پروفیسر سوامی رام تیرتھ کی غالب طرازی

لفظ‘ دوسروں تک بات پہنچانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ لفظ معنویت سے تہی نہیں ہوتے۔ اصل ہنر‘ ان کا استعمال ہے۔ لفظ کا بہترین‘ مناسب حال اور جذبے کی حقیقی ضرورت کے مطابق‘ استعمال ہی کمال فن ہے۔ اسی حوالہ سے‘ قاری یا سامع اثر لیتا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک‘ صاف صاف اور واضح معنی کی حامل گفتگو‘ ہی درست رہتی ہے۔ اسی بنیاد پر غالب پر‘ بہت سے اعتراضات ہوئے۔ آدمی گویا تن آسان ہی نہیں فکری حوالہ سے بھی‘ کوشش اور تردد سے بچنا چاہتا ہے۔ حالاں کہ غور کرنا‘ اور متواتر غور کرنا فکری بلوغت کی طرف سفر کرنا ہے۔ لفظ وہ ہی ہوتے ہیں‘ لیکن ان کا استعمال طرح دار‘ عمومی معنویت سے ہٹ کر‘ یا عمومی استعمال سے الگ تر ہی ہنرمندی کی دلیل ہوتا ہے۔

صاف صاف گفتگو‘ بےشک مطالب اور بات سمجھنے کے حوالہ سے‘ آسانی پیدا کرتی ہے‘ تاہم یہ صاف صاف کھری گفتگو کے باعث‘ خرابی کے رستے کھل سکتے ہیں۔ علامتوں‘ استعاروں‘ ذومعنویت‘ مجموعی تخاطب وغیرہ کا استعمال‘ درحقیقت‘ فساد کا رستہ بند کرنے کے مترادف ہے۔ بہادر شاہ ظفر کا مشہور زمانہ شعر ہے۔
چشم قاتل تھی میری دشمن ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہوگئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

اگر واضح طور پر کہہ دیا جاتا‘ کہ انگریز کی آنکھ کا کانٹا ہمیشہ سے رہا ہوں‘ لیکن اب تو اس کی ستم گری کی حد ہوگئی ہے۔ ایسا کہنے سے‘ ناصرف وظیفہ میں ملنے والے چند ٹکوں سے جاتا‘ بلکہ لال قلعہ سرخی میں نہا جاتا۔ جو چند نفوس بچ رہے‘ وہ بھی جان سے جاتے۔ شہر میں بھی قتل وغارت کا بازار گرم ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے‘ اس ہونے سے‘ شاید ١٨٥٧ کی سی قتل و غارت نہ ہوتی۔ تلوار شاہ اور شاہ والوں تک محدود رہتی۔ لفظوں کے پوشیدہ استعمال نے اسے چند سال اور دے دیے۔
لفظ وہ ہی ہوتے ہیں لیکن کا استعمال بہت بڑا ہنر ہے۔ کہا جائے:
چلو یار چلتے ہیں‘ کوا آ رہا ہے‘ خواہ مخواہ میں‘ مغز چاٹے گا۔
چلو یار چلتے ہیں‘ زید بکر آ رہا ہے‘ خواہ مخواہ میں‘ مغز چاٹے گا۔
نشان دہی ہوئی ہے‘ فساد کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ استعارے نے‘ پوشیدگی کا کام کیا ہے۔ بات بھی کہہ دی گئی‘ اور فساد سے بھی بچ گیے۔

غالب کا یہ کمال ہے کہ وہ بات عمومی انداز سے نہیں کرتا۔ اس کے کہے کو سمجھنے کے لیے‘ غور و فکر سے کام لینا پڑتا ہے۔ نمونہ کے دو شعر پیش کرتا ہوں:
جب تک کہ نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم
میں معتقد فتنہ محشر نہ ہوا تھا

سارے لفظ‘ عام استعمال کے ہیں اور ان کے رائج مفاہیم پچیدہ نہیں ہیں۔ لفظ قد اور فتنہءمحشر بڑے ہی طرح دار ہیں۔ یہ تشبہی استعمال ہے۔ غور کریں گے‘ تو بات کہاں کی کہاں پہنچ جائے گی۔
یہ شعر عقیدے اور آفافی سچائی سے متعلق ہے اور قطعی عمومی بات ہے‘ کوئی مشکل لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
لفظ عام ہیں‘ لیکن ان میں عام اور عمومی بات نہیں کہی ہے۔
اسی غزل کے دو شعر اور ملاحظہ ہوں:

ہم وہاں ہیں‘ جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
دونوں مصرعے سوالیہ ہیں۔

حسن میں‘ متاثر کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ۔ حسن ظاہری ہو یا باطنی‘ معنوی ہو یا استعمالی‘ متاثر کرتا ہے اور متاثر ہونے والا‘ وہ ہی طرز اور طور اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ سوامی رام تیرتھ گوجرانوالہ میں‘ غالب کی موت کے چار سال بعد‘ پیدا ہوئے۔ غالب کی سی عمر نہ پائی۔ مختصر مختصر زندگی کی‘ صرف تنتیس سال اس جہاں میں گزارے اور ١٩٠٦ میں اس جہاں کو ہمیشہ کے لیے تیاگ کر سورگ باسی ہوئے۔ اس مختصر زندگی میں‘ بہت کچھ سیکھا اور سکھایا بھی۔ ایف سی کالج میں پڑھایا۔ ایف کالج لاہور کے لیے‘ بلاشبہ یہ بہت بڑے اعزاز اور گرب کی بات ہے‘ کہ وہاں بگ برینز‘ فکر کے گلاب بکھیرتے رہے۔

