’’ہم وطن ‘‘
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
علامہ اقبال مرحوم کی روح سے
معذرت کے ساتھ ،کیونکہ انہوں نے فرمایاتھا:
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو اس کا پیرہن ہے وہ مذہب کا کفن ہے
گویا وہ یہاں مذہب کو وطنیت پر ترجیح دے رہے ہیں ، ان کی اس سوچ کے تناظر
میں پاکستان کا خواب بطور اسلامی فلاحی ریاست دیکھا گیا ،یہ سب تسلیم ہے ،مذہب
کو وطن پر اس طرح فوقیت حاصل ہے ،جیسے روح کو بدن پر اور بصیرت کو بصارت پر
،او ریہ بھی تسلیم ہے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے ، لیکن مسئلہ
درپیش یہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگ اصطلاحات سے عدم واقفیت کی بناء پر الفاظ
وکلمات کے اپنے معانی ومطالب تصور کرلیتے ہیں اور پھر اسی کو حقیقی معنی
ومقصود سمجھ لیتے ہیں ،جبکہ اس لفظ ومعنی میں درحقیقت کوئی مناسبت نہیں
ہوتی ، جیسے انقلابی ہونا یا انقلاب برپا کرنا ہمارے یہاں باعث فخرہے ،لیکن
جہاں سے یہ لفظ ِانقلاب آیاہے ،وہاں یہ غداری ،پلٹا کھانا اور کسی جائز
حکومت کاتختہ الٹانے کے معنی میں ہے ،اور جس کو ہم انقلاب سمجھتے ہیں ، اسے
عربوں کے یہاں ’’ثورہ ‘‘ کہاجاتاہے ، جو محمود ومطلوب اور قابل صد افتخار
گردانا جاتاہے ، اس پس منظر میں اگروطنیت اور مذہبیت کو دیکھا جائے اور
سمجھا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ سید حسین احمد مدنی مغربی استعمار کے
مابعد خطے میں جس وطن کی بات کررہے تھے ،وہ شہریت کی بنیاد پر تھی ، یعنی
تمام شہریوں کے لئے یکساں حقوق اور واجبات وفرائض ہوں گے ،جسکی دھائیاں آج
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظمین دے رہی ہیں ، اور جس کو برخلاف لبنان
میں عیسائیوں کی صدارت ، سنیوں کی وزارت عظمی اور اہل تشیع کی پارلیمنٹ میں
سپیکر شپ ، نیز موجودہ عراق میں کردوں کی صدارت ، اہل تشیع کی وزارت عظمی
اور اہل سنت کی سپیکر شپ کے نتیجے میں فرقہ واریت اور نسلیت پسندی میں
اضافے کی وجہ سے حکومتوں کوبُری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ۔
زمانہ تبدیل ہواہے ، کبھی دنیا میں حکومتیں رنگ ونسل کی ہوتی تھی ، کبھی
مذاہب کی ، لیکن قرون وسطی میں یورپ میں حکومتوں اور ملکوں کا تصور تبدیل
ہوگیا ، جمہوریات آگئیں ، یہ اور بات ہے کہ جمہوریت جمہوریت میں بھی فرق ہے
، لیکن صحیح جمہوریت دورِ جدید میں حکمرانی کا بہترین تصور ہے ،حقیقی
جمہوری معاشرے کا تصور اگر مغربی مفکرین کے کذ ب بیانی کو پرے رکھکر
دیکھاجائے تو میثاق مدینہ میں مضمر ہے ، جہاں نفع ونقصان اور حقوق وفرائض
میں تمام مواطنین اور شہری برابر کے شریک تھے، اس سے قبل انسانی تاریخ میں
اتناجامع اور ہمہ گیر منشور ودستور کہیں بھی نہ تھا اور آج بھی شاید اس کی
مثالیں کم ہیں، حضرت محمد ﷺ نے مدینہ ہجرت کے بعد یہاں کی آبادی
(خصوصایہود) کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ،جومیثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے ،
یہ پہلا بین الاقوامی تحریری معاہدہ ہے ، بعض مؤرخین ’’میگناکارٹا‘‘ کو
پہلابین الاقوامی معاہدہ قرار دیتے ہیں حالانکہ میثاق مدینہ 622ء میں ہو، ا
جبکہ میگناکارٹا 600سال بعد 1215ء میں انگلستان کے شاہ جان اول کے زمانے
میں ہوا۔میثاق مدینہ میں 53 دفعات شامل تھیں ، اس کی سب سے اہم خصوصیت یہ
