آفتاب بدایونی
ان کے دو شعر بیاض میں درج ہیں:
کسکی آتی ہے صدا پردہ دل سے یا رب
میں نے پہلے بہی سنی تہی یہی آواز کہیں
کہیں پروانوں کا جہگٹ کہیں شمعوں کا ہجوم
ایک ہی حسن ازل سوز کہیں ساز کہیں
پہلے شعر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے بہی سنی تہی یہی آواز کہیں۔۔۔۔۔۔عمومی
تکیہءکلام ہے۔ عموما کہا جاتا ہے۔
سنا سنا سا ہے
یاد نہیں آ رہا سنا سنا سا لگتا ہے۔
دیکھا دیکھا سا لگنا‘ سنا سنا سا لگنا‘ مانوس سا ہونے کے لیے‘ عموم و خصوص
میں مستعمل ہے۔ سوز کہیں ساز کہیں خوب صورت ترتیب ہے۔
ارشد بدایونی
ان کا صرف ایک شعر بیاض میں پڑھنے کو ملتا ہے:
تعزیہ خانوں میں مت جایا کرو اے ارشد
ہمتو پہلے ہی محرم سے الم دیکھ چکے
ارشد بدایونی پر یہ الزام دھرنا‘ کہ وہ اہل تشعیہ کے مخالف رہے ہوں گے‘
درست نہ ہوگا۔ دکھ اٹھانے‘ دیکھنے یا برداشت کرنے کی انتہا کو واضح کر رہے
ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ محرم سے الم۔۔۔۔۔۔۔۔ دکھ اور صعوبت کی شدت کو‘ واضح کرنے کے
حوالہ سے‘ بڑا جان دار مرکب ہے۔ تشبیہی طور اختیار کرنے کے لیے‘ تلمیح کا‘
بڑے جان دار طریقہ سے‘ استعمال کیا گیا ہے۔
دیکھ چکے۔۔۔۔ سگ گزیدہ کا پانی سے ڈرنا‘ غیر فطری عمل نہیں۔ سے۔۔۔۔۔۔ دوہرے
معنی رکھتا ہے:
محرم سے مماثلت رکھتے۔
محرم سے گزرنا۔۔۔۔۔۔ ان معنوں میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ارشد سادات سے
ہوں یا کربلا والوں کے ساتھیوں میں سے ہوں۔ پہلے ہی۔۔۔۔۔۔ کا استعمال‘ فکر
کو اس جانب لے جاتا ہے۔
امیر بدایونی
ان کے مختلف جگہوں پر دو شعر ہیں:
مجھسے بگڑے تہے تو خط بہی مجھے بگڑا لکہا
حسن اخلاق نہ تہا حسن رقم بہی نہ رہا
دونوں مصرعوں میں‘ جہاں لفظوں کا استعمال حسن رکھتا ہے‘ وہاں تفہیمی حوالہ
سے بھی کچھ کم نہیں۔ پہلے مصرعے میں‘ انسانی رویے کی عکاسی کرنے کے ساتھ
ساتھ‘ عمومی رویے کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں اصول بیان کیا
گیا ہے:
اصول: کوئی برا بھلا کہتا ہے‘ تو تم اپنی فطرت پر رہو‘ اخلاق کا دامن ہاتھ
سے نہ جانے دو۔ اس کی صورت کوئی بھی رہی ہو۔ زبان اور قلم اس کے تحت ہی فعل
انجام دیتے ہیں۔
دوسرے مصرعے میں ۔۔۔۔ نہ تھا۔۔۔۔ کا استعمال ہوا ہے‘ لہذا رد عمل بھی‘ نہ
تھا کے مطابق سامنے آتا ہے۔ ہونے اور ناہونے کی امتیازی صورت سامنے آتی ہے۔
بگڑے تہے۔۔۔۔۔۔۔۔ خط بہی بگڑا لکہا
لفظوں کا خوب صورت انسلاک سامنے آتا ہے۔
اسی طرح‘ حسن اخلاق کے ساتھ‘ حسن رقم کا استعمال‘ خوب ہوا ہے۔ان کا دوسرا
شعر بھی کچھ کم نہیں ہے۔ کہتے ہیں:
نادم ہو امیر اپنے افراط معاصی پر
