات، سوانح نگار،تذکرہ نویس ، نعت گو، مورخ،
ماہر اقبات ، ماہر غالبیات، لغت نگار ومدیرسب سے بڑھ کر ایک ہمدر انسان ،
محبت کرنے والے، قلمکاروں کی مدد کرکے خوش ہونے والے،تعلیم کے میدان میں
آگے بڑھنے والوں کی دل و جان سے مدد کرنے والے اگست ۲۰۱۳ء کو ہمیشہ ہمیشہ
کے لیے اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اس کا جس قدر دکھ اور غم کیا جائے کم
ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ڈاکٹر صاحب سے میرے مراسم ادب اور کتاب کے حوالے سے قدیمی تھے۔ وہ مجھ
پرہمیشہ مہر بان رہے۔ان کی محبت اور شفقت کو کبھی بھلایا نہیں
جاسکتا۔میرااور ڈاکٹر صاحب سے تعلق کب اور کیسے ہوا یقینا اس کا ذریعہ کتاب
ہی تھی۔ ۱۹۹۷ء کی بات ہے میری ایک کتاب جو ایک ما ہرکتابدار اخترایچ صدیقی
کی کتابیاتی و اشایہ جاتی سرگرمیوں کا جائزہ تھا شائع ہوئی۔ اس کتاب کی
تعارفی تقریب ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۷ء کو ایچ ای سی آڈیٹوریم کراچی میں منعقد ہوئی۔
میں نے ڈاکٹر فرمان فتح پو ری صاحب سے تقریب کے مہمانِ خصوصی کے لیے
درخواست کی جو ڈاکٹر صاحب نے قبول کرلی جب کہ اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر بلدیہ
عظمیٰ کراچی سید انظار حسین زیدی نے تقریب کی صدارت کے فرائض انجام دیے۔
مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر، پروفیسر لطیف احمد انور،
معین الدین خان، پروفیسر سراج الدین قاضی شامل تھے۔ڈاکٹر صاحب نے مہمان
اعزاز ہونے کے ناتے کتاب کی اہمیت اور افادیت پر سیر حاصل گفتگو کی ساتھ ہی
میری کتاب پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔ یہ میرا ڈاکٹر صاحب کا برائے راست
پہلا تعلق تھا جو بعد میں قربت کے تعلقات کی صورت میں آخر تک قائم رہا۔
ڈاکٹرصاحب مرحوم سے میری تفصیلی ملاقات’ حلقۂ نیاز و نگار‘ کے سالانہ اجلاس
منعقدہ دسمبر ۲۰۱۰ء بمقام ڈاکٹر قدیر خان آڈیٹوریم ،وفاقی اردو یونیورسٹی
کے موقع پر ہوئی ۔ میَں ان دنوں سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و
انفارمیشن سائنسز میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے منسلک تھا اور دسمبر
کی تعطیلات میں کراچی آیا ہوا تھا۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی ڈین آف اسلامک انیڈ
اورینٹل لرنگ وچیٔر مین۔ شعبہ اُردوگورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آبادجو اس
وقت سرگودھا یونیورسٹی سے منسلک تھے اس پروگرام میں شرکت کے لیے کراچی
تشریف لائے ۔ ان کا قیام میرے گھر ہی تھا۔ڈاکٹر تونسوی صاحب سے میرے
دوستانہ مراسم ہیں۔ تونسوی صاحب اور میَں ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب سے
ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے گلشن اقبال گئے جہاں کچھ وقت ان کے ساتھ گزرا
اور مختلف ادبی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ڈاکٹر صاحب علیل تو تھے ہی لیکن ان
میں اتنی قوت تھی کہ جب انہوں نے ہماری آمد کا علم ہوا تو اپنے ڈرأنگ روم
میں تشریف لے آئے اور کچھ وقت ہمارے ساتھ گزارا۔
نیاز و نگار کی اس ادبی کانفرنس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے مخصوص احباب کے لیے
