گیدڑاور خشک سالی
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
انسان اور حیوان کی زندگی متوازی
خطوط پر رواں ہے۔ افریقہ والوں کی اکثر لوک کہانیاں اور حکایتیں جانوروں سے
متعلق ہیں۔ جانور افریقہ کے دیہاتی کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ سفید فام
انسانوں کی آمد سے مقامی باشندوں کی زندگی میں تغیر رونما ہوا، لیکن ان کے
تمدن کی تاریخ ان کی یہ لوک کہانیاں اور حکایتیں ہیں۔ گیڈر اور خشک سالی
افریقہ کی بہترین حکایت تصور کی جاتی ہے۔ …………… یہ اس زمانے کا ذکر ہے۔ جب
درندے دیہات میں مل جل کر زندگی بسر کرتے تھے اور قدرت نے انہیں قوت گویائی
بھی عطا کر رکھی تھی۔ ایک سال بارش نام کو بھی نہ ہوئی۔ علاقے کے سب ندی
نالے اور تالاب خشک ہوگئے۔ پانی کی قلت سے ہزاروں جانور مر گئے۔ جانوروں کا
یہ حال دیکھ کر شیر ببر نے سب جانوروں کا اجلاس بلایا اور اجلاس میں کہا کہ
کچھ ایسا بندوبست کرنا چاہیے کہ آئندہ خشک سالی سے ہم اپنی جانیں محفوظ رکھ
سکیں۔ ’’ہمیں ایسے ملک میں چلنا چاہیے جہاں خشک سالی کا خطرہ نہ ہو۔‘‘
لنگور نے تجویز پیش کی۔ یہ سن کر کچھوا بولا۔ ’’میں اتنا طویل سفر نہیں
کرسکتا۔ راستے میں مرجائوں گا۔‘‘ ’’ہمیں خشک سالی کا عرصہ سو کر گزارنا
چاہیے۔‘‘ سانپ کی یہ تجویز تھی۔ ’’لیکن میں اتنا طویل عرصہ سو نہیں سکتا۔‘‘
خرگوش نے کہا۔ آخر بڑی بحث و مباحثے کے بعد گیدڑ اور بھیڑیے نے یہ تجویز
پیش کی کہ تمام جانور مل کر ایک تالاب کھو دیں۔ بارش کے موسم میں تالاب بھر
جائے گا اور ہم خشک سالی سے محفوظ رہیں گے۔ یہ تجویز سب جانوروں نے منظور
کرلی۔ دوسرے روز تالاب کھودنے سے پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر جانور باری
باری کھودنے کا کام کرے اور یہ بھی طے کیا گیا کہ چونکہ بھیڑیے اور گیدڑ کی
یہ مشترکہ تجویز تھی لہٰذا سب سے پہلے بھیڑیا کام کرے اور سب کے بعد گیدڑ……
کھدائی شروع کی گئی اور آخر میں جب گیدڑ کی باری آئی تو وہ غائب تھا۔ چونکہ
تالاب تقریباً مکمل ہوچکا تھا۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ گیدڑ کے بغیر ہی
کام کرلیا جائے۔ چند روز کے بعد موسلا دھار بارش ہوئی۔ تالاب صاف اور میٹھے
پانی سے لبالب بھر گیا۔ پھر جانوروں نے یہ قانون بنا دیا کہ اس تالاب سے
پانی پینے کی اجازت اسے ہی ہے جس نے کھدائی میں مدد کی تھی۔ پاس ہی جھاڑیوں
میں چھپا ہوا گیدڑ یہ سن رہا تھا۔ دوسرے روز بہت سویرے گیدڑ تالاب پر آیا
اور خوب جی بھر کر پانی پیا۔ پھر اس نے اپنا یہ معمول بنا لیا کہ جانوروں
سے بہت پہلے تالاب پر آتا اور چوری چوری پانی پی کر بھاگ جاتا۔ چند دنوں کے
بعد وہ اتنا دلیر ہوگیا کہ ایک صبح نہ صرف اس نے پانی پیا بلکہ تالاب میں
