ماحول میں بڑھتی ہوئی آلودگی
اورگلوبل وارمنگ کے سبب بڑی تیزی سے نہ صرف پوری دُنیاکاموسمی نظام
متاثرہورہاہے بلکہ ماحولیاتی عدم توازن کاسبب بھی ہے ۔ماحولیاتی عدم توازن
کی وجہ سے پوری دُنیاپرسیلاب،بھونچال اورسائیکلون(طوفان) جیسی آفات کاخطرہ
منڈلارہاہے ۔ریاست جموں وکشمیرمیں حال ہی میں جوغیرمتوقع طورپرواردہوئے
غیرمعمولی سیلاب کی وجہ سے ریاست جموں وکشمیرکی عوام اورسرکارکی کروڑوں
روپے کی املاک تباہ وبربادہونے کے علاوہ سینکڑوں (سرکاری طورپرظاہرکیے
اعدادوشمارکے مطابق تین سوزائد)قیمتی انسانی جانیں بھی تلف ہوئیں۔ریاست میں
غیرمتوقع طورپرواردہوئے غیرمعمولی سیلاب کی بہت سی وجوہات ہیں ،جن میں سے
چندکی نشاندہی جودرج ذیل سطورمیں کی گئی ہے کامشاہدہ کرنے کے بعد
ظاہرہوجاتاہے کہ سیلابی قہرکی غیرمعمولی تباہی کوانسانوں نے خوددعوت دی تھی
۔جنگلات کابے دریغ کٹاﺅ:ریاست جموں وکشمیرسبزسونے کاایک بہت بڑے ذخیرے کے
طورپرمعروف ہے مگرگذشتوں کچھ برسوں سے سبزسونے کی لوٹ یعنی سرسبزجنگلات کی
بے دریغ کٹائیبڑے پیمانے پرہورہی ہے جس کی وجہ سے پوری دُنیامیں گلوبل
وارمنگ بڑھ رہی ہے ۔ریاست جموں وکشمیرمیںجنگلات کی کٹائی بڑے پیمانے پرہونے
کے سبب جنگلات کی شرح سکڑتی چلی جارہی ہے ۔جنگلات کم ہونے کی وجہ سے
ماحولیاتی آلودگی اورماحول میں مختلف وسائل مثلاً صنعتوں ،گاڑیوں وغیرہ سے
بڑے پیمانے پرنکلنے والی زہریلی گیسیںاوردھوا ں جذب نہ ہورہاہے کیونکہ
جنگلات (سرسبزپیڑے پودے ) کم ہیں اورزہریلی گیسیں اورماحولیاتی آلودگی کی
مقدارزیادہ ہے جوآلودہ گیسیں جذب نہ ہورہی ہیں اس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ
تیزی کیساتھ بڑھ رہی ہے جس کے مضراثرات مرتب ہونافطری باتہے۔گلوبل وارمنگ
بڑھنے کے سبب بروقت بارشوں کانہ ہونابڑاخطرہ بناہواہے اورغیرموزوں وقت
پربارش ہونے سے انسانی آبادی کےلئے بہت سے مسائل پیداہورہے ہیں۔بادلوں
کاپھٹنا، مسلسل تیزموسلادھاربارشوں کاہونا،غیرمعمولی طوفان وآندھی کے آنے
کے خطرات پوری ریاست پرمنڈلارہے ہیں اورریاست میں مسلسل موسلادھاربارشوں کے
سبب غیرمتوقع طورپرواردہواحالیہ غیرمعمولی سیلاب اس کی روشن مثال ہے جس نے
ریاستی سرکاراورعوام کوکروڑوں روپے کانقصان پہنچاکربڑی رقومات اورتگ
ودوکرکے بنائی گئے اثاثوں کوچندہی گھنٹوں اوردنوں میں ملیہ میٹ کرنے کے
علاوہ بڑے پیمانے پرانسانی جانوں کوبھی تلف کیا۔غیرمنصوبہ بندپالیسی کے تحت
تعمیرات اورپانی کی نکاسی کاغیرمعقول انتظام:ریاست جموں وکشمیر گھنی آبادی
والی ریاست ہے ۔ملک کی دیگرریاستوں کی طرح ریاست جموں وکشمیرکی آبادی بھی
تیزی کیساتھ بڑھ رہی ہے ۔آبادی بڑھنے کے سبب نئی تعمیرات کاہونافطری بات
ہے۔ریاست جموں وکشمیرکی بیشترتعمیرات(عمارتوں) کامعائنہ کرنے کے بعدبہ
آسانی اندازہ ہوجاتاہے کہ تعمیرات غیرمنصوبہ بندپالیسی کے تحت تعمیرکی گئی
ہیں۔ایسالگتاہے کہ شایدعمارتیں تعمیرکرنے سے متعلق سرکارنے رہنماخطوط
تیارہی نہ کی ہیں اوراگرکی ہیں توان رہنماخطوط کی عمل آوری کویقینی نہ