جامعہ کراچی کے کیمپس میں ڈنر کا اہتمام کیا تھا۔ اس ڈنر میں بھی ڈاکٹر
صاحب کے ساتھ کافی وقت گزرا۔اس موقع پر ڈاکٹر صاحب سے نیاز و نگار اور دیگر
ادبی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔اس موقع پر ڈاکٹر ظفر اقبال صاحب جو اب شیخ
الجامعہ اردو ہیں اُ س وقت جامعہ کراچی کے ڈین آف آرٹس تھے نے اپنی قیام
گاہ واقع کراچی یونیورسٹی کیمپس میں ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب کے اعزاز میں
پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا تھا جس میں تونسوی صاحب کے ساتھ راقم کو بھی
شریک اعزاز صاحل ہوا۔اس موقع کی جو باتیں اور یادیں ہیں کبھی کسی اور موقع
کے لیے اٹھا رکھتا ہوں۔
مَیں مارچ ۲۰۱۱ء میں جامعہ سرگودھا سے واپس آگیا اور ملازمت نہ کرنے کا
ارادہ کیا ساتھ ہی اردو ادب کے حوالے سے لکھنے کی جانب مائل ہوا۔ گو اس سے
قبل بھی میں بہت کچھ لکھ چکا تھا او روہ چھپ بھی چکا تھا لیکن اب اپنی مکمل
توجہ اردو ادب کے موضوعات پر لکھنے کی جانب مرکوز کی۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری
صاحب جو بہت زیادہ فعال تو نہیں تھے لیکن اپنے ادبی جریدے ’’نگارِ پاکستان
‘‘ کی تدوین و اشاعت میں مکمل فعال تھے۔ رسالے کے مدیر سید محمد اصغر کاظمی
میرے ساتھ گورنمنٹ کالج برائے طلباء ناظم آباد میں رہ چکے تھے اس حوالے سے
کاظمی صاحب سے دوستانہ مراسم بھی تھے۔ ڈاکٹر صاحب اور کاظمی صاحب کی نظرکرم
سے میرے متعدد مضامین نگار پاکستان میں شائع ہوئے۔ ان مضامین فیض احمد فیضؔ
پر میرا خاکہ ــ’’فیض احمد فیضؔ ۔میرا پرنسپل‘‘ ، بابائے اردومولوی عبد
الحق ، فاطمہ ثریا بجیاپر شائع ہونے والی کتاب ’’بجیا ‘‘ بر صغیرکی عظیم
ڈرامہ نویس ․․․فاطمہ ثریا بجیا کی کہانی کی تعارفی تقریب کا آنکھوں دیکھا
حال، حبیب جالب ۔ شاعر عوام، شہید حکیم محمد سعیدتحقیق کے آئینے میں،انٹر
نیشنل اردو کانفرنس ’’اردو زبان اورعصری آگاہی منقدہ جامعہ سرگودھا کی
روداد شامل ہیں۔
سوانحی مضامین پر مشتمل میری کتاب ’یا دوں کی ما لا:مختلف شخصیات کے بارے
میں مصنف کے تاثرات، افکار اور انعکاسات‘‘‘ ۲۰۰۹ء میں شائع ہوئی۔ ڈاکٹر
صاحب نے میری اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا’’یادوں کی ما لا‘‘ لفظی اور
معنوی ہر اعتبار سے ایک قابلِ مطالعہ کتاب ہے۔ یہ کتاب مشہور قلم کار ڈاکٹر
رئیس احمد صمدانی کی تصنیف ہے اور ان کے ذاتی تجربوں اور یادداشتوں پر
مشتمل ہے۔ خصوصیت یہ ہے کہ یہ کتاب صرف لائبریرین شپ سے متعلق حضرات کے لیے
نہیں بلکہ استفادۂ عام کا حق ادا کرتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے تبصرہ نما اور خاکوں
پر مشتمل ہے۔لیکن جو کچھ ہے وہ قدر و قیمت میں بلند پایہ ہے۔ صمدانی صاحب
ایک مدت سے لکھ رہے ہیں اور اب بھی ان کا قلم رواں دواں ہے۔کتاب بلحاظ زبان
و بیان معتبر ہے اور مصنف نے جو کچھ لکھا ہے پورے غور و فکر کے بعد لکھا
ہے۔ کم سے کم لفظوں میں زیادہ لکھا ہے اور مختصر نویسی کا حق ادا کیا ہے۔
یقین ہے کہ کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ رئیس احمد صمدانی کے نام اور کام کو
بلند و بالا کرے گی۔ کتاب نہایت صاف ستھرے انداز میں شائع ہوئی ہے اور قاری