نہاتا رہا۔ جب باقی جانور تالاب پر آئے تو انہوں نے پانی کو گدلا پایا۔
’’یہ کس نے کیا ہے؟‘‘ شیر غرایا۔ ’’یہ کس کی شرارت ہے؟‘‘ چیتا چیخا۔ ’’یہ
کون ہے؟‘‘ سب جانور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے۔ مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ
یہ کس کا جرم ہے۔ ’’میں آپ کو بتاتا ہوں کہ مجرم کو پکڑنے کے لیے ہمیں کیا
کرنا چاہیے۔‘‘ کچھوے نے کہا۔ ’’میری پشت پر موم لیپ دیجیے اور میں ساری رات
تالاب کے کنارے بیٹھ کر چور کا انتظار کروں گا اور اس بدمعاش کو ضرور پکڑ
لوں گا۔‘‘ کچھوے کے خول پر اچھی طرح موم کی تہہ جما دی گئی اور کچھوا تالاب
کے کنارے پر بیٹھ کر چور کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے اپنا سر، دم اور پائوں
خول میں چھپالیے۔ اس طرح وہ خاکستری رنگ کا ایک پتھر دکھائی دیتا تھا۔
تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد وہ اپنا سر خول سے باہر نکال کر ادھر ادھر جھانکتا
کہ کہیں کوئی آ تو نہیں رہا۔ ساری رات انتظار کرنے کے بعد اسے جھاڑیوں میں
کھڑکھڑاہٹ سنائی دی۔ کچھوا جلدی سے تالاب کے کنارے کھسک گیا اور اپنے
پائوں، سر اور دم کو خول میں چھپا کر پتھر کی مانند بے حس و حرکت بیٹھ گیا۔
اتنے میں گیدڑ جھاڑیوں سے باہر نکلا اور اپنے گردو پیش اچھی طرح دیکھ کر اس
نے اطمینان کرلیا کہ کوئی تالاب پر پہرہ تو نہیں دے رہا۔ پائوں رکھنے کے
لیے یہ کتنا اچھا پتھر ہے۔ گیدڑ نے سوچا اور اپنے اگلے دو پائوں کچھوے کے
خول پر رکھ دیے۔ اپنی گردن کو جھکا کر پانی پینے ہی لگا تھا کہ اسے کچھ
محسوس ہوا وہ گھبرایا اور پریشان ہوا۔ اس کے دونوں پائوں پتھر پر جم گئے۔
’’آ… او… آاو… مجھے جانے دو۔ یہ ذلیل چال ہے۔‘‘ گیدڑ چیخا۔ ’’صرف تم ہی
دھوکا نہیں جانتے۔‘‘ کچھوے نے کہا اور ساتھ ہی تالاب کے کنارے سے ہٹنے لگا۔
’’مجھے جانے دو۔‘‘ گیدڑ پھر چیخا۔ ’’اگر تم نے مجھے جانے نہ دیا تو میں
اپنی پچھلی ٹانگوں سے تمہارے خول کے پرخچے اڑادوں گا۔‘‘ ’’جو جی میں آئے
کرو۔‘‘ کچھوے نے جواب دیا اور تالاب سے دور ہٹ گیا۔ گیدڑ نے پورے زور سے
اپنا پچھلا پائوں خول پر مارا اور اس کے بعد دوسرا پائوں بھی مار دیا۔ اس
طرح اس کے چاروں پائوں خول پر جم گئے۔ ’’مجھے جانے دو۔‘‘ گیدڑ غرایا۔ ’’اگر
اب تم نے مجھے جانے نہ دیا تو اپنے دانتوں سے تمہارے دو ٹکڑے کردوں گا۔‘‘
’’کوشش کرو… پھر دیکھو کہ کیا ہوتا ہے۔‘‘ کچھوے نے بڑے اطمینان سے جواب دیا
اور اپنی راہ چلتا گیا۔ گیدڑ نے زور سے خول پر دانت مارے مگر اس کا جبڑابھی
اس پر جم کر رہ گیا۔ اس طرح کچھوا گیدڑ کو اپنی پشت پر لاد کر شیر کے گھر
لے گیا اور شیر کو سارا ماجرا کہہ سنایا کہ کس طرح اس نے چور اور دھوکے باز
گیدڑ کو گرفتار کیا ہے۔ جب جانوروں نے یہ خبر سنی تو سب گیدڑ کو دیکھنے کے
