گمنام ایڈیٹران کے نام ایک خط

السلام علیکم ورحمة الله!
امید کہ احوال بخیر ہوں گے.
اللہ آپ لوگوں کو آپ کے صحافتی مشن میں کامیاب کرے!
چوں کہ یہ وقت جس میں ہم اور آپ ہیں صاف ستھری صحافت ستھری صحافت کو زندہ رکھ پانا مشکل ہورہاہے.صحافی حضرات نے چند ٹکوں کے عوض اپنی قدریں کھو دی ہیں.اس پیشہ سے جڑے کچھ ہی افراد ہوں گے جو اس کی روح کوسمجھ پارہے ہیں. ورنہ موجودہ صحافت سیاسی ٹولوں کا غلام بن کر رہ گئی ہے.اخبار مالکان اوراس اخبار سے جڑے افراد گویا ان نیتاؤں کے بندھوا مزدور ہوں. قلم کا استعمال عوامی انصاف کے لئے نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کے جھوٹے کارناموں کی تشہیر اور سینیماؤں کے promotion کے لئے ہوتاہے.یا پھر خبریں انہیں کی شائع کی جاتی ہیں جن سے صحافیوں کا مفاد جڑاہو.اگر کسی نے حق بات کہی تو اس کو نہ شائع کر ان کی آواز کو دبا دیاجاتاہے.خبریں حقیقت سے دور اس طرح سے توڑ مروڑ کر کر تیار کی جاتی ہیں کہ مجرم بری ہوجاتاہے اور مظلوم اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹتاہے.آج کی صحافت یہ ہے کہ منصوبہ بندی سے کسی معصوم کی جان لے لی جاتی ہے اور صحافی کے قلم کا زور کذب بیانی کی بنیاد پر اس موت کو ایک حادثہ ثابت کردیتا ہے.یہ سارا پیسے کا کھیل ہے کہ جس نے ہمارے ضمیر کا سودا کرلیا اور ہم خود کو لاچار،مجبور اور بے بس پاتے ہیں.اور یہ بے بسی یوں ہی نہیں غالب ؟؟؟ان کا رشوت میں دیاجانے والا نمک ہمارے خون میں ہے.ہم نے ان کی چائے پی ہے.ہماری موٹرسائیکل میں تیل انہیں کے پیسوں کا ہے.ان کے دیالو دست سے ہم نوازے گئے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ ہمار راشن پانی سب ان ہی کی کرپا سے چلتاہے.

اللہ کی پناہ!!!
کیسا ہوگا قوم اور سماج کا مستقبل؟؟؟ جب انصاف بولنے والا قلم صرف چند سکوں اور وقتی آسائش کے بدلے بک جائے.اس کا زور ٹوٹ جائے.اس کا ترنگ غائب ہوجائے.

اب بھی وقت نہیں گیا.سنبھلنا چاہیں توسنبھل سکتے ہیں.ہمارا قلم پھر سے سچ بولے گا.مظلوموں کا حمایتی ہوگا. کمزور و ناتواں اس کی تحریر کے سائے میں خود کومحفوظ تصور کریں گے .پھر سے اس کی مسیحائی کی مثالیں پیش کی جائیں گی.مجرمین کیفر کردارکوپہنچیں گے.امن کی بالادستی ہوگی.اور یہ سارا کچھ ممکن ہے.اگر اس پیشہ میں شفافیت لائی جائے. اور اس میدان سے جڑا ہر فرد اپنی ذمہ داری اور صحافت کی روح کو سمجھے.اپنی طاقت کوجا نیں.
شاعرکہتا ہے:"قلم گویدکہ من شاہ جہاں نم "
شاعر کامشہور یہ مصرع بڑے بول پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس میں صدفیصد سچائی ہے.قلم نے اپنی طاقت کو بطور"چوتھی طاقت"کے منوالیاہے.ایوان اس کے زور سے خائف رہتاہے.سیاسیوں کے کپڑے گیلے ہوجاتے ہیں جب یہ اس کی گھن گرج سنتے ہیں.

اب اٹھو کہ......

ضمیر کے سوداگر تمہارے ایمان کا سودا چاہتے ہیں.
تمہاری بیش بہا خودداری کو للکار رہے ہیں.
تمہیں بزدل اور کائر خیال کرتے ہیں.
.
.
.
لیکن تم بزدل نہیں ہو بہادر ہو.
تم اپنی کھوئی ہو ئی طاقت کو محسوس کرو.سماج کو انصاف دلانا اور ظلم کی نسل کشی تمہاری ذمہ داریوں کی اساس میں شامل ہے.
اس لئے بزدلی،کاہلی اور خوف سے باہر نکلو اور مظالم کے خلاف عدل و انصاف کا ایسا قلعہ تعمیر کرو کہ ظلم بے دانہ اور پانی اس میں محصور ہو کررہ جائے.

نوٹ:
شاید بعض افرادکو میری اس تحریر میں جذبات کا پہلو غالب نظر آئے.مگر اس جذبات کے پیچھے حقیقتوں کا عکس ضرور دکھائی دےگا.
md.shakir adil
About the Author: md.shakir adil Read More Articles by md.shakir adil: 38 Articles with 53073 views Mohammad shakir Adil Taimi
From India
.. View More