کو متوجہ کرتی ہے ۔ مضامین کی فہرست میں کچھ تو مختصر خاکے ہیں کچھ تنقیدی
جائزے ہیں اور کچھ مختصر تذکرے، مگر اختصا ر میں بھی وہ سب کچھ آگیا ہے جو
موضوع پر اظہارِ خیال کے لیے ضروری تھا۔مختصراً یوں کہنا چاہیے کہ یہ کتاب
اپنے موضوع پر جامع کتاب ہے جس میں لائبریرین شپ کی تقریباً تمام ہی معروف
اور اہم شخصیات کا قابل توجہ احاطہ کیا گیا ہے۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے
کہ یہ کتاب سارے علمی ادبی حلقوں میں مقبول ہوگی اور شخصیات پر لکھنے والوں
کی رہنمائی کرے گی‘‘۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی علمی بصیرت کا اندازہ اس بات
سے لگا یا جاسکتا ہے کہ وہ اس مقام پر تھے کہ بڑے بڑے ادیب و شاعر اپنی
تسانیف پر ان کے دیباچے اور تقریظ کے خواہشمند ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب
لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے قائل تھے ۔ ان کی حوصلہ شکنی کے نہیں۔ کتاب
پر تبصرہ کرنے میں بھی انہیں کبھی جھجک نہیں ہوئی انہوں نے سو سے زیادہ
کتابوں کے دیباچے اور تقریظیں لکھی ساتھ ہی چھ سو سے زائد کتابوں پر تبصرہ
بھی کیا۔
میری شخصی خاکوں پر مشتمل کتاب’’ جھولی میں ہیرے اور موتی‘‘۲۰۱۲ء میں شائع
ہوئی ۔ اس کتاب کا دیباچہ بھی ڈاکٹر صاحب کا تحریر کردہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے
لکھا’’ خاکہ نویسی کا فن ایک بہت مشکل فن ہے اور قطرے میں دریا بند کردینے
کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی کتاب’’جھولی میں ہیرے اور موتی‘‘
کے ادبی خاکے اُن صاحبانِ ادب کے بارے میں ہیں جو تحقیق و تنقید اور تصنیف
و تالیف کا حق ادا کرتے ہیں۔ڈاکٹر رئیس صمدانی کا قلم کسی طویل تعارف کا
محتاج نہیں، وہ ایک عرصہ سے لکھ رہے ہیں اور جو کچھ لکھ رہے ہیں نہایت
کارآمد انداز میں لکھ رہے ہیں۔ان کے لکھے ہوئے خاکے اس بات کی گواہی دیتے
ہیں کہ ان کی یادداشتیں بہت مضبوط ہیں، ان کی نگاہ حقائق اور واقعات پربڑی
گہری رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صمدانی ایک باشعور صاحب قلم ہیں، مقبولیت و عدم
مقبولیت یا کسی رسالے میں چھپنے نہ چھپنے پرذرا بھی توجہ نہیں دیتے بلکہ
ادب کی خدمت نہایت سلیقے اور لطیف پیرائے میں انجام دے رہے ہیں۔ ان کی
تحریروں کی سادہ بیانی و حق گوئی میں ایسا جادو ہے کہ وہ اپنے قاری کو پوری
طرح گرفت میں لے لیتی ہیں اور قاری کتاب ختم کیے بغیر اس کے سحر سے نہیں
نکل سکتا۔مجھے یقین ہے کہ ان کا قلم اسی طرح چلتا رہے گا اور فکر و نظر پر
قابلِ توجہ تاثر چھوڑتا رہے گا۔ جن شخصیات و موضوعات پر خاکے لکھے گئے ہیں
وہ اگرچہ جانے پہچانے ہیں لیکن صاحب ِ کتاب یعنی ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی نے
ان کی قدر و قیمت کو اتنا بلند و بالا کر دیا ہے کہ خاکہ نگاری کی خاص صنف
میں رئیس احمد صمدانی کا نام ہمیشہ کے لیے زندہ و تابندہ ہو گیا ہے‘‘۔میں
لکھاریوں میں اپنے آپ کو ادنیٰ لکھنے والا اور ادیبوں کی فہرست میں اپنے آپ
سب سے پیچھے تصور کرتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے میری تحریر پر جو رائے دی یہ