لیے وہاں جمع ہوگئے۔ کسی نے بھی گیدڑ کی اس حالت پر رحم نہ کھایا بلکہ ہر
ایک نے یہ رائے ظاہر کی کہ گیدڑ کو بددیانتی اور فریب دہی کے جرم میں سزائے
موت دی جائے۔ ’’تمہاری زندگی کل تک ہے۔‘‘ شیر نے کہا۔ ’’ہم تم سے اتنی
رعایت کرسکتے ہیں کہ تم خود ہی اپنی موت کا طریقہ منتخب کرو۔‘‘ ’’آپ کا
شکریہ۔‘‘ گیدڑ نے مردہ سی آواز میں کہا اور پھر سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کوئی
ایسا طریقہ ہوسکتا ہے جس سے اس کی جان بچ سکے۔ دوسرے سب جانور گیدڑ کی
سزائے موت کو دیکھنے مقررہ جگہ پرپہنچ گئے۔ بھیڑیے کو جلاد بنایا گیا۔
’’کیا تم فیصلہ کرچکے ہو کہ تمہیں کس طرح ہلاک کیا جائے؟‘‘ شیر نے پوچھا۔
’’میں نے ایک دفعہ بندر کو چوہا ہلاک کرتے دیکھا تھا۔ اس نے چوہے کو دم سے
پکڑ کر گھمایا اور پھر درخت کے تنے پر زور سے دے مارا۔ میں ایسی ہی موت
مرنا چاہتا ہوں۔‘‘ گیدڑ نے جواب دیا۔ ’’اگر مجھے اتنی آزادی حاصل ہو تو میں
ایک اور تجویز پیش کروں؟‘‘ ’’ہاں کہو۔‘‘ شیر نے کہا۔ ’’مجھے یہ کہنے کی
اجازت دی جائے کہ آپ سب یہاں سے دور دور کھڑے ہوجائیں کیونکہ جب بھیڑیا
گھما کر مجھے پھینکے گا تو ممکن ہے کہ میں درخت کی بجائے آپ پر گر پڑوں اور
یہ میری بدقسمتی ہوگی۔‘‘ جانوروں نے اس تجویز کو منظور کرلیا اور درخت سے
دور جاکر بیٹھ گئے۔ یہاں سے وہ گیدڑ کی سزا کو اچھی طرح سے دیکھ سکتے تھے۔
رات کو کھانے کیلئے گیدڑ کو جو گوشت دیا گیا تھا، اس میں سے اس نے چربی بچا
رکھی تھی اور صبح ہوتے ہی اس نے چربی اپنی دم پر لگا دی۔ اب اس کی دم مکھن
کی گولی کی مانند چکنی ہوگئی تھی۔ بھیڑیا آگے بڑھا اور گیدڑ کو دم سے پکڑ
کر پورے زور سے اپنے سر کے اوپر گھمانے لگا۔ جتنی تیزی سے بھیڑیئے نے اسے
گھمایا، اتنی ہی تیزی سے اس کی گرفت سے دم پھسلنی شروع ہوگئی۔ انتہائی کوشش
کے باوجود بھیڑیا دم کو قابو میں نہ رکھ سکا اور اس سے پہلے کہ اسے معلوم
ہوتا کہ کیا ہوا ہے۔ گیدڑ دور زمین پر صحیح سلامت جاگرا۔ گرتے ہی اٹھا اور
اپنی جان بچا کر جنگل میں غائب ہوگیا۔ چونکہ بھیڑیے کی گرفت سے اچانک گیدڑ
کی دم نکل گئی تھی، اس لیے وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور اچانک سے
درخت کے تنے سے ٹکرایا۔ دور بیٹھے ہوئے جانور اس واقعہ سے اتنے حیران ہوئے
کہ ان میں سے ایک بھی گیدڑ کے تعاقب میں نہ دوڑا۔ اس دن کے بعد پھر کبھی
گیدڑ تالاب پر نہیں آیا۔ مدتیں گزر گئیں۔ تالاب کے بنانے والے جانور مر کھپ
گئے۔ اب بھی سب جانوروں کو اس تالاب کا پتہ ہے اور وہ اپنی پیاس بجھانے اس
تالاب پر آتے ہیں مگر کچھوا گیدڑ کا جرم نہ بھلا سکا اور آج بھی تالاب کے
کنارے ساری رات بیٹھا رہتا ہے تاکہ کوئی پانی کو گندا نہ کردے۔ (افریقہ کی
حکایت) ٭…٭…٭ |
|