حوا کی بیٹی اب کہیں بھی محفوظ نہیں ہے

آج کل میڈیا سوشل میڈیا پر نت نئی خبروں کا تانتا بندھا رہتا ہے، ہر روز ایک نئی دل دہلا دینے والی خبر اخبار کی زینت بنتی ہے، کچھ روز قبل ہماری نظر ایک خبر پر پڑی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی کا اسکینڈل منظر عام پر آیا۔ جس میں یونیورسٹی کے پروفیسر نے اپنی شاگرد لڑکی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ اس خبر نے بندہ نا چیز کے دل کو ہلا کر رکھ دیا، دل غم سے چور آنکھیں پر نم اور قلم لڑکھڑا رہا ہے، معاشرہ تو پہلے ہی برائیوں اور جرا‏‏ئم کی آماد جگہ بنا ہوا ہے، اب تدریس گاہیں و تعلیم کے شعبے اور دینی مدرسے بھی محفوظ نہیں رہے، اب حوا کی بیٹی اسکولز کالج اور یونیورسٹیوں اور کمسن نا بالغ بچے دینی مدرسوں میں بھی محفوظ نہیں رہتے، استاد تو بڑے بلند و بالا مرتبے پر فائز ہوتے ہیں، والدین کے بعد استاد کا مرتبہ آتا ہے، استاد کو روحانی باپ بھی کہا جاتا ہے، مگر جب استاد بھی ایسا کررہے ہیں، تو دل شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے، مگر سب کو برا نہیں کہا جاسکتا-

ہم کہتے ہیں کہ مردوں کو مرد پڑھائیں اور عورتوں کو عورتیں پڑھائیں، آج مخلوط نظام تعلیم معاشرے کی تعمیر کرنے کے بجائے اس کی تخریب میں لگا ہوا ہے، ماں کی گود سے لے کر لحد تک علم حاصل کرنا فرض ہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے، کہ اگر علم کے حصول کے لیے چین جانا پڑے تو بھی جائو، والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو علم کے حصول کے لیے کالج یونیورسٹی بھجیے مگر آج کے والدین کو حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے احتیاط برتنا چاہیے، سمجھ میں نہیں آتا کہ والدین اپنی بیٹیوں کو مردوں کے پاس نہ صرف پڑھنے بلکہ کالج یونیورسٹیوں کے ہاسٹلوں میں رہنے کے لیے کیوں بھیج دیتے ہیں۔ اور پھر جب انکی بہن یا بیٹی کی عزت کا پھول شہوت پرست مردوں کی ہوس کا شکار ہوجاتی ہے، تو پھر روتے پھرتے ہیں۔

اوپر سے ہمارا میڈیا ایسے واقعات کی کوریج کرکے حقیقت کو آشکار کرنے کے ساتھ بے آبرو کی گئی لڑکی والوں کو اور زیادہ ذلیل کردیتا ہے، ایسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہونے کی اہم وجہ حدود و قصاص کا نافذ نہ ہونا ہے۔ حیرت ہوتی ہے، ایسے لوگوں پر جو اپنی عزتوں کی کھیتی پر ملعون نا پاک مردوں کا پانی تو ڈلوا لیتے ہیں، مگر در حقیقت معاشرے میں ایسی گھٹیا حرکات و سکنات کو ختم کرنے کے لیے عزتوں کے محافظ نظام حدود و قصاص کے نفاذ سے ڈرتے ہیں، حدود و قصاص سے وہی لوگ ڈرتے ہیں، جو معصوم اور بے داغ عزتوں کے لٹیرے ہوتے ہیں، ایسے لٹیرے ہمارے معاشرے میں ختم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں، یقین نہیں آتا تو آزما کر دیکھ لو، حدود و قصاص کی مخالفت میں سب سے آگے ملے گے، ہمارے معاشرے میں آج لوگ تعیلم یافتہ شعور یافتہ ماڈرن تو بہت ہیں، مگر مکمل انسان بننے میں نا کام ہیں، اسکی بنیادی وجہ اپنے دین کے احکامات سے دوری اپنے کلچر سے دوری ہیں، آج ہم اپنے دین کے حصولوں کو اپنے کلچر و تہذیب کے حصولوں کو اپنانے میں شرم محسوس کرتے ہیں، اور غیر ملکی کلچر و تہذیب کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، والدین اپنے بچوں سے انگریزی میں بات کرتے ہیں، اور بچوں کے انگریزی بولنے پر نا صرف خوش ہوتے ہیں، بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں، مانا کہ انگلش ترقی کی زبان ہے، پر مگر اردو ہماری پہچان اور مادری زبان ہے،