میری نہیں بلکہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی بڑائی ہے۔ بلاشبہ وہ ادب کی دنیا
کی بڑی شخصیت تھے۔
جولائی ۲۰۱۳ء کی بات ہے میَں اپنی ایک کتاب بیکانیر راجستھان کے ایک معروف
شاعرآزادؔ بیکانیری جو میرے جدِامجد بھی ہوتے ہیں کی شخصیت و شاعری پر
مشتمل کتاب ’’شیخ محمد ابراہیم آزادؔ ۔شخصیت اور شاعری‘‘ مکمل کرچکا تھا۔
خواہش تھی کہ اس کتاب پر بھی ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا دیباچہ ہو۔ اس وقت
ڈاکٹر صاحب بہت زیادہ ع علیل تھے ، نقاہت اور کمزوری زیادہ ہوچکی تھی ۔اپنی
اس بات کا اظہارمیں نے سید محمد اصغر کاظمی جو رسالہ ’نگارِ پاکستان ‘کے
مدیر ہیں سے کیا ۔ وہ رسالے کے سلسلے میں ہر اتوار کی صبح ڈاکٹر صاحب کے
پاس جایا کرتے تھے۔مجھے اس بات کا علم بھی تھا کچھ عرصہ قبل میَں ان ہی کے
ہمراہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لیے بھی جاچکا تھا۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے
جو صاحب فراش تھے ان کے لیے اٹھنا اور بولنا بھی مشکل تھا اس بات کا اظہار
کیا کہ صمدانی صاحب اپنی ایک کتاب پر ان کے دیباچے کے خواہش مند ہیں
۔ڈاکٹرصاحب کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ وہ اُٹھ کر بیٹھ بھی
سکیں۔ پھر بھی انہوں نے میری خواہش کو رد نہیں کیا اور کہا کہ جوں ہی انہوں
نے اپنی طبیعت بہتر محسوس کی وہ یہ کام کردیں گے۔ یہ بات جولائی کے ابتدئی
ایام کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بستر پر لیٹے لیٹے کاظمی صاحب کو دیباچے کے نکات
ڈکٹیٹ کرائے۔ چند دن بعد کاظمی صاحب نے دیباچہ مکمل کرکے ڈاکٹر صاحب کو پڑھ
کا سنایا ۔ ڈاکٹر صاحب نے دیباچے سے بعض جملے نکالنے اور بعض میں ردو بدل
کرنے کی ہدایت کی۔ڈاکٹر صاحب کا تصحیح شدہ دیباچہ کاظمی صاحب نے مجھے ۱۷
جولائی کو لاکر دیا اس دیباچے پر ۱۱ جولائی کی تاریخ درج ہے۔ ڈاکٹر صاحب
مرحوم نے کاظمی صاحب کو یہ بھی ہدایت کی کہ دیباچے کے آخر میں درج تاریخ نہ
لکھی جائے۔ غالباً اس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ ڈاکٹر صاحب دیگر احباب کو اس
طرح کے کاموں کے لیے معزرت کرچکے ہوں گے اور اس پر تاریخ درج ہوجانے سے
دیگر مصنفین ان سے دیباچے یا تقریظ کے لیے رجوع کرسکتے تھے۔ اس طرح مجھے یہ
اعزاز حاصل ہوا کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے دمِ رخصت آخر میری کتاب کا
دیباچہ تحریرفرمایا۔ میَں اس اعزاز پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ میری یہ کتاب
۲۰۱۳ء میں شائع ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب اس قدر جلد چلے جائیں گے اس کا اندازہ نہیں تھا۔وہ مجھ پر تھے
مہرباں ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ میں ان کے سفر آخر میں شریک رہا اور دیگر
احباب کے ہمراہ انہیں منزل مقصود جامعہ کراچی کے قبرستان تک پہنچایا۔ اس
سفر کا حال’اردو کے نامور استاد، ادیب و محقق ڈاکٹرفرمان فتح پوری کا سفر
آخر‘ عنوان سے لکھ چکا ہوں جو ہماری ویب پر آن لائن موجود ہے۔اس کا یو آر
ایل https://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=41952 ہے۔پروردگار
ڈاکٹر
صاحب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے آمین۔ |
|