بنایاگیاجس کے سبب ہوایہ کہ اپنے فائدہ کومدنظررکھتے ہوئے جس نے جہاں
چاہاوہاں عمارت کھڑی کردی یہ سوچے سمجھے بغیرکہ سیلاب یابھونچال جیسی آفت
واردہونے کے نتیجے میں اس عمارت کاحشرکیاہوگا۔غیرمنصوبہ پالیسی کے تحت
تعمیرات ہونے کے سبب پوری ریاست بالخصوص شہرجموں اورسرینگرمیں پانی کی
نکاسی کاکوئی معقول انتظام نہ رہا۔شہروں میں بنائی گئی کالونیوں کاجائزہ
لینے کے بعدیہ احساس ہوتاہے کہ یہ کالونی نہیں بلکہ ایک ہی فلیٹ
ہے۔کالونیوں سے پانی کی نکاسی کےلئے نالیوں کاانتظام غیرمعقول ہے۔یہاں تک
کہ لوگوں نے دریاﺅں،جھیلوں ،چشموں کے کنارے جوکہ مذکورہ آبی ذرائع
کےاوورفلوہونے کے وقت پانی کے پھیلنے کی جگہ ہے ،وہاں بھی مکانوں،دکانوں
اوردیگرطرح کی تعمیرات کھڑی کردیں،پانی کی نکاسی اوربہنے کے راستوں تک
پرلوگوں نے قبضہ کرلیا۔ریاست جموں وکشمیرجوکہ جھرنوں،نہروں،چشموںاوردریاﺅں
کی سرزمین ہے اور چناب،جہلم،توی اوراوج ریاست میں بہنے والے اہم
دریاہیں۔حالانکہ ان دریاﺅں میں پانی کے اوورفلوہونے یاسیلاب کی صورت سے
نمٹنے کےلئے سرکارنے باندھ تعمیرکیے ہیں مگرابھی بھی ان باندھوں کی بنیادوں
کومضبوط کرنے،اوران کومزید بلندکرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ سیلاب میں ہرکسی نے
دیکھاکہ پانی نے اپنے بہنے کےلئے راستہ بنایا،انسان سمجھدارہے اس لیے انسان
نے سمجھداری کامظاہرہ نہ کیااورپانی کے ذرائع دریاﺅں،جھیلوں،چشموں کے دائرہ
میں آنے والی جگہوں پرغیرقانونی قبضہ کیاجس کاخمیازہ حالیہ سیلاب کے نتیجہ
میں لوگوں کوبڑے پیمانے پرمالی وجانی نقصان کے طورپربھگتناپڑا۔یہ لازمی امر
ہے کہ اگرپانی کی نکاسی کےلئے نالیوںکاانتظام نہ ہوگااورآبی وسائل کے دائرہ
میں آنے والی جگہوں اورپانی کے بہنے والے راستوں پہ قبضہ کیاجائے گاتوجب
سیلاب آئے گاتوپانی اپناراستہ بناکربہے گاجس کانقصان لوگوں کوہی ہوگا۔حالیہ
سیلاب کی صورت میں بھی لوگوں کے گھروں میں پانی چلاگیاجس کی وجہ ہمارے
سامنے ہے۔صرف لوگوں ہی نہیں بلکہ سرکارنے بھی اپنے دفاترجہاں پربنائے وہاں
پربھی پانی کی نکاسی کامعقول انتظام نہ کیاجس کاخمیازہ سرکارکوبھی
بھگتناپڑا۔مجموعی طورپرکہاجاسکتاہے کہ سرکارکی لاپرواہی کی وجہ سے آبی
ذراےع کے کنارے تعمیرکی گئی عمارتوں ،پانی کی نکاسی کے راستوں پہ انسانی
آبادی کے قبضے اورسرکارکی تعمیرات کےلئے رہنماخطوط کی تشکیل میں غفلت
اوراگررہنماخطوط تشکیل دیئے بھی گئے ہیں توان پرعمل درآمدمیں سرکارکی
ناکامی کے سبب حالیہ سیلاب میں بڑی تباہی کاسامناعوام اورسرکاردونوں
کوکرناپڑا۔حالیہ سیلاب نے ریاست بالخصوص سرینگرشہرمیں بڑے پیمانے پرتباہی
مچائی، پورا سرینگر شہر انسانی غلطیوں اورسرکارکی لاپرواہی کے سبب ایک جھیل
کی صورت اختیارکرچکاتھا۔اگرہم ریاست میں سیلابی قہرکی تاریخ کامطالعہ کریں
توپتہ چلتاہے کہ کئی دہائیوں کے بعدحالیہ غیرمعمولی سیلاب واردہوا۔جموں
وکشمیرمیں بخشی غلام محمدکے دوراقتدارمیں سیلاب آیاتھاجس نے
سرینگرشہرکومختلف حصوں میں منقسم کردیاتھا۔اُس وقت کی بخشی غلام محمدکی