شاید کہ پذیرا ہو انداز ندامت کا
لسانیاتی حوالہ سے‘ امیر بدایونی کے اس شعر کی داد نہ دینا‘ زیادتی ہو گی۔
افراط معاصی اور انداز ندامت‘ دونوں مرکب من بھاتے ہیں۔ سماعی اور تفہیمی
حوالہ سے‘ بلاغت کا عمدہ نمونہ ہیں۔ انداز ہی کے تحت‘ ردعمل سامنے آتا ہے۔
منفی یا جعلی انداز کی پذیرائی نہیں ہوتی۔ مثبت اوراصلی انداز کو ہی‘
پذیرائی میسر آتی ہے۔ دوسرے مصرعے کا آغاز امکانی صورت کو واضح کرتا ہے‘ جب
کہ آخر میں امکان کو طور سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
جامی بدایونی
بیاض کے صفحہ ١٣ پر جامی بدایونی کے دو شعر درج کیے گیے ہیں:
خود وہ اپنے آپ کو پہچاننے والا نہیں
اپنے محسن کا جو احسان ماننے والا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہ کرنا نہیں مگر کیں سبز باغ دہر کی سیریں
فریب حسن میں آ ہی گیا آخر کو انسان تھا
خود کو مستعمل ہے۔ پہلے مصرعے میں‘ لفظوں کے استعمال کا یہ ہی کمال ہے‘ کہ
خود کے استعمال کے لیے‘ اپنے آپ کا استعمال کیا گیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے
مترادف ہیں۔ دونوں کا ایک ساتھ‘ استعمال کیا گیا ہے۔ دوسرے مصرے میں‘ محسن
اور احسان کا‘ ایک ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ محسن صفتی نام ہے۔ قاری کو
پہلے مصرعے یا اپنی سمجھ کے زیر اثر‘ وہ کون ہے‘ کو تلاشنا ہے۔
نہ کرنا نہیں‘ عمومی طور اور رویہ ہے۔ کیں ایک سے زائد کی طرف اشارہ ہے۔ ہم
صوت لفظوں کا یہ کمبی نیشن خوب ہے۔ کیں سیریں یا نثر میں سیریں کیں۔ دہر
کو‘ سبز باغ سے نسبت دی گئی ہے۔ جو ہو رہا ہے یا کر رہے ہیں‘ محض خیالی
پلاؤ ہے‘ وگرنہ اپنی حقیقت میں‘ کچھ بھی نہیں۔ والا نہیں‘ مستقل عادت کا
غماز ہے۔ دو صورتیں دی ہیں ایک بصارت سے متعلق ہے‘ جب کہ دوسری کا تعلق
محسوس سے ہے۔ والا نہیں ۔۔۔۔۔۔ کے ساتھ‘ ظاہر اور باطن متوازی رواں ہیں۔
فریب حسن میں
آ ہی گیا
آخر کو
انسان تھا
آ ہی گیا۔۔۔۔ بڑا ہی سیانا تھا‘ کی وضاحت کر رہا ہے۔ آخر کو۔۔۔۔۔۔ محتاط
روی کو واضح کر رہا ہے۔ انسان تھا۔۔۔۔۔ انسان خطا کا پتلا ہے÷ کتنا بھی
محتاط ہو‘ نادانستہ طو پر سہی‘ کچھ ناکچھ غلط کر ہی جاتا ہے‘ یا اس سے ہو
جاتا ہے۔ فکر جو بھی پیش کی گئی ہے‘ اپنی جگہ‘ لفظوں کی نشت و برخواست خوب
ہے۔ فریب حسن میں‘ دیدنی سے کلی انحراف ملتا ہے۔ ہے ہی نہیں‘ گویا انسان ہے
ہی نہیں‘ کے پیچھے دوڑے چلا جا رہا ہے۔
راغب بدایونی
صاحب بیاض راغب بدایونی نے‘ ناصرف اپنے ٠٦اشعار بیاض کا حصہ بنائے ہیں‘ دو
مکمل غزلیں بھی درج کی ہیں۔