کوئی تیس سال پہلے‘ میں نے ان کا‘ کچھ اردو کلام جمع کیا تھا اور اس کا بسات بھر لسانی مطالعہ بھی کیا تھا۔ یہ مجھے خوب خوب یاد تھا۔ کام کہاں رکھ بیٹھا ہوں‘ یاد سے نکل گیا۔ کچھ ہی دن پہلے یہ ناچیز سی کوشش مل ہی گئی۔ دل کو‘ سکون اور خوشی محسوس ہوئی۔ دوبارہ سے دیکھا‘ تو اس میں تین غزلیں‘ غالب کے طور پر مل گئیں۔ جس شخص نے غالب کو پڑھا ہو اور شعر میں‘ اس کی پیروی کرنے کی سعی کی ہو‘ وہ کوئی عام اور معمولی شخص نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے اور بھی اس انداز کی غزلیں لکھی ہوں گی لیکن میرے جمع کیے گیے کلام میں‘ صرف تین موجود ہیں۔


غالب کی غزل
حیراں ہوں‘ دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
دس اشعار پر مشتمل ہے اور معروف ہے۔

اسی ردیف اور قافیہ میں کہی گئی‘ سوامی رام تیرتھ کی غزل‘ پانچ اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ غزل‘ راگ جوگ میں کہی گئی ہے‘ جب کہ تال‘ دھمار ہے۔
غزل ملاحظہ فرمائیں:
گل کو شمیم آب گہر اور زر کو میں
دیتا ہوں جب کہ دیکھوں اٹھا کر نظر کو میں
شاہوں کو رعب اور حسینوں کو حسن و ناز
دیتا بہادری ہوں بلا شیر نر کو میں
ابروئے کہکشاں بھی انوکھی کمند ہے
بے قید ہو اسیر‘ جو دیکھوں ادھر کو میں
تارے جھمک جھمک کے بلاتے ہیں رام کو
آنکھوں میں ان کی رہتا ہوں جاؤں کدھر کو میں

بلا تبصرہ لفظوں کی نشت و برخواست ملاحظہ فرمائیں۔
آب دینا‘ نظر اٹھا کر دیکھنا‘ گل کو شمیم دینا‘ بہادری دینا‘ آنکھوں میں رہنا
کدھر جاؤں
حسن و ناز‘ ابروئے کہکشاں‘ انوکھی کمند‘ جھمک جھمک 'گوہر اور زر

ابروئے کہکشاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انوکھی کمندد

نظر: دیکھنا
شاہ: رعب
حسین: ناز
شیر: بہادری
تارے: جھمک جھمک

گل دینا
ابروئے بے قید
تارے آنکھوں: تارے آنکھیں
آنکھیں تارے
بے قید ابرو

ابروئے کہکشاں بھی انوکھی کمند ہے
بے قید ہو اسیر‘ جو دیکھوں ادھر کو میں

ابروئے کہکشاں بھی
انوکھی کمند ہے
بے قید ہو اسیر
جو دیکھوں ادھر کو میں
مضمون کا حسن اپنی جگہ‘ لفظ بھی‘ تشریح سے متعلق نہیں ہے‘ دیکھنے اور غور کرنے سے متعلق ہے۔ لفظ بھی نے الگ سے‘ کے معنی دے کر‘ دیکھنے کی حس کو مخصوص نقطے کا پابند کر دیا ہے۔

استاد غالب کی ایک غزل ہے‘ جس کا یہ شعر عرف عام کے درجے پر فائز ہے:
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
غزل کے نو شعر ہیں۔ سوامی رام تیرتھ نے‘ اسی طور کی چھے اشعار کی غزل یاد میں چھوڑی ہے۔ ان میں ایک شعر استاد غالب کا ہے۔ گویا پانچ شعر سوامی جی نے کہے ہیں۔ انہوں نے‘ غزل میں استاد غالب کا شعر‘ بڑے عمدہ موقع پر رکھا ہے۔ سوامی جی کی غزل راگ بروا میں ہے۔ غزل کو تال مغلئی دی گئی ہے۔ غزل ملاحظہ ہو۔

آپ ہی ڈال سایہ کو‘ اس کو پکڑنے جائے کیوں
سایہ جو دوڑتا چلے کیجے وائے وائے کیوں
دیدءدل ہوا جو دا کھب گیا حسن دل ربا
یار کھڑا ہو سامنے آنکھ نہ پھرٹرائے کیوں
گنج نہاں کے قفل پر سر ہی تو مہر شاہ ہے
توڑ کر قفل و مہر کو گنج کو خود نہ پائے کیوں
اہل و عیال و مال و زر سپ کا ہے بار رام پر
اسپ پر ساتھ بوجھ دھر‘ سر پر اسے اٹھائے کیوں
جب وہ جمال دل افروز صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز‘ پردے میں منہ چھپائے کیوں
داشنہ غمزہ جانستان ناوک ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رخ سہی‘ سامنے تیرے آئے کیوں

