یہ پوری دنیا میں ایک مسلمہ
حقیقت ہے کہ میڈیا اور دانشور رآئے سازی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں-
یہی دو عناصر قوم کی ذہن سازی بھی فرماتے ہیں- پاکستان میں بھی میڈیا و
دانشور ایک عرصہ سے نام نہاد جمہوریت کا چورن بیچ رہے ہیں اور ذہن سازی کی
بجائے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشیش کرتے رہے ہیں۔ یہی دانشور اور اینکرز اس
زعم میں مبتلا ہوگئے کہ انکا چورن بہت اچھے داموں فروخت ہورہا ہے۔ اپنا
جمہوری چورن بیچنے کی خاطر میڈیا و دانشوروں نے چند بت بھی تراشے ، ان بتوں
میں چند کو ہیرو بناکر پیش کیا اور بعض کو ولن کے روپ میں عوام کے سامنے
پیش کرنے کی کوشیش کی۔ میڈیا کے تراشے بت تو بیشمار ہیں مگر چند کا ذکر
کروں گا ، ماضی قریب میں میڈیا نے ایک بت آذاد عدلیہ کے نام پر تراشا اور
اسے مسیحا کا نام دیا اور قوم کے سامنے افتخار چوہدری کو ایک ہیرو کے روپ
میں پیش کیا - یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عوام نظام عدل سے بری طرح ڈسی ہوئی
ہے لہذا عوام میڈیا اور دانشوروں کی لچھے دار گفتگو سے متاثر ہوکر عوام عدل
وانصاف کے سہانے خواب دیکھنے لگی ۔ ریاست ہوگی ماں کے جیسی کے واشگاف نعرے
گونجنے لگے - ہماری عوام کی اکثریت ناخواندہ ہے اور جذبات کی رو میں بہہ
گئی ، مگر دانشور تو حقیقت کا ادراک رکھتے ہوئے عوام کے جذبات سے کھلواڑ
کرتے ہوئے انھیں لق ودق صحرا میں سراب کے پیچھے دوڑاتے رہے- جج صاحبان کی
نوکریاں تو بحال ہوگئیں مگر عوام کے لئیے انصاف کا حصول ایک خواب ہی رہا -
میڈیا اور جگاڑی سیاستدانوں نے اس انصاف کے دیوتا کے نام پر بڑا چورن بیچا
- زمین پر انسان بہت سی تدبیریں کرتا ہے مگر کچھ تدابیر احکم الحاکمین بھی
آسمانوں پر کرتا ہے - وہ انسان کا اصل روپ لوگوں کو ضرور دکھاتا ہے پھر
قدرت نے ایسی تدبیر کی کہ میڈیا اور دانشوروں کے تراشے انصاف کے دیوتا کے
بت کو پاش پاش کردیا۔ چشم فلک نے افتخار چوہدری کا اصل چہرہ دیکھا اور عوام
نے بھی چور اور کتی کا گورکھ دھندہ دیکھ لیا ۔ میڈیا اور دانشوروں کے دوہرے
معیار ہیں انکی عقابی نگاہیں موزوں شخص کا انتخاب کرکے اسے مسند تکریم پر
بٹھاتی ہیں جسکے پیچھے ذاتی مفاد اور ایجنڈہ کارفرما ہوتا ہے - جسٹس سعید
الزمان صدیقی نے مشرف کو دو بار نہ کہی تھی اور پی سی او پر حلف بھی نہیں
اٹھایا تھا جبکہ افتخار چوہدری نے دوبار پی سی او پر حلف اٹھایا اور اپنی
روزی پر جب لات پڑی تو استعفی دینے سے انکار کیا لیکن پھر بھی میڈیا و
دانشوروں کی آنکھ کا تارا بنا آخر کیوں ؟ اسکے پیچھے مفاد ، ایجنڈہ اور
دوہرا معیار کارفرما تھا ۔ جو عدل و انصاف کا چورن افتخار چوہدری کے ذریعے
بکا وہ سعیدالزمان صدیقی کے ذریعے نہیں بک سکتا تھا ۔ میڈیا اور جگاڑی
سیاستدانوں کا ارادہ و ہدف آذاد عدلیہ نہ کل تھا نہ آج ہے - جس دن چور اور