رہے نہ دہوکے میں لامکاں کے پڑے نہ پیچہے وہ میری جان کے
دہوئیں اڑا دیگا آسماں کے اثر مری آہ آتشیں کا
دھوکے میں رہنا‘ پیچھے پڑنا
دھویں اڑانا:
دہوئیں اڑا دینا ۔۔۔۔۔۔۔ بالکل نیا اور الگ سے چلن ہے تاہم کہیں ناکہیں
سننے کو مل جاتا ہے۔ اسے پرخچے ازانا کے مترادف میں‘ استعمال کیا گیا ہے۔
اس چلن نے‘ فصاحت میں اضافہ کیا ہے۔ آسمان کی گردش اثرات کے حوالہ سے مسلم
ہے‘ آہ آتشین غالب کا مرکب ہے‘ جس کا استعمال خوب کیا گیا ہے۔ مصرعہ
دیکھیں:
دہوئیں اڑا دیگا آسماں کے
اثر مری آہ آتشیں کا
اف اتنی تپش۔ اس تپش کے حوالہ سے‘ شخصی آہ کا اثر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
معروف ہے: مظلوم کی آہ سے بچو‘ اس سے عرش بھی کانپ
جاتا ہے۔
شعر میں مزید دو محاوروں کا استعمال ہوا ہے: دھوکے میں رہنا‘ پیچھے پڑنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیدار جلوہ ہو جو میسر تو کسطرح
وہ بےنیاز ہے ہمیں ذوق نظر نہیں
بڑا خوب صورت شعر ہے۔
دیدار جلوہ ہو جو میسر
تو کسطرح
سوالیہ‘ الگ سے طور کا حامل ہے۔ تو کس طرح نے‘ سوال پر حیرت طاری کر دی ہے۔
وجہ بھی بیان کر دی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں ذوق نظر نہیں۔ ورنہ وہ تو بے نیاز ہے۔
جلوہ دینے والے کی طرف سے کوئی حیل وحجت نہیں۔ پہلے مصرعے میں واؤ کے تکرار
نے‘ الگ سے کیفیت پیدا کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کے انتظار وعدہ میں یہ حال ہے راغب
کہ میری زندگی منت کش امروز و فردا ہے
وعدہ یقین اور انتظار بےچینی کا سبب بنتا ہے۔ جب یہ طوالت کھینچے‘ تو تذبذب
جنم لیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منت کش امروز و فردا۔۔۔۔۔۔۔ لفظوں کی ترتیب نے‘
مضمون میں بڑی جان پیدا کر دی ہے۔ عمومی سطح پر بھی‘ یہ ہی ہے‘ کہ زندگی آج
اور کل کے حوالہ سے ہوتی ہے۔ شخصی کیفیت کی تصویر کشی‘ اپنا مخصوص اثر
چھورتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم کیف جلوہ پائین بہی تو کسطرح پائیں
ذوق نظر ہوا جو تو تاب نظر نہیں
شعر‘ محسوس سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ہی تو کا استعمال بڑا ہی جان دار ہے۔ ذوق
نظر میسر آیا‘ عروج کی حد ہے۔ ہر کوئی اسی کا متلاشی ہے۔ شاعر نے کمال کا
نقطہ اٹھایا ہے‘ ذوق نظر میسر آ جانا کافی نہیں‘ تاب نظر کو‘ نظرانداز نہیں
کیا جا سکتا۔ دونوں گرہ میں ہوں‘ تو جلوہ پایا جا سکتا ہے۔ جلوہ‘ بلاشبہ
کیف کا حامل ہوتا ہے۔ کیف سے‘ قلب و نظر کو تسکین میسر آتی ہے۔ ذوق نظر اور
تاب نظر نے‘ شعر کو بڑا حسن دیا ہے۔ اسی طرح پہلے مصرعے میں‘ دو بار پائیں