سایہ ڈالنا‘ سایہ پکڑنا‘ سایہ دوڑنا‘ بوجھ سر پر اٹھانا‘ آنکھ پھرٹرانا‘ منہ چھپانا‘ سامنے آنا' قفل توڑنا' دا کھب جانا‘ دا کھبنا‘ بوجھ دھرنا یہ محاورے عمومی بول چال میں داخل ہیں۔ دا کھبنا پنجاب سے متعلق ہے۔

ہائے وائے کی بجائے وائے وائے
عکس رخ' ناوک ناز
ناوک ناز کی صورت بےپناہ

اسپ کا استعمال سادہ نہیں ہوا
کی‘ کی تفہیم آسان نہیں توجہ چاہتی ہے۔

تیرا ہی عکس رخ سہی
تیرا ہی عکس رخ تک رسائی کے لیے منصور کے مرتبے آنا پڑے گا۔ پہلے مصرعے میں بےپنا کا استعمال یوں ہی چلتے نہیں ہوا۔

گنج نہاں‘ عمومی مفاہیم میں استعمال نہیں ہوا۔
تیسرے مصرعے میں لفظ ہی کا استعمال مخصوص معنوں کا حامل ہے۔

استاد غالب کے انداز میں‘ راگ بروا اور تل مغلئی میں‘ لکھی گئی ایک غزل ملاحظہ ہو۔ باور رہے‘ غالب کی غزل کے دس اشعار ہیں‘ جب کہ سوامی جی کی غزل میں پانچ اشعار ہیں۔

آپ میں یار دیکھ کر آئینہ پرصفا کہ یوں
مارے خوشی کے کیا کہے ششدر سا رہ گیا ہوں کہ یوں
رو کے جو التماس کی‘ دل سے نہ بھولیو کبھی
پردہ ہٹا‘ دوئی مٹا مہ نے بھلا دیا کہ یوں
میں نے کہا کہ رنج و غم مٹتے ہیں کس طرح کہو
سینہ لگا کے سینے سے اس نے بتا دیا کہ یوں
گرمی ہو اس بلا کی ہائے بھنتے ہوں جس سے مرد و زن
اپنی ہی آب وتاب ہے خود ہی ہوں دیکھتا کہ یوں
دنیا و عاقبت بنا واہ دا جو جہل نے کیا
تاروں ساں مہر رام نے پل میں اڑا دیا کہ یوں

کیا کہے‘ کہو‘ بھنتے‘ بلا کی‘ ہائے‘ میں نے کہا‘ کس طرح‘ روزمرہ کے تکیہءکلام میں داخل ہیں۔ عمومی اور عوامی بول چال کا حصہ ہیں۔ اس سے‘ زبان سے قربت کا احساس جاگتا ہے۔ نشان دہی یا توجہ دلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

خوشی کے مارے‘ کو محاورے کا درجہ حاصل ہے۔ مارے‘ مارنا سے ہے‘ لیکن اس میں مارنا کا دور تک تعلق واسطہ نہیں‘ بلکہ اس سے قطعی برعکس عمل ہے۔
ششدر رہ گیا‘ اڑا دیا‘ اردو میں عام استعمال ہوتے ہیں ۔ شعر میں‘ ششدر رہ گیا کے ساتھ سا کے استعمال نے بیچ کی کیفیت کو اجاگر کیا ہے۔
دا کیا‘ دا میں ؤ گرا دی گئی ہے۔ یہ داؤ کا اختصار ہے اور پنجابی میں مستعمل ہے۔
سینہ لگا کے سینے سے‘ سین کا تکرار جہاں مخصوص ایمج تشکیل دے رہا ہے‘ وہاں سانس کی تیز رفتاری کو بھی ظاہر کر رہا ہے۔ صنعت تکرار لفظی ہو‘ کہ تکرار حرفی‘ اس سے غنائیت پیدا ہوتی ہے۔ یہ مضمون کو زور دار بنانے میں‘ بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔

غالب کی طرز پر‘ دستیاب یہ تین غزلیں‘ عوامی اور مستعمل زبان کی حامل ہیں۔ اس لیے تفہیم میں کسی مقام پر‘ دشواری محسوس نہیں ہوتی۔ جہاں انہوں نے‘ زبان کو فارسی آمیز بنانے کی کوشش ہے‘ وہاں پنجابی لہجہ بھی محسوس ہوتا ہے اور وہ‘ بنیادی طور پر پنجاب کے‘ پنجابی تھے‘ اس لیے پنجاب اثر غیر فطری نہیں۔ سوامی جی پر‘ میں نے جو ان کے کلام پر‘ ان کی زبان کے حوالہ سے کام کیا تھا‘ اگر الله نے زندگی کو مہلت دی‘ تو کسی دوسرے وقت میں پیش کروں گا۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 190958 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.