کتی کا گٹھ جوڑ ختم ہوگیا وہ دن پاکستان میں جمہوریت اور عدل وانصاف کا
نکتہ آغاز ہوگا اور یہی میڈیا اور سٹیٹس کو منظور نہیں اور نہ ہی انکے لئیے
سازگار ہے۔
میڈیا اور دانشوروں و جگاڑی سیاستدانوں نے ایک اور بت بڑی محنت سے تراشا
اور اسکی بڑی دیکھ بھال کی اور اسے محسن جمہوریت کا نام دیا۔ جناب جاوید
ہاشمی صاحب کو ہیرو بناکر قوم کے سامنے پیش کیا - اب اس ہیرو کے مقابل ایک
ولن بھی درکار تھا ، سو ولن مشرف کو بنا دیا اور اسے ایک آمر کہہ دیا
حالانکہ مشرف ان تمام بونے سیاستدانوں سے بڑھکر جمہوری تھا جس نیم خواندہ
کرائے کے ٹٹو دانشور کا دل چاہے تو اس پر مناظرہ کرلے ۔ یہاں پھر میڈیا
اینکرز کا دوہرا معیار دیکھیں ، شیخ رشید اور چوہدری شجاعت مشرف کا ساتھ
دینے کیوجہ سے تو قابل نفرت مگر جاوید ہاشمی ضیاء الحق کا ساتھ دینے کے
باوجود محسن جمہوریت- سالوں میڈیا نے جمہوریت کا چورن جاوید ہاشمی کے نام
پر بیچا اور ہاشمی کو جمہوریت کا ٹھیکدار بنا کر پیش کیا ۔ ایک طرف میڈیا و
دانشوروں نے سالوں انتھک محنت کرکے محسن جمہوریت کا بت تراشا دوسری طرف
قدرت نے دو پارٹیوں کی ساٹھ دنوں کی جدوجہد کے نتیجہ میں اس بت کو پاش پاش
کردیا۔ جاوید ہاشمی کی دہائیوں کی جمہوری جدوجہد کو ملتان کی عوام نے مسترد
کردیا اسکی وجہ یہ ہے کہ جدوجہد کہیں تھی ہی نہیں ایک ڈھونگ تھا ۔ مجھے
جاوید ہاشمی کی شکست پر اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی عوامی شعور کے بیدار
ہونے کی ہوئی ہے۔ آج عوام نے میڈیا و دانشوروں کا جمہوری چورن خریدنے سے
انکار کردیا ہے جوکہ نیم دانشوروں کے بدنما دوہرے معیار والے چہرے پر تھپڑ
ہے۔ آج جاوید ہاشمی نہیں ہارا تمام نام نہاد جمہوری بت پاش پاش ہوئے ہیں ۔
میڈیا و اینکرز کے کندھوں پر چڑھ کر بنا تھا باغی
ورنہ کس سے پوشیدہ ہے میرا ماضی تارتار و داغی
ضیاء بھی میرا قائد تھا لیڈر مرا نواز و خان بھی
سبھی تو برے ہو نہیں سکتے میں ہی ہوں داغی
ہوئی سازش اور مجھے ملا انتخابی نشان بالٹی
آہ دہائیوں کی جمہوری جدوجہد بن گئی قصہ ماضی
جگاڑی باخوبی جانتے ہیں کہ ادیب ، فنکار اور دانشور رآئے میکرز ہوتے ہیں ،
جو خیالات کی دنیا میں نئے ٹرینڈ چلاتے ہیں - اس لئیے انکا رخ بدلنے سے عام
لوگوں کا رخ خود باخود بدل جائے گا - دانشوروں کے علاوہ جگاڑی قوتیں طلباء
کو بھی رام کرنے کی کوشیش کرتی ہیں جو نئی چیزوں کے متلاشی اور جذباتی ہوتے
ہیں۔ پھر ایک تیسرا گروہ بھی ہے دنیا کے بھوکے ملاؤں کا گروہ جنھیں جگاڑی
اپنے مفاد کی خاطر استمعال کرتے ہیں - مگر ساٹھ دنوں کے دھرنے نے جگاڑیوں
کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا اب تو جگاڑیوں کو دانشوروں سے لفافے ، طلباء
سے لیپ ٹاپ اور اشرفی جیسے دین فروشوں سے شراب کی بوتلیں وآپس لینی چاہئیں
۔ |