کا استعمال‘ موسییقت کا ہی سبب نہیں بنتا‘ بلکہ دو معاملات اور امور سامنے
لاتا ہے‘ اور بہت بڑا سوالیہ بھی چھوڑتا ہے۔
ہم کیف جلوہ پائین
بہی تو
کسطرح پائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غیر کی باتوں سے ناحق ہو گئے کیوں بدگمان
امتحان عاشق جانباز لیکر دیکھتے
راس آئی کچہ نہ اے راغب بہار زندگی
ورنہ اک دو چار دن دنیا میں رہکر دیکھتے
بدگمان ہونا‘ امتحان لینا‘ راس آنا محاورے کے درجے پر فائز ہیں۔ دو چار
روزمرہ میں داخل ہے۔ زندگی دوچار دن کی‘ عمومی بول چال میں ہے۔ راغب نے اک
کا اضافہ کیا ہے۔ اگرچہ یہ دو چار سے متعلق نہیں ہے۔ دنیا میں رہ کر دیکھنا
کا اپنا ہی لسانیاتی حسن ہے۔
ص ٤٤-٤٥ پر موجود دو غزلوں کے ١٣ اشعار ہیں۔ ایک غزل چھے جب کہ دوسری سات
اشعار پر مشتمل ہے۔
خوشا نصیب وہ مے انکے اہتمام میں ہے
حقیقت دو جہاں جسکے ایک جم میں ہے
بہ استواری ایماں جہکا جبین نیاز
بٹھک رہا ہے کہاں کس خیال خام میں ہے
حدیث زلف بہی سر کر یکانہ اے دل زار
ہنوز کشمکش سعی ناتمام میں ہے
نگاہ سوئے مدینہ ہے نزع کا عالم
میں اپنے کام میں ہوں موت اپنا کام میں ہے
کوئی بتاؤ مدینہ کی صبح کیا ہو گی
سحر کا لطف میسر جہاں کی شام میں ہے
یہ بضاعتی علم عاجزم راغب
ورنہ جوش طبعت مرے کلام میں ہے
وہ مے‘ خصوصی مے کی طرف واضح اشارہ‘ انکے اہتمام میں ہے‘ بھی خصوصی بات ہے‘
شاعر اسے خوش نصیبی کا نام دے رہا ہے۔ یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے‘ کہ اگر
کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی‘ تو کسی کو میسر ہی نہ آتی۔ اہتمام نیا طور تکلم
ہے۔
دوسرا مصرعہ بھی اپنے لسانیاتی اور معنوی کمال کو واضح کر رہا ہے۔ آخر وہ
خصوصی کیوں ہے‘ اس میں حقیقت دوجہاں موجود ہے۔ ایک دوسری بات ہے‘ ان ہاتھوں
کا بھی تو کمال ہے۔
جبین جھکانا الگ سے چلن ہے۔
دوسرے مصرعے میں کاف کا تین بار استعمال کیفیت تشکیل دے رہا ہے۔
کہاں کس نے مصرعے کو رعنائی بخش دی ہے۔
اس سے اگلے شعر میں‘ ترکیب سعی ناتمام نے‘ زندگی کی مستعمل جدوجہد پر خط
کھنچ دیا ہے۔
نگاہ سوئے مدینہ ہے
نزع کا عالم
میں اپنے کام میں ہوں
موت اپنا کام میں ہے
تین حالتیں اور دو محرک ہیں۔ دو کردار دو الگ سے‘ کاموں میں مصروف ہیں۔
دوسرے مصرعے میں تکراری چلن خوب ہے۔
کوئی بتاؤ
مدینہ کی صبح
کیا ہو گی
سحر کا لطف میسر
جہاں کی شام میں ہے
لسانی اعتبار سے‘ اس شعر کی داد نہ دینا‘ سراسر زیادتی ہوگی۔ ابتدا ہی‘
آگہی کے سوالیے سے ہوئی ہے۔ اختمامیہ بھی سوالیہ ہے۔ دوسرے مصرعے میں‘ صبح
کا قریبی مترادف‘ سحر استعمال میں آیا ہے۔ سحر کا لطف‘ بیان کا محتاج نہیں۔