تھی کہ آنحضرت ﷺ نے یہود سے اپنی سیادت تسلیم کرائی جو صدیوں سے مدینہ کی
سیادت کرتے جلے آرہے تھے، نبی کریم ﷺ کی آمد کی وقت مدینہ مین تین یہودی
قبائل بنو قینقاع ،بنو نضیر اور بنو قریظہ تھے، انصار کے اوس اور خزرج دو
قبیلے تھے، جبکہ تمام مہاجرین کو ایک اکائی تسلیم کیاگیا۔ منشور کا اگر
بغور جائزہ لیاجائے تو اس معاہدے کے دوحصے نظر آتے ہیں ، پہلے حصے کا تعلق
انصار ومہاجرین سے ہے ،اس کے اہم نکات یہ ہیں:
۱۔ تما م مسلمان اپنے آپ کو رضا کار سمجھیں گے۔
۲۔ مسلمان آپس میں امن واتحاد قائم رکھیں گے ۔
۳۔ اگر ان میں کوئی اختلاف ہوتو آنحضرت ﷺ کے فیصلے کو تسلیم کریں گے ۔
۴۔ مسلمانوں کے مختلف عناصر کو حقوق وفرائض کے لحاظ سے مساوی سمجھا جائے گا
۔
۵۔ فوجی خدمت سب کے لئے ضروری ہوگی ۔
۶۔ قریش مکہ کو پناہ نہیں دی جائے گی ۔
۷۔ تما م مہاجرین کو سب معاملات میں ایک قبیلہ کی حیثیت دی گئی ،جبکہ اس
منشور کی روشنی میں انصار کے قبائل کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا۔
۸۔ تما م معاملات کے لئے اور آپس میں اختلافات کے لئے آنحضرت ﷺ کا فیصلہ
قطعی ہوگا۔
دوسرے حصے کا تعلق یہودیوں کے تینوں قبائل سے تھا جس کے اہم نکا ت مندرجہ
ذیل ہیں :
۱۔ مدینہ میں رہتے ہوئے یہودیوں کو مذہبی آزادی ہوگی ۔
۲۔مدینہ کا دفاع جس طرح مسلمانوں پر لازم ہے اسی طرح یہودی بھی اسے اپنی
ذمہ داری سمجھیں گے ۔
۳۔ بیرونی حملے کے وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ متحدہوکر مدینہ کے دفاع میں
حصہ لیں گے ۔
۴۔ ہر قاتل سزا کا مستحق ہوگا۔
۵۔ کسی کے قتل ناحق پر اگر ورثاء رضا مندی سے خون بہا لینے پر آمادہ نہ ہوں
تو قاتل کو جلاد کے حوالے کیا جائے گا۔
۶۔ تمدنی وثقافتی معاملات میں یہودیوں کو مسلمانوں کے برابر حقوق حاصل ہوں
گے ۔
۷۔ یہودی اور مسلمان ایک دوسرے کے حلیف ہوں گے ، کسی سے لڑائی اور صلح کی
صورت میں دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے ۔
۸۔ مسلمانوں پر جارحانہ حملے کی صورت میں یہودی مسلمانوں اور یہودیوں پر
حملے کے صورت میں مسلمان ان کے ساتھ دیں گے ۔
۹۔ قریش یا ان کے حلیف قبائل کی یہودی مدد نہیں کریں گے ۔
۱۰۔ یہودی اور مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کے اختلافات کی صورت میں عدالت
آنحضرت ﷺ کی ہوگی اور ان کا فیصلہ قطعی ہوگا۔
۱۱۔ اسلامی ریاست کے سربراہ آنحضرت ﷺ کی ذات ہوگی اور یہودی بھی آپ کی
قیادت وسیادت تسلیم کریں گے، اس طریقے سے آنحضرت ﷺمسلمان اور یہودیوں کی
متحدہ افواج کے سربراہ بھی ہوں گے۔
۱۲۔ ان کے اندرونی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی ۔
۱۳۔ شہر مدینہ میں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کرنا ممنوع ہوگا ۔
آج دنیا میں لوگ گلوبلائزیشن کی وجہ سے بلا تفریق رنگ ،نسل اور مذہب ایک
ساتھ رہائش پر مجبور ہیں،وہی مدینے والی صورتِ حال ہے،میثاق مدینہ میں عدل،
انصاف اورمساوات کی بنیاد ’’ہم وطن‘‘ ہونے پر ہے، وطن کو مذہب اور مذہب کو
وطن کے مخالف و مقابل سمجھنے کے بجایئے ان دونوں کو ایک دوسرے کا معاون
گمان کیا جائے،یہی بات خدا کرے طالبان اور ہماری افواج کے دل ودماغ میں
آجائے، کیونکہ پاکستان ہو یا کوئی اور ملک اگر اسے پر امن بقائے باہمی
درکار ہے، تواسے شہری و انسانی حقوق کی رعایت کرتے ہوئے میثاق مدینہ کو من
وعن فالو کرنا ہوگا۔ |
|