ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم
(پروفیسر یونس حسن, kasur)
ڈاکٹر مقصود حسنی بطور مترجم
از پروفیسر یونس حسن
ڈاکٹر مقصود حسنی ایک نامور محقق‘ نقاد اور ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ایک
کامیاب مترجم بھی ہیں۔ انہوں نے جن فن پاروں کا ترجمہ کیا ہے ان پر طبع زاد
ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ ان کے تراجم سادگی سلاست اور رونی کا عمدہ نمونہ
ہیں۔ ایک کامیاب مترجم کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اصل کے مفاہیم کو خوب
ہضم کرکے ترجمے کا فریضہ انجام دے تا کہ ترجمہ اصل کے قریب تر ہو۔ موصوف کے
تراجم کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اصل کی تفہیم پر دسترس حاصل
کرنے کے بعد ہی یہ کام کیا ہے۔
ان کے تراجم روایت سے ہٹ کر ہیں۔ یہاں تک کہ متعلقہ فن پارے کی ہیئت سے بھی
تجاوز کیا ہے۔ اس کی مثال رباعیات کا سہ مصرعی ترجمہ ہے جسے برصغیر کے
نامور علما نے پسند کیا اور حسنی صاحب کو اس کام پر داد بھی دی۔ ان کے
تراجم میں ایک ندرت اور چاشنی پائی جاتی ہے۔ ان کے تراجم کو جہاں ایک نئی
جہت عطا ہوئی ہے وہاں الفاظ پر ان کی غیر معمولی گرفت کا بھی اندازہ ہوتا
ہے۔
حسنی صاحب کے تراجم کے مطالعہ سے یہ بھی کھلتا ہے کہ مترجم لفظ کے نئے نئے
استعمالات سے آگاہ ہے۔ ڈاکٹر ابو سعید نورالدین نے ان تراجم پر بات کرتے
ہوئے درست کہا تھا:
واقعی تعجب ہوتا ہے۔ آپ نے رباعیات کا اردو ترجمہ چہار مصرعی کی بجائے سہ
مصرعی میں اتنی کامیابی کے ساتھ کیسے کیا۔ یہ آپ کا کمال ہے۔
ترجمے کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ مترجم کی اس میں مکمل دلچسپی ہو ورنہ اس کی
ساری محنت اکارت چلی جائے گی۔ حسنی صاحب نے ترجمے کا کام پوری دلچسپی اور
بھرپور کمٹ منٹ کے ساتھ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تراجم اصل کی بھرپور
نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے رباعیات خیام کے تراجم کے حوالہ سے پروفیسر کلیم
ضیا نے کہا تھا:
سہ مصرعی ترجمے ماشاءالله بہت عمدہ ہیں۔ ہر مصرعہ رواں ہے۔ ابتددائی دونوں
مصرعے پڑھ پڑھ لینے کے بعد مفہوم اس وقت تک واضح اور مکمل نہیں ہو سکتا جب
تک کہ مصرع سوئم پڑھ نہ لیا جائے۔ یہی خوبی رباعی میں بھی ہے کہ چوتھا مصرع
قفل کا کام کرتا ہے۔:
ان کے تراجم کا یہی کمال نہیں کہ وہ اصل کے مطابق ہیں بلکہ ان میں جازبیت
اور حسن آفرینی کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ بڑھتے جائیں طبیعت بوجھل نہیں
ہوتی۔ ان کے تراجم میں پایا جانے والا فطری بہاؤ قاری کو اپنی گرفت میں لے
لیتا ہے۔ شاید اسی بنیاد پر ڈاکٹر عبدالقوی ضیاء نے کہا تھا:
حسنی صاحب ماہر تیراک اور غوطہ خور ہیں ان کے سہ مصرعوں میں اثرآفرینی ہے‘
روانی ہے‘ حسن بیان ہے‘ تازہ کاری اور طرحداری ہے۔ قاری کو مفہوم سمجھنے
میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی بلکہ لطف آتا ہے۔
گویا ان کا مخصوص اسلوب تکلم اور طرز ادا ترجمے کو کہیں بھی خشک اور بےمزہ
نہیں ہونے دیتا بلکہ اس کی اسلوبی اور معنوی سطح برقرار رہتی ہے۔
انہوں نے عمر خیام کی چوراسی رباعیات کا اردو ترجمہ کیا۔ یہی نہیں اپنی
کتاب۔۔۔۔۔ شعریات خیام۔۔۔۔۔ میں خیام کی سوانح کے ساتھ ساتھ چار ابواب میں
ان کا تنقیدی و لسانی جائزہ بھی پیش کیا۔
پچاس ترکی نظموں کا اردو ترجمہ کیا اس ترجمے کو ڈاکٹر نوریہ بلیک قونیہ
یونیورسٹی نے پسند کیا۔
یہ ترجمہ ۔۔۔۔۔ستارے بنتی آنکھیں۔۔۔۔۔ کے نام سے کتابی شکل میں پیش کیا
گیا۔
انہوں نے فینگ سیو فینگ کے کلام پر تنقیدی گفتگو کی۔ ان کا یہ تنقیدی
مضمون۔۔۔۔۔ فینگ سیو فینگ جذبوں کا شاعر۔۔۔۔۔۔ کے عنوان سے روزنامہ نوائے
وقت لاہور کی اشاعت اپریل ٧‘ ١٩٩٨ میں شائع ہوا۔ اس کی نظموں کے ترجمے بھی
پیش کیے۔
اس کے علاوہ معروف انگریزی شاعر ولیم بلیک کی نظموں کا بھی اردو ترجمہ کیا۔
ان کے یہ تراجم تجدید نو میں شائع ہوئے۔
قراتہ العین طاہرہ کی غزلوں کا پنجابی اور انگریزی آزاد ترجمہ کیا۔
سو کے قریب غالب کے اشعار کا پنجابی ترجمہ کیا۔ ان کے یہ تراجم انٹرنیٹ پر
دستیاب ہیں۔ |
|