دوسرے مصرعے کے‘ دوسرے حصہ میں‘ متضاد کا استعمال الگ سے ہوا ہے۔ شام کا
لطف صبح سا‘ الگ سے مضمون ہے۔ یہ نسبتی انداز‘ شعر کو جان دار بنا رہا ہے۔
جوش طبیعت‘ کلام کو میسر ہو تو لطف نہ آئے‘ بھلا کیسے ممکن ہے۔ ہاں موضوع
کلام ہی اس نوعیت کا ہے‘ کہ یہاں طائر جوش طبیعت کے پر جلتے ہیں۔ تب ہی تو
مقطعے میں فکری معذوری کا اظہار کیا گیا ہے۔ ترکیب جوش طبعت کا استعمال‘
کلام کو وجاحت بخش رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تک نہ وصف بادہ و جام و سبو کریں
پیر مغاں سے ملنے کی کیوں آرزو کریں
الہ رے نوازش جوش جنون عشق
ہم پیرہن کو چاک کریں وہ رفو کریں
پنہاں ہے میرے گریہ میں صد جلوہءبہار
صحرا میں بیٹھ جاؤں تو کانٹے نمو کریں
تقدیر کی خطا ہے کسیکا گلہ نہیں
مجہے غم فراق کی پرسش عدو کریں
لذت کش فراق ہو جب آرزوئے دل
پہر کیا کسی کے وصل کی ہم آرزو کریں
ہرگز نماز عشق میں سجدہ روا نہیں
جب تک نہ پہلے خون جگر سے وضو کریں
راغب خدا کے سامنے جانا ہےایکدن
آؤ تو پہر اسیکی نہ کیوں جستجو کریں
راغب بدایونی کی‘ دوسری غزل کا آغاز ہی شرطیہ ہے اور یہ شرطیہ‘ زندگی کا
لازمہ ہے۔ لفظ وصف کا استعمال‘ تعریف و تحسین کے معنوں میں ہوا ہے۔ ملنے کی
دوہرے مفہوم دے رہا ہے۔ دوسرے مصرعے کے الہ رے نے لکھنوی‘ نزاکت سی پیدا کر
دی ہے۔ برجستہ ہونے کے باعث‘ لطف میں اضافہ ہوا ہے۔ چاک اور رفو کا ایک
ساتھ ااستعمال بھی لطف فراہم کرتا ہے۔
گریہ میں جلوہ ہائے بہار کا پوشیدہ ہونا‘ رویت سے ہٹ کر مضمون ہے۔ صنعت
تضاد کا‘ بالکل الگ سے استعمال کیا گیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں‘ اس بہار کی
وضاحت بھی کر دی گئی ہے۔ لفظوں سے راغب بدایونی کی یہ آنکھ مچولی‘ من کو
بھاتی ہے۔
پرسش عدو نے‘ بلاشبہ شعر کی جان بنا دی ہے۔ طنز اور بےکسی کا‘ بڑی عمدگی سے
اظہار کیا گیا۔ یہ ایک مرکب ہر دو عناصر کو بیان کرنے کے لیے کافی ہے۔
قیامت دیکھیے آرزوئے دل‘ لذت کش فراق ہوئی ہے۔ اس سطح پر وصل کی جہد‘
بےمعنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اگلے شعر میں نماز‘ وضو اور سجدہ کا ایک ساتھ
استعمال ہوا ہے۔ جب تک نے معاملے کو شرطیہ بنا دیا ہے۔
سامنے جانا کو روبرو ہونا کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ پنجاب میں بول چال کا
یہ انداز عمومی ہے۔ کیوں ناں بھی عمومی استعمال میں رہتا ہے۔ اصل لسانی حسن
آؤ تو کے استعمال میں ہے۔ اسی طرح لفظ جستجو معنوی وسعت رکھتا ہے۔
رند بدایونی
رند بدایونی کا صرف ایک شعر اس قلمی بیاض میں شامل ہے۔ ملاحظہ ہو