سرکارنے سیلابی قہرکاسنجیدہ نوٹس لیااور1947 میں مرحوم بخشی صاحب نے
برطانیہ (انگلینڈ) سے انجینئروں کومدعوکیااورپادشاہی باغ تاجھیل وُلرتک
برسات کے دِنوں میں پیداہونے والی متوقع صورتحال سے نمٹنے کےلئے پانی کی
نکاسی کے راستوں کوتعمیرکرنے کامنصوبہ بنایا۔تب سے لیکراب تک ریاست جموں
وکشمیرمیں حالیہ سیلاب کے سواکوئی غیرمعمولی سیلاب نہ آیاجس نے غیرمعمولی
تباہی برپاکرکے قیمتی اثاثوں میں چندہی لمحات میں تہس ونہس کردیا۔وقت کے
گذرنے کے ساتھ ساتھ پانی کی نکاسی کے راستوں پرلوگوں نیزسرکاری محکموں نے
قبضہ کرکے غیرقانونی طورپرتعمیرات کھڑی کردیں۔وقت کاتقاضاہے کہ پانی کی
نکاسی کے راستوں کی نشاندہی کرکے ان کونئے سرے سے بازیاب کیاجائے اورنالوں
،دریاﺅں،جھیلوں اوربڑے چشموں وجھرنوں کی حدودمقررکی جائیں تاکہ شدیدبارشوں
کی وجہ سے غیرمتوقع طورپرسیلاب جیسی آفت واردہونے پراس سے نمٹنے میں آسانی
ہوسکے اورکروڑوں روپے کی املاک اورانسانی جانوں کے زیاں سے بچاجاسکے۔ریاستی
سرکارپریہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ قومی اورریاستی ڈیزاسٹرمنیجمنٹ
کمیٹیوں کے ماہرین کی تجاویزپرمن وعن عمل پیراہواورحالیہ سیلاب سے سبق سیکھ
کرتعمیرات کےلئے رہنماخطوط تیارکرکے مربوط پالیسی تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ
جنگلات کی کٹائی پرروک لگائے اورانسانی ضرورتوں کےلئے ہورہی جنگلات کی
کٹائی کی بھرپائی کےلئے ”پیڑلگاﺅزندگی بچاﺅ“مہم کاآغازکرے اور شہریوں
کوزیادہ سے زیادہ پیڑپودے لگانے کی طرف راغب کرے ۔لوگوں کوبیداری پروگراموں
کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی سے ہونے والے نقصانات اورجنگلاتی کی کٹائی
پرماحول پرپڑرہے مضراثرات کی جانکاری دی جانی چاہیئے اورساتھ ہی جنگلات کی
کٹائی میں ملوث افرادکیخلاف قانونی کاروانی کرنی چاہیئے۔پیڑلگاﺅزندگی
بچاﺅمہم کے فوائدکی جانکاری عام لوگوں تک پہنچانے کےلئے بیداری پروگراموں
کاانعقادکرنے کےلئے ٹھوس اقدامات اُٹھائے تاکہ ماحولیاتی توازن بحال ہوسکے
شہریوں کابھی فرض بنتاہے کہ وہ غیرمتوقع طورپرواردہونے والے سیلاب
یابھونچال وغیرہ جیسی آفات سے نمٹنے کےلئے سرکارکوبھرپورتعاون دیں تاکہ
آئندہ عوام جموں وکشمیرکوحالیہ غیرمعمولی سیلاب جیسی صورتحال سے نمنٹنے میں
آسانی ہو اورکم ازکم نقصان ہو۔سرکارکودریاﺅں،ندی نالوں اورجھیلوں کے
انتہائی قریبی علاقوں (سوکنگ ایریاز) تمام طرح مثلاً سرکاری ،غیرسرکاری
ونجی وغیرہ کی تعمیرات اورانسانی آبادی کے نقل وحمل پہ پابندی عائدکرنی
چاہیئے اوراس پابندی کوعملی جامہ پہناناچاہیئے۔حالیہ سیلاب کی وجوہات
کومدنظررکھتے ہوئے ریاستی سرکارکوچاہیئے کہ وہ سیلاب،بھونچال یاسائیکلوں
جیسی آفات سے نمٹنے کےلئے قبل ازوقت ہرلحاظ سے تیار رہے۔ شدید موسلادھار
بارشوں یادیگرکسی آفت کے امکان کی اطلاع قبل ازوقت لوگوں تک پہنچانی چاہیئے
تاکہ آئندہ سیلاب جیسی آفت سے نمٹنے میں آسانی ہواورجس پیمانے پرحالیہ
سیلاب سے تباہی ہوئی اس پیمانے پرتباہی نہ ہو۔ |