آج حوا کی بیٹی کہیں بھی محفوظ نہیں رہی، اگر عورت صیح ہے، تو مرد خراب ہے، مرد ٹھیک ہے، تو عورت خراب ہے، تالیاں ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہیں، مگر یہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے، کہ اب معاشرے میں بے داغ عزتوں کے لٹیرے کسی کی معصوم بیٹی یا بہن کو اپنی شہوت کی تسکین کے لیے ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، انکار کی صورت میں حوا کی بیٹی کو بلیک میل کرتے ہیں، اسکولز کالجز یونیورسیٹیز اور دینی مدرسے بھی اب محفوظ نہیں رہے، معصوم نا بالغ بچیوں کو جن کی عمریں دس برس سے بھی کم ہوں اغوا کرکے زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یہ ایسے واقعات ہیں، جن سے ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیں، ملک میں اسے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے،

آج کے دور میں جہا‎ں موبائل انٹر نیٹ نے ہمارے لیے بہت سی آسانیاں اور سہولتیں پیدا کردی ہیں، یہی چیزیں معاشرے میں برائیوں کا اہم سبب بھی بن رہے ہیں، موبائل اور انٹر نیٹ کے بے جا استعمال سے فحاشی برائیوں اور لا تعداد جرائموں کو تقویت مل رہی ہیں، آج ہم موبائل فونز اور انٹر نیٹ کا ٹھیک استعمال کرنے کے بجائے غلط استعمال کررہے ہیں، قصور وار موبائل فونز اور انٹر نیٹ نہیں ہیں، بلکہ ہم خود قصور وار اور مجرم ہیں، کیونکہ ہم اس جدید ٹیکنالوجی کا درست استعمال کرنے کے بجائے غلط استعمال کررہے ہیں،
ترقی یافتہ ممالک کی عوام اس ٹیکنالوجی سے ترقیاں کررہی ہیں، اور ہم اس جدید سہولت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اپنا نقصان کررہے ہیں، وقت برباد کررہے ہیں، آگے جانے کے بجائے ہم ابھی تک پیچھے ہیں،، میری والدین سے گزارش ہیں کہ وہ خدا راہ اپنے بچوں کو موبائل فونز اور انٹر نیٹ کا درست استعمال کرنے کی نصیت کریں، اور اپنے بچوں کو دیکھ بھال کر حصول علم کے لیے بھیبے خاص کر اپنی کمسن بچیوں پر خصوصی توجہ دیں، اس کے علاوہ میڈیا کو بھی اپنا اصل کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ معاشرے میں فیشن پرستی اور فحاشی کو فروغ دینے میں میڈیا سر فہرست ہیں، میری اس تحریر سے اگر کسی کی دل آزاری ہوں تو میں آپ سے پیشگی معذرت کا طلب گار ہوں-

جنید بغدادی سے کسی نے پوچھا کہ کیا کوئی مرد کسی غیر محرم لڑکی کو پڑھا سکتا ہے؟
تو آپ نے فرمایا کہ اگر پڑھانے والا با یزید بسطامی ہوں اور پڑھنے والی رابعہ بصری ہوں، جس جگہ پڑھایا جارہا ہوں، وہ بیت اللہ شریف ہوں اور جو کچھ پڑھایا جائے وہ قرآن پاک ہوں، پھر بھی اجازت نہیں،
Mohsin Shaikh
About the Author: Mohsin Shaikh Read More Articles by Mohsin Shaikh: 69 Articles with 61172 views I am write columnist and blogs and wordpress web development. My personal website and blogs other iteam.
www.momicollection.com
.. View More