گر یہی مدنظر تہا ہم تری طاعت کریں
کیوں بتوں کو حسن بخشا جس سے ہم بہولے تجھے
زلائی بدایونی
زلائی بدایونی کے دو شعر اور ایک غزل اس بیاض کا حصہ بنے ہیں:
وہ اور ہونگے جو فضل سے سرخرو آئے
زلالی ہم تو لئے لاش آرزو آئے
زلائی بدایونی نے سرخرو آنا باندھا ہے۔ عمومی بول چال میں‘ سرخرو ہونا
مستعمل چلا آتا ہے۔
ہائے دیکہی بہی نہ جاتی ہوئی دنیا دلکی
ایسا بےدرد ہوا درد جگر میں رہ کر
پہلے مصرعے میں جاتی ہوئی توجہ کا سبب بنتی ہے۔دوسرے مصرعے میں جگر کے
متعلقات کا استعمال خوب ہوا ہے۔ ملاحظہ ہو
ایسا بےدرد ہوا
درد
جگر میں رہ کر
زلالی بدایونی کی یہ غزل پانچ اشعار پر مشتمل ہے اور اس کے خوش کلام اور
خوش زبان ہونے کی دلیل ہے۔
سمجہے تہے سہل ہم شب ہجراں کا ٹالنا
مشکل بہت پڑا دل مضطر سنبھالنا
لانا ہے مجکو شمس و قمر آسمان سے
تسبیح میں درود کے شمسے ہیں ڈالنا
کانٹا الم کا دل سے نکالا حضور نے
باقی ہے ایک پھانس اسے بہی نکالنا
سر پر نبی کے تاج شفاعت ہے عاصیو
خوش ہو کے ٹوپیاں سر محشر اچھالنا
اچہوں کی پرورش کا زمانہ میں ہے رواج
اچھا ہو یا برا ہو تمھیں سب کا پالنا
مشکل پڑنا‘ شمسے ڈالنا‘ ٹوپیاں اچھالنا کا استعمال‘ حسن بخش ہے۔ تلمیحات کا
استعمال برمحل ہے۔ کانٹا اور پھانس کا ایک ساتھ استعمال سونے پہ سہاگے والی
بات ہے۔
عیش بدایونی
عیش بدایونی کا صرف ایک شعر بیاض کے حصہ میں آیا ہے۔
جمع احباب کئے ہیں کہ ذرا دل ٹہرے
تم بہی آ جاؤ تو محفل مری محفل ٹہرے
دل ٹہرنا الگ سے استعمال ہے اور فصیح ہے۔ بھلا لگتا ہے۔ مخصوص کے ہونے سے
محفل کو محفل قرار دیا ہے۔
فانی بدایونی
فانی بدایونی کے کافی شعر شامل بیاض ہیں۔ ان کا تذکرہ معروف شعرا میں آئے
گا۔
قمر بدایونی
یہ تو ممکن ہے کہ دل میں کہوں منہ پر نہ کہوں
یہ نہ ہو گا کہ ستمگر کو ستمگر نہ کہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کسی شخص کا دنیا میں برا کیوں چاہوں
لوگ رکھتے ہیں قمر مجہسے عداوت نہ کہ میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نامہ بر تو ہی بتا تو نے تو دیکہے ہونگے
کیسے ہوتے ہیں وہ خط جنکے جواب آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل میں کہنا‘ منہ پر کہنا‘ یہ نہ ہو گا‘ بتا تو‘ کیسے ہوتے ہیں‘ نہ کہ
میں۔۔۔۔۔۔ عمومی بول چال میں داخل ہیں۔ دوسرے مصرعے میں حرف گاف کا تکرار
مخصوص ایمیج تشکیل دے رہا ہے۔
نامہ بر کے ساتھ خط اور جواب متعلقات کا استعمال خوب ہے۔
طرز برجستہ‘ دو ٹوک‘ وضاحتی اور ناصحانہ ہے۔
سوالیہ حسرت سے لبریز ہے۔
نو اشعار پر مشتمل ایک غزل بھی بیاض میں شامل ہے۔
لطف بدایونی
لطف بدایونی کا ایک شعر بیاض میں شامل کیا گیا ہے۔
صبا نے ایسا شگوفہ چمن میں چہوڑا ہے
کہ آج تک گل و بلبل میں بول چال نہیں
لسانیاتی اعتبار سے‘ خوب صورت شعر ہے۔ لفظوں کے استعمال میں ہنر مندی پائی
جاتی ہے۔ چمن سے متعلقات کو‘ بڑے سلیقے سے ترتیب دیا گیا ہے۔ شگوفہ چمن سے
متعلقات میں سے ہے‘ لیکن شگوفہ چھوڑنا معروف محاورہ بھی ہے۔ گل اور بلبل‘
اردو شعر کے معروف کردار ہیں‘ انہیں ناصرف پہلو بہ پہلو پیش کیا گیا ہے‘
بلکہ ان میں رنجش کو بھی‘ واضح کیا گیا ہے۔ بول چال صرف ہم صوت لفظ ہی نہیں
ہیں بلکہ یہ مرکب ہمارے روزمرہ میں داخل ہے۔ اگر صبا‘ چمن اور گل و بلبل
کو‘ استعاراتی استعمال سمجھا جائے‘ تو غضب کا شعر ہے۔
منور بدایونی
منور بدایونی کے آٹھ اشعار بیاض میں ملتے ہیں۔
نظر آتی ہیں سوئے آسماں کبہی بجلیاں کبہی آندہیاں
کہیں جل نہ جائے یہ آشیاں کہیں اڑ نہ جائیں یہ چار پر
بلائیں‘ آسمان سے منسوب رہی ہیں۔ اصواتی آہنگ اور غنائیت کے سبھی عناصر‘ اس
شعر میں موجود ہیں۔ عصری حالات کی‘ اس سے بڑھ عکاسی ممکن نہیں۔ اڑ نہ جائیں
چار پر‘ خوب صورت اختراع ہے۔ چار روز کی زندگی‘ چار پیسے وغیرہ‘ کم ہونے
ہونے کے حوالہ سے‘ مستعمل ہیں۔ اسی رعایت سے‘ چار پر‘ خوب صورت مرکب ہے۔
چار کا صفتی اور اختصاصی استعمال ہوتا آیا ہے۔ پہلے مصرے میں کبھی جب کہ
دوسرے میں کہیں تکراری ہے۔ دوسرے مصرعے میں‘ نہ تکراری ہے جو خدشے کو
نمایاں کرنے میں‘ کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
اب کنج لحد میں ہوں میسر نہیں آنسو
آیا ہے شب ہجر کا رونا مرے آگے
منور بدایونی نے‘ غالب کا اسٹائل مارا ہے۔ خدا لگتی تو یہ ہی‘ مضمون اپنی
جگہ‘ زبان بھی خوب صورت ہے۔ اگے آنا‘ پنجابی کا معروف محاورہ ہے۔ بددعا کے
لیے زیادہ تر استعمال ہوتا ہے۔ یہاں عملی صورت پیش کی گئی ہے۔ کنج لحد اور
شب ہجر تنہائی کی علامت ہیں۔۔۔۔۔۔ میسر نہیں آنسو۔۔۔۔۔۔۔ حرفی تکرار اپنی
جگہ‘ لفظوں کا استعمالی حسن بصری حس بیدار کرتا ہے۔
دل میں لہو کی بوندیں کچہ جان بن گئی ہیں
آنکہوں سے جو بہی ہیں طوفان بن گئی ہیں
کافر تری نگاہیں تیری ہیں یا میری ہیں
جو مری زندگی کا سامان بن گئی ہیں
مخلوط ہو کے جلوے شکلوں میں آ گئے ہیں
رنگینیاں سمٹ کر انسان بن گئی ہیں
دل: لہو‘ بوندیں
سب نہیں۔۔۔۔ کچھ : جان بن گئی ہیں
کچھ: گزارے موافق‘ قدرے‘ کمزور سی
طوفان: عملی صورت میں مبالغہ‘ معنوی صورت میں جھگڑا‘ فساد‘ خرابہ‘ مصیبت‘
دکھ‘ تکلیف‘ رنج صدمہ‘ بدترین کیفیت وغیرہ
کافر تری نگاہیں: مخاطب سے کہا جا رہا ہے۔ تیری ہیں یا میری ہیں‘ صورت حال
ہی بدل گئی ہے۔
زندگی کا سامان بننا‘ عمومی محاورہ بھی ہے۔
وجہ: نگاہیں‘ آنکھیں نہیں‘ آنکھوں کی کارگزاری وجہ ہے۔
میری تیری متضاد ضمائر کا استعمال کیا گیا ہے۔
جلولے‘ تجسیم کے ساتھ شکلیں
مخلوط اور سمیٹ کر مترادف استعمال ہوا ہے
اشیا کے لیے جلوے
انسان کے لیے رنگینیاں
تینوں اشعار فکری اور لسانی حوالہ سے خوب صورت ہیں‘ من کو بھاتے ہیں۔
نظر انداز کرنا چاہتا ہوں خود پرستی کو
ترے جلوں میں شامل کر رہا ہوں اپنی ہستی کو
خدا سمجہے بت پرفن تری آنکہونکی مستی کو
مرے مشرب میں داخل کر دیا ہے مے پرستی کو
پڑا تہا دہتبہ کی طرح دامان ہستی پر
مبارک ہو مرا مٹنا منور بزم ہستی کو
نظر انداز کرنا‘ خود پرستی اور شامل کرنا کیفیتیں ہیں۔ میں ٹھیک سے کچھ کہہ
نہیں سکتا‘ کہ یہ بیاض کب کی ہے‘ اندازہ یہ ہی ہے کہ ١٨٨٤ اور ١٨٨٧ کے
درمیان کی ہے۔ پہلا شعر جہاں رومان پرور ہے‘ وہاں اس میں سرئیلزم کے اثرات
موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ٹھہرے گا‘ کہ یہ تحریک ایسی کوئی نئی چیز نہ تھی۔
کر رہا ہوں‘ صیغہ حاضر ہے اور وحدت الود کا بنیادی عنصر ہے۔ اہل صوف کی یہ
منزل قرار پاتی ہے۔ خود پرستی نرگسیت کی طرف لے جاتی ہے۔ ذات کا انحراف
کوئی آسان کام نہیں۔ شاعر واضح لفظوں میں کہہ رہا ہے‘ نظر انداز کرنا چاہتا
ہوں۔ دوسرے مصرعے میں‘ عمل کی صورت بڑی ہی نمایاں ہے۔ ولیم ورڈزورتھ‘ فطرت
کے مناظر میں گم ہونے کی سعی کرتا ہے۔ منور کے ہاں ترے کی ضمیر کا استعمال
ہوا ہے۔
منور معاون افعال کا استعمال کرکے‘ کلام میں حسن‘ چاشنی اور جان پیدا کرتا
ہے۔ مثلا کرنا چاہتا‘ کر رہا‘ کر دیا۔
منور کی روزمرہ اور محاورے پر دسترس محسوس ہوتی ہے۔ مثلا خدا سمجہے‘ کا بڑی
عمدگی شائستگی سے استعمال کیا گیا ہے۔
مرکب بھی خوب تشکیل دیتا ھے۔ مثلا بت پرفن‘ پرفن کے لاحقے نے بت کی حیثیت
کو چار چاند لگا دیے ہیں‘
مے کا تعلق پینے سے ہے‘ مشرب کو‘ قطعی مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے
اور ان معنوں میں‘ یہ مستعمل بھی ہے۔
لفظوں کا تشبیہی استعمال‘ حظ میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ منور بدایونی کے
ہاں‘ یہ ہنر بھی ملتا ہے۔
چھٹے مصرے میں میم کے حرفی تکرار نے شعریت میں زبردست اضافہ کیا ہے۔
تیرا وعدہ نہیں تو تو کیا ہے
آدمی کیا وہ جسکی بات نہیں
اس شعر کو پڑھ کر‘ یا سن کر منہ سے‘ واہ نہ نکلنا‘ بد ذوقی ہو گی۔ تو کا دو
مرتبہ الگ سے صیغوں میں استعمال کرنا‘ تو ایک طرف رکھیے‘ لفظ بات کا
استعمال اپنا جواب نہیں رکھتا۔ یہ استعمال بتاتا ہے‘ منور مرد تھا اور بات
والا مرد